تحریر: ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج،بارہ بنکی
محرم کا مہینہ آتے ہی تاریخ کا ایک باب دوبارہ آنکھوں کے سامنے کھل جاتا ہے۔ یہ باب صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔ عاشور، یعنی دس محرم، کربلا کی وہ خونچکاں داستان لیے ہوئے ہے جو صداقت، قربانی، صبر اور اصول کی معراج ہے۔ امام حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے پورے خاندان اور ساتھیوں کی قربانی دے کر حق کی وہ بنیاد رکھی جو آج بھی اہلِ ضمیر کے دل میں زندہ ہے۔
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا وہ عظیم باب ہے جو وقت کے ہر جابر کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ حکومت، لشکر، اور طاقت کے باوجود باطل کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے۔ حسینؓ کی قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر حق پر ڈٹ جانے کا حوصلہ ہو، تو تنہائی بھی طاقت بن جاتی ہے۔ امام حسینؓ نے وقت کے ظالم حکمران یزید کی بیعت سے انکار کرکے یہ ثابت کیا کہ دین کی سربلندی کسی شخص، حکومت یا دنیاوی فائدے کے لیے قربان نہیں کی جا سکتی۔
کربلا کا میدان صرف جنگ کا مقام نہیں بلکہ ضمیر کی بیداری کا منظرنامہ ہے۔ ایک طرف طاقت کا غرور، زر و زور کا جاہ و جلال اور جنگی ساز و سامان سے لیس یزید کا لشکر تھا، تو دوسری طرف حسینؓ کے قافلے میں معصوم بچے، پیاسے بزرگ اور وفادار جان نثار تھے۔ لیکن وقت نے یہ دکھایا کہ تعداد، طاقت اور حکومت وقتی ہوتی ہے، مگر اصول پر کھڑے ہونے والے ہمیشہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو پانی تک سے محروم کر دیا گیا۔ ناصرف اہلِ بیت کو بھوکا پیاسا رکھا گیا بلکہ بچوں، خواتین اور بیماروں تک پر ظلم کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ ان کے حوصلے کو توڑ نہ سکا۔ نہ کسی نے فریاد کی، نہ اصول سے ہٹنے کی بات کی۔ یہاں تک کہ علی اصغر جیسے شیرخوار بچے کو بھی تِیر کا نشانہ بنایا گیا، لیکن زبان پر شکوہ تک نہ آیا۔
کربلا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق کے لیے لڑنا ہو تو حالات کی سختی رکاوٹ نہیں بنتی۔ ظالم کے سامنے جھکنا آسان ہوتا ہے، مگر امام حسینؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ دین کی اصل روح صرف نماز، روزہ اور حج میں نہیں، بلکہ وقت کے باطل کے سامنے کھڑے ہونے میں بھی ہے۔ اگر حسینؓ چاہتے تو اقتدار سے سازباز کر لیتے، مگر انہوں نے قربانی کو ترجیح دی، کیونکہ ان کا مقصد دین کو بچانا تھا، نہ کہ دنیا حاصل کرنا۔
آج جب ہم یومِ عاشور مناتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم صرف ماتم و جلوس کے ذریعے امام حسینؓ سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں یا ان کے فلسفہِ قربانی کو اپنی زندگی میں بھی شامل کر رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں؟ کیا ہم حق پر کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ہماری یاد منانا محض رسم بن کر رہ جائے گا۔
کربلا کا سبق صرف ماضی کا نہیں، بلکہ آج کا بھی ہے۔ آج بھی دنیا میں یزیدیت مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ کہیں ناانصافی ہے، کہیں مذہبی منافرت، کہیں کمزوروں پر ظلم، کہیں سچ بولنے پر پابندیاں۔ ایسے میں اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو حسینؓ کے قافلے سے ہمارا تعلق رسمی رہ جاتا ہے۔ حسینؓ نے ہمیں بتایا کہ حق کے لیے اگر ایک بھی آواز بلند ہو، تو وہ تاریخ رقم کر سکتی ہے۔
حسینؓ کی شہادت ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اصل کامیابی وہ نہیں جو دنیا میں دکھائی دے، بلکہ وہ ہے جو اصولوں پر قربانی دے کر حاصل کی جائے۔ ظاہری طور پر حسینؓ کا قافلہ کربلا میں شہید ہوا، لیکن حقیقت میں وہی جیتا، اور یزید جو تخت پر بیٹھا تھا، تاریخ کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے رسوا ہو گیا۔
ہمیں عاشور کے دن صرف جلوس نکالنے، تعزیے اٹھانے یا نوحہ خوانی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی زندگیوں میں حسینؓ کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں، معاشرے، اور سماج میں انصاف، دیانت، سچائی اور حق گوئی کو زندہ کرنا ہوگا۔ یہی حسینؓ کی اصل تعلیم ہے، اور یہی ان کی قربانی کا مقصد بھی۔
یقیناً تلوار نے وار کیا، خیمے جلائے گئے، لاشے پامال کیے گئے، لیکن جب وقت کی عدالت نے فیصلہ سنایا تو حسینؓ کا نام عزت کا نشان بن گیا۔ تلوار ہار گئی، خون جیت گیا۔ یہی عاشور کا اصل پیغام ہے: اگر نیت پاک ہو، مقصد سچا ہو، اور حوصلہ بلند ہو، تو خون تلوار پر ہمیشہ غالب آتا ہے۔