مشاہیر علمائے کرام

سید جعفر علی

مولوی سید قطب علی کے فرزند اکبر تھے، ۱۲۱۰ھ؁ میں بمقام مجھوا میر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں پائی، پھر لکھنؤ جا کر علوم کی تکمیل کی، والد ماجد اور چھوٹا بھائی سید حسن علی تکیہ شریفہ جا کر سید صاحب سے بیعت کر چکے تھے، سید جعفر علی بہ وجہ علالت نہ جا سکے، کچھ مدت بعد سید صاحب بہ غرض جہاد رائے بریلی سے سرحد چلے گئے اور سید جعفر علی کو شرف لقاء بھی حاصل نہ ہوا۔
باپ اور بھائی کی صحبت میں ان پر بھی سید صاحب کا رنگ چڑھ گیا، اس کے بعد دونوں بھائیوں میں سبقت بالخیر کے لیے کشاکش شروع ہو گئی، والدین کبیر السن تھے، دو بھائیوں کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا جو ان کی خبر گیری کرتا، بڑے کا اصرار تھا کہ چھوٹا گھر پر خبر گیری کے لیے موجود رہے اور میں جہاد کے لیے جاؤں، اور چھوٹا بار بار کہتا:
’’بڑے کو والدین کی خدمت میں رہنا چاہئے اور مجھے جہاد کے لیے جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ آخر چھوٹے نے یہ معاملہ آخری فیصلہ کے لیے بوڑھی والدہ کے سامنے پیش کر دیا، اس خدا دوست خاتون نے کہا کہ جو جانا چاہے اسے روکا نہیں جا سکتا، جو نہ جائے وہ گنہگار ہو گا، تم دونوںبھائی آپس میں فیصلہ کرو ہم اپنی عاقبت کیوں خراب کریں۔
قطعی فیصلہ:
اس اثنا میں سید جعفر علی کو ایک مقدمے کے سلسلے میں گورکھپور جانا پڑا وہاں سے لوٹے تو ان کے استاد مولوی حیدر علی کا خط آیا پڑا تھا کہ فقیر محمد خاں رسالدار کو ردروافض میں بعض رسائل وکتب کی تصحیح کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہے یہ خدمت قبول کر لو، لیکن سید جعفر علی سید صاحب کی خدمت میں پہنچنے کا عزم صمیم کر چکے تھے اسی لیے مولوی حیدر علی کو معذرت لکھ بھیجی، پھر منت سماجت کر کے چھوٹے بھائی کو خدمت والدین کے لیے ٹھہرنے پر راضی کر لیا اور خود جانے کے لیے تیار ہو گئے، گھر میں غلہ بہت تھا لیکن نقد روپئے زیادہ نہ تھے۔
ان کی شادی ہو چکی تھی گویا والدین کے علاوہ عیالداری کی زنجیر بھی ان کے پاؤں میں پڑ چکی تھی لیکن سلطان فرض کے حکم کی بجا آوری میں انہوں نے علائق کے تمام رشتوں سے بے تکلف انقطاع اختیار کر لیا، بھائی کے علاوہ کسی کو ان کے حقیقی ارادے کا علم نہ تھا۔
روانگی:
گورکھپور میں مقدمے کی پیروی کے لیے انہیں وقتاً فوقتاً جانا پڑتا تھا، دل میں طے کر لیا کہ وہیں سے منزل مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں، گھر میں صرف ایک گھوڑا تھا، اس پر حسب ضرورت والد یا دونوں بھائی سوار ہوتے تھے، چنانچہ بظاہر مقدمے کی پیروی کے لیے گورکھپور روانہ ہوئے، گھوڑے کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازم کو ساتھ لیا، رخصت ہوتے وقت والد ماجد سے عرض کیا کہ دعا فرمائیے اللہ تعالی مجھے فتح ونصرت سے واپس لائے، انہوں نے سمجھا کہ مقدمہ میں کامیابی کے لیے دعا کے طلبگار ہیں چنانچہ انہوں نے دعا کی۔
یوں صاحب عزم بیٹا والدین اور گھر بار سے رخصت ہوا اور اس منزل دشوار میں اس نے قدم رکھا جہاں سے زندہ واپس آنے کی امید موہوم تھی، بھائی چھ کوس تک ساتھ گیا، اپنی بندوق پیش کی، سید جعفر نے کہا کہ اسے اپنے پاس رکھو، مجھے خدا اور دے گا، بھائی نے روتے ہوئے کہا کہ جب آپ اللہ تعالی کی راہ میں جدا ہو رہے ہیں تو دنیا کی دولت میرے لیے کیا حقیقت رکھتی ہے۔
سید جعفر علی نے اسے تسلی دی اور وصیت فرمائی کہ والدین کی خدمت میں کوئی دقیقہ سعی اٹھا نہ رکھنا، سید جعفر علی نے اپنے بعض ہم مشرب دوستوں کو پہلے اطلاع دے رکھی تھی اور فیصلہ یہ ہوا تھا کہ تمام دوست مقررہ تاریخ پر ایک خاص جگہ جمع ہو جائیں، سید جعفر علی کا بھائی واپس چلا گیا تو ان کے ایک دوست شیخ داراب مل گئے اور دوسرے دوستوں کے انتظار میں دونوں نے اکٹھے سفر شروع کیا۔
راہ حق میں پہلا قدم:
عجیب بات یہ ہے کہ انسان راہ خدا میں قدم اٹھاتا ہے تو اکثر ابتدا ہی میں امتحان کی سختیاں پیش آجاتی ہیں، یہ غالباً قدرت کی طرف سے تربیت کا سازوسامان ہوتا ہے، سید جعفر علی گھر سے نکلے تھے تو برسات کا موسم تھا، دریا اور ندی نالے طغیانی پر تھے، اس وجہ سے مرور وعبور سخت مشکل تھا، طرفہ یہ کہ سفر کی پہلی ہی رات آشوب چشم کا عارضہ شروع ہو گیا اوراتنا شدید درد ہوا کہ رات بھر ایک لمحے کے لیے سو نہ سکے، رات موضع میر گنج میں گزاری، صبح اٹھے تو گھوڑا نوکر کو دے کر واپس کر دیا، تاکہ والد اور بھائی کو تکلیف نہ ہو، خود گورکھپور پہنچ گئے۔
دعوت وایثار:
اتفاق سے اسی زمانے میں انگریزوں نے ایک رسالے کو چھ مہینے کی تنخواہ انعام میں دے کر توڑ دیا تھا اور اس کے سوار نوکری سے فارغ ہو کر گورکھپور میں جمع تھے ان میں سے بعض سید جعفر علی کے دوست تھے، موصوف نے معاًانہیں راہ حق کی دعوت دی اور کہا کہ تم لوگ دنیا کی نوکری سے الگ ہو گئے ہو آؤ اب گھوڑے اور ہتھیارلے کر اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔
ان میں سے نجیب خاں نامی ایک شخص کے پاس چار گھوڑے تھے اس نے ایک گھوڑا فی سبیل اللہ سید جعفر علی کے حوالے کر دیا، دو گھوڑے بیچ کر ان کی رقم ضروری مصارف کے لیے گھر میں دے دی، چوتھا گھوڑا اپنی سواری کے لیے رکھ لیا اور بولا کہ ضروری کام کر کے میں بھی روانہ ہو جاؤں گا اگر آپ پہلے پہنچے تو سید صاحب کو میرا سلام پہونچا دینا، اگر میں پہلے پہنچا تو آپ کا سلام پہنچا دوں گا۔
سید جعفر علی نے اپنی کچھ چیزیں پانچ روپئے میں فروخت کیں، ایک اور شخص رفاقت کے لیے تیار ہو گیا لیکن بولا کہ میرے پاس سواری نہیںہے اور پیدل چل نہیں سکتا، سید جعفر علی نے نجیب خاں کا دیا ہوا گھوڑا اس کے حوالے کر دیا۔

Related posts

داراب گورکھپوری

Paigam Madre Watan

میر فیض علی گورکھپوری

Paigam Madre Watan

شیخ برکت اللہ گورکھپوری ( ۱۲۴۵؁ھ)

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar