National قومی خبریں

مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے، امت مسلمہ اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا ارشد علی قاسمی کا خطاب!


بنگلور،(پی ایم ڈبلیو نیوز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ و آندھراپردیش کے سکریٹری حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا گزشتہ ایک مہینے سے فلسطین اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ حملوں سے دل بہت غمگین ہے۔ پچھلے پچھتر سالوں سے مسجد اقصٰی مسلمانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، وہ پکار کر کہ رہی ہیکہ کہ میں تو اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہوں، میرے گرد و نواح میں کئی برگزیدہ انبیاء کرام کی مقدس قبریں ہیں، میرے یہاں سے آنحضور ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے، میری مقدس سرزمین پر امام الانبیاء ؐنے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی، میں پوری امت کا قبلہئ اول ہوں، لیکن آج میں بیت المقدس، مسجد اقصیٰ خون کے آنسو بہارہی ہوں۔ یہودی صلیبی مجھے شہید کرنا چاہتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ آج مسجد اقصٰی ہماری منتظر ہے لیکن ہم لوگوں کچھ نہیں کرپارہے۔ آج جن امت مسلمہ کے حکمرانوں نے ان ناپاک اسرائیلی یہودیوں سے اس مقدس سرزمین کو آزاد کروانا تھا۔ وہ ان کے ساتھ ہاتھ ملارہے ہیں، معاہدے کررہے ہیں، انکو تسلیم کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کی حرمت و تقدس کو پائے حقارت سے روندا جارہا ہے، اسکے محافظ اہل فلسطین و غزہ کو شہید کیا جارہا ہے اور پوری امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ بے دست و پا نہتے فلسطینی اکیلے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور سر پہ کفن باندھ کر صہیونیوں کے خلاف میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے ہیں، وہ اپنے وجود اور اپنے تشخص کی بقا اور مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے صہیونیوں سے دست و گریباں ہیں، ہر دن فلسطینیوں کے قتل ہورہا ہے اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، مگر دنیا کے نقشے پر موجود کروڑوں کی تعداد میں کلمہ توحید پڑھنے والے ان کے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیاد پر تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسجد اقصی صرف گنبد و مینار پر مبنی ایک مسجد نہیں، بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک نشان ہے، ان کی اسلامی میراث ہے، اسلامی تشخص کی ایک واضح علامت ہے، اس کی حفاظت ہمارا اسلامی اور مذہبی فریضہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین اور غزہ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اس رویے سے یہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ انکے نزدیک مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ جو متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری ہے قابل افسوسناک ہے۔ جو اسرائیل غاصب ہے اور نہتوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اسے مظلوم بتارہے ہیں اور جو فلسطین حقیقت میں مظلوم ہے اور اپنی حفاظت کررہے ہیں انہیں یہ ظالم دیکھا رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جس طرح مغربی میڈیا اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتلِ عام کی حمایت کررہی ہے، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے، گزشتہ پچھتر سالوں سے فلسطین پر جو ظلم ہورہا ہے اور غزہ جو ایک کھلی جیل کہ طرح ہے وہ ان لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہا؟ یہ درحقیقت انصاف اور انسانیت کے قاتل ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہئ اول ہے، انبیاء علیہم السلام کا مسکن و مدفن ہے، اسکی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے، اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب اہل فلسطین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تنہ تنہا بہت المقدس کی حفاظت کررہے ہیں، ایسے میں ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار اور طاقت ہے، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، علماء و ائمہ اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ہتھیار اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ہے، اس وقت دنیا بھر میں اسرائیلی کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں، جن کی آمدنی سے قوت پا کر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہے، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں، تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، اور یہ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے، جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو مجبور کر سکتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، مسلمانوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ روز مرہ کی اشیاء کس کمپنی کی ہیں، انہیں محض اپنی ضروریات کی تکمیل چاہیے حالانکہ جتنی اسرائیلی استعمالی اشیاء بازار میں عام ہیں ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء دانشوران اور مختلف تنظیموں کے کارکنان کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم چلائی جائے، اور اگر ہم مسجد اقصٰی سے عقیدت رکھتے ہیں اور فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد ارشد علی صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔

Related posts

میری لڑائی نا انصافی اور ظلم کے خلاف ہوگی

Paigam Madre Watan

اسد الدین اویسی شکست کے ڈر سے بوکھلاگئے ہیں

Paigam Madre Watan

 ناقص مڈ ڈے میل سے سرکار عدم توجہی کا شکار

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar