Articles مضامین

اروند کجریوال کا انکشاف: اویسی لابی کا پردہ فاش

 تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز
بھارتی سیاست کے پیچیدہ جال میں جہاں اتحاد اور مخالفت کی لکیریں مسلسل بدلتی رہتی ہیں، وہاں کبھی کبھار ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں جو پورے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ حال ہی میں دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے قومی کنوینر اروند کجریوال نے ایک پریس کانفرنس میں ایک سنسنی خیز خط کا حوالہ دے کر بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما اکبر الدین اویسی کے درمیان مبینہ خفیہ معاہدے کا پردہ فاش کیا۔ کجریوال نے گجرات کے ایک سینئر وکیل یتن اوجھا کی طرف سے لکھے گئے خط کو کیمرے کے سامنے دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ خط 2015 کی ایک رات کی میٹنگ کی تفصیلات بیان کرتا ہے، جس میں بی جے پی کی طرف سے اویسی برادران کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یہ انکشاف نہ صرف بہار اسمبلی انتخابات 2015 کے تناظر میں اہم ہے بلکہ اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اویسی اور ان کی پارٹی بی جے پی کی ‘بی ٹیم’ کا کردار ادا کر رہی ہے؟ اس مضمون میں ہم اس متن کی روشنی میں تفصیلی تجزیہ کریں گے، تاریخی پس منظر، سیاسی اثرات اور حقیقت کی جانچ پڑتال پر روشنی ڈالیں گے۔
اروند کجریوال نے میڈیا سے بات چیت کے دوران یتن اوجھا نامی گجرات کے سینئر وکیل کا ذکر کیا، جنہیں امت شاہ کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ اوجھا نے متعدد قانونی کیسز میں امت شاہ کی نمائندگی کی ہے اور انہیں شاہ کا ‘داہنا ہاتھ’ کہا جاتا ہے۔ کجریوال کے مطابق، اوجھا نے کچھ دن پہلے انہیں ایک خط لکھا، جس میں 15 ستمبر 2015 کی رات تین بجے امت شاہ کے گھر پر ہونے والی ایک خفیہ میٹنگ کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ اس میٹنگ میں امت شاہ، اکبر الدین اویسی اور خود یتن اوجھا موجود تھے۔ خط کے مطابق، امت شاہ نے اکبر الدین اویسی سے کہا کہ آنے والے بہار اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم مسلم اکثریتی علاقوں میں امیدوار کھڑے کرے۔ مزید یہ کہ اویسی برادران کو بی جے پی کی طرف سے تیار کردہ اسکرپٹ کے مطابق تقریریں کرنی ہوں گی، جن کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا، فرقہ پرستی کے بیج بونا اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنا تھا۔ کجریوال نے خط کو کیمرے کی طرف دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے اور اگر اس میں بیان کردہ باتیں سچ ثابت ہوئیں تو یہ ملک کی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ خط کی صداقت کی تصدیق نہیں کر رہے، لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ بی جے پی کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔
میری رائے کے مطابق، یتن اوجھا کے خط میں بیان کردہ باتوں کی سچائی کا اندازہ اے آئی ایم آئی ایم کی سرگرمیوں کے تاریخی پیٹرن سے لگایا جا سکتا ہے۔ 2014 سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم اور اویسی برادران کی سیاسی دلچسپی بنیادی طور پر حیدرآباد اور تلنگانہ تک محدود تھی۔ اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی ملک کے دیگر حصوں میں انتخابی سیاست میں دلچسپی نہیں دکھاتے تھے اور نہ ہی وہاں سفر کرتے تھے۔ پارٹی کی توجہ صرف مقامی مسائل اور مسلم ووٹ بینک کو مضبوط کرنے پر تھی۔لیکن 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی زبردست فتح کے بعد صورتحال بدل گئی۔ جیسے ہی بی جے پی نے مرکزی سطح پر اور مختلف ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنا شروع کیا، اویسی اور اے آئی ایم آئی ایم مسلم اکثریتی علاقوں میں فعال ہو گئے۔ بہار 2015 کے انتخابات اس کی پہلی بڑی مثال تھے، جہاں پارٹی نے متعدد سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ اس کے بعد مہاراشٹر، اتر پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں یہی پیٹرن دہرایا گیا۔ انتخابی مہم کے دن قریب آتے ہی اویسی سب سے پہلے ان ریاستوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلی اتفاقی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بی جے پی اویسی کو استعمال کر کے ماحول کو گرم کرتی ہے، جس سے ہندو ووٹروں کا پولرائزیشن بی جے پی کے حق میں ہوتا ہے جبکہ مسلم ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں۔
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ جس ریاست میں اویسی جاتے ہیں، وہاں سیکولر امیدوار ہار جاتے ہیں اور یہ ہار اویسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار عام طور پر چند ہزار ووٹ حاصل کرتے ہیں، لیکن یہی ووٹ سیکولر پارٹی (جیسے کانگریس، سماج وادی پارٹی یا آر جے ڈی) کے امیدوار کی جیت اور ہار کے درمیان فرق پیدا کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر:بہار 2015: مسلم اکثریتی سیٹوں پر اے آئی ایم آئی ایم نے ووٹ کاٹے، جس سے مہا گٹھ بندھن کو نقصان پہنچا، اگرچہ بی جے پی ہاری۔اتر پردیش 2022: کئی سیٹوں پر اویسی کی موجودگی نے سماج وادی پارٹی کے ووٹ تقسیم کیے۔ مغربی بنگال 2021: مسلم علاقوں میں اے آئی ایم آئی ایم کی انٹری سے ٹی ایم سی کو فائدہ ہوا، لیکن مجموعی طور پر فرقہ وارانہ تناو ¿ بڑھا۔
یہ پیٹرن یہ ظاہر کرتا ہے کہ اویسی کی پارٹی بی جے پی کی ‘بی ٹیم’ کا کردار ادا کر رہی ہے، جو سیکولر اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ میری رائے کے مطابق، یہ حقیقت پر مبنی ہے اور متعدد سیاسی مبصرین نے اسے برملا کہا ہے۔اگرچہ کجریوال نے خط کی صداقت پر مہرا ثبت نہیں کیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اس کے وائرل ہونے سے یہ بحث چھڑ گئی ہے۔ یتن اوجھا ایک حقیقی وکیل ہیں اور امت شاہ سے ان کے روابط مشہور ہیں، لیکن خط کی اصلیت کی آزادانہ تصدیق ابھی نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے اسے جعلی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، جبکہ اے آئی ایم آئی ایم نے خاموشی اختیار کی ہے۔ تاہم، اویسی کی انتخابی حکمت عملی کا پیٹرن خط کی باتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ اگر یہ سچ ثابت ہوا تو یہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کی ایک نئی مثال ہو گی۔
اروند کجریوال کا یہ انکشاف بھارتی سیاست میں فرقہ وارانہ تقسیم کی گہرائی کو عیاں کرتا ہے۔ اگر اویسی لابی واقعی بی جے پی کی مددگار ہے تو یہ جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ مسلم ووٹ کی تقسیم سے سیکولر ازم کمزور ہوتا ہے اور ہندو پولرائزیشن بی جے پی کو مضبوط کرتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے انکشافات پر غور کریں اور ووٹ کی طاقت سے حقیقی سیکولر متبادل کو مضبوط کریں۔ یہ خط، چاہے جعلی ہو یا اصلی، ایک وارننگ ہے کہ سیاست کے کھیل میں خفیہ معاہدے جمہوری اصولوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ آخر میں، سچائی کا انکشاف وقت کی بات ہے، لیکن اس بحث نے یقینی طور پر سیاست کے چہرے سے ایک نیا نقاب اتار دیا ہے۔

Related posts

خوشی اور انعام و اکرام کا دن ہے عید الفطر!

Paigam Madre Watan

ہندوستان میں ملی تعمیر کا دس نکاتی لائحۂ عمل

Paigam Madre Watan

سباق…ایک بے مثال قومی فنی تہوار

Paigam Madre Watan

Leave a Comment