Articles مضامین

بڑے بھائی شمیم اختر سلفی: مشفق رہنما، مخلص مربی

مطیع الرحمن عزیز 


زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ کبھی تنہائی کی تاریک گلیاں ہمیں گھیر لیتی ہیں، کبھی بے بسی کی لہریں ہمیں ڈبو دیتی ہیں، اور کبھی دنیا کی تلخیاں ہمیں چیلنج کرتی ہیں۔ ایسے لمحات میں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتوں کی مانند کچھ لوگ ہمارے راستے میں آتے ہیں جو نہ صرف سہارا دیتے ہیں بلکہ ہمیں نئی روشنی کی طرف لے جاتے ہیں۔ میرے لیے ایسا ہی ایک فرشتہ صفت ہیں بڑے بھائی شمیم اختر سلفی – میرے مشفق، میرے رہنما، میرے مخلص، میرے مربی و ہمنوا۔ ان کی شخصیت ایک ایسی مثال ہے جو نہ صرف رقابتوں کی بنیادیں مضبوط کرتی ہے بلکہ انسانی رشتوں کی گہرائی کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
جب میں نے دہلی کی سرزمین پر قدم رکھا، تو کروڑوں آدمیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمند، جنگل نما بلڈنگوں جیسا جال نما شہر اور اس کی چہل پہل اور مصروفیت میرے لیے ایک اجنبی خواب کی مانند تھی۔ گھر سے دور، رشتہ داروں کی گرمجوشی سے محروم، تنہائیوں اور بے بسی نے مجھے ایسا گھیرا کہ لگتا تھا جیسے سمندر کی لہریں مجھے نگل جائیں گی۔ اسی تاریک لمحے میں، جیسے قسمت کا ایک خوبصورت موڑ، مجھے بڑے بھائی شمیم اختر سلفی کے وجود کا عطیہ ملا۔ وہ نہ صرف میرے بڑے بھائی بنے بلکہ ایک ایسے سہارے کی مانند جو بے بس بھٹکتی روح کو پرسکون کرکے سنوار دیتا ہے۔ ان کی رہنمائی، جو دور اندیشانہ اور تجربہ کار شفقت سے بھری ہوئی تھی، نے مجھے فوری طور پر طاقت دی۔ دہلی کی گلیوں میں بھٹکنے والے اس نوجوان کو انہوں نے اپنے پاس بٹھایا، اپنے تجربات کی روشنی سے منور کیا، اور زندگی کی راہوں کو آسان بنانے کا فن سکھایا۔ ان کی باتوں میں ایک ایسی حکمت تھی جو کتابوں سے نہیں بلکہ زندگی کی راہ دیکھنے سے آتی ہے – ایک ایسی حکمت جو نئی جگہوں پر بکھرے خوابوں کو جوڑ دیتی ہے۔
جب میں بے بس اور لاچار ہوا، تو بڑے بھائی شمیم اختر سلفی نے مجھے سہارا دیا۔ وہ لمحات جب دل کی دھڑکنیں رک سی جاتی تھیں، جب مستقبل کی فکر سر پر منڈلاتی تھی، انہوں نے اپنے کھلے بازوؤں سے مجھےسہارا دیا۔ ان کی شفقت ایک مشفق بڑے بھائی کے مانند تھی، جو زخموں پر مرہم رکھتی ہے، اور ایک رہنما باپ کی مانند جو راہ دکھاتا ہے۔ جب تنہائی نے اندھیرا پھیلایا، تو وہ ایک شفیق اور مربی کی شکل میں بڑے بھائی بن کر کھڑے رہے۔ ان کی موجودگی نے تنہائی اور مایوسی کو دور کیا، اور اس کی جگہ بھائی چارے کی گرمجوشی نے لے لی۔ وہ نہ صرف سنتے تھے بلکہ سمجھتے بھی تھے – ہر درد کی گہرائی کو چھوتے، ہر شکوہ کو دور کرتے۔ ان کی ہمدردی ایسی تھی جو الفاظ سے آگے بڑھ جاتی تھی، جو آنکھوں کی چپکے سے نظر آنے والی اشکوں کو بھی محسوس کر لیتی تھی۔
اور جب دنیا کی تاریکیوں نے مجھے گھیر لیا – وہ تلخیاں جو کیریئر کی راہ میں حائل ہوتی ہیں، وہ چیلنجز جو نئی زندگی کی بنیاد رکھنے میں رکاوٹ بنتے ہیں – تو بڑے بھائی نے اپنی جہاندیدہ افکار سے میرے زندگی کا سفر آسان کر دیا۔ ان کی سوچ وسیع تھی، جیسے بارش کی گہری اڑتی پھواریں جو ہر سمت پھیلتی اور پڑنے والی اشیا کو سرسبز و شاداب کر جاتی ہیں۔ ان کے تجربات، جو برسوں کی محنت اور جدوجہد سے حاصل ہوئے تھے، نے مجھے نہ صرف مسائل کا حل دیا بلکہ ان کا سامنا کرنے کی ہمت بھی عطا کی۔ وہ کہتے، "زندگی ایک سفر ہے، موڑ تو آئیں گے، مگر ہمت سے ہر موڑ ایک نئی منزل بن جاتا ہے۔” ان کی یہ باتیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں، اور ہر مشکل میں مجھے یاد دلاتی ہیں کہ رہنمائی کا اصل مطلب صرف راہ بتانا نہیں بلکہ قدم بڑھانے کی طاقت دینا ہے۔ بھائی شمیم اختر سلفی صاحب کی یہ مربیانہ صلاحیت نہ صرف مجھے بلکہ ان کے ارد گرد ہر شخص کو متاثر کرتی ہے۔ وہ ایک ایسے ہمنوا ہیں جو خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں اور غموں میں سہارا بنتے ہیں – ایک کامل بھائی، ایک کامل رہنما۔
آج جب میں ان کی یاد تازہ کرتا ہوں، تو دل بھر آتا ہے اس محبت اور شفقت سے جو انہوں نے مجھے عطا کی۔ اللہ سے میری دعا ہے کہ ان کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، ان کی ہر خواہش پوری کرے، اور صحت و تندرستی کی نعمت سے مالا مال لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ بڑے بھائی شمیم اختر سلفی، آپ نہ صرف میرے بھائی ہیں بلکہ میری زندگی کا وہ ستون ہیں جو ہمیشہ کھڑا رہے گا۔ آپ کی رہنمائی کی روشنی میں، میں آگے بڑھتا رہوں گا، اور ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا محتاج رہوں گا۔

راہِ محبّت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو

Related posts

شادی کی بے جا رسومات اور ان کا حل

Paigam Madre Watan

एमईपी का गठन और कानूनी कठिनाइयों का अंतहीन संघर्ष

Paigam Madre Watan

ملک عزیز نیپال میں حفظ قرآن کا تاریخی انعامی مقابلہ

Paigam Madre Watan

Leave a Comment