Articles مضامین

یہودیوں کی عالمی میڈیا پر بالادستی

ڈاکٹر سیّد احمد قادری ، رابطہ : 8969648799


دنیا کے مختلف ممالک امریکہ ، کناڈا، فرانس ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، برازیل وغیرہ سمیت کئی مسلم ممالک ترکی ، ایران ، مورکو ، ٹیونیشیا اور متحدہ عرب امارات وغیرہ جیسے ممالک میںبسنے والے یہودیوں کی تعداد دوسرے مذاہب کے مقابلے بہت کم ہے۔ اسرائیل کے بعد امریکہ وہ ملک ہے جہاں ان کا بڑا اثر ہے ،وہاں تقریباََ 16 لاکھ یہودی بستے ہیں۔ یہاں کے مختلف شعبۂ حیات میں ان کا تسلط ہے۔یہودیوں کو اپنی کئی بڑی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اس امر کا شدت سے احساس ہے کہ ان کی تعداد نسبتاََ بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنی نسل کی بقاکے لئے فکر مند ہیں اور اس کے تدارک کے لئے ہی مردہ اسرائیلی فوجیوں کے نطفے جمع کئے جا رہے ہیں ۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کم تعداد میں ہونے کے باوجود یہودی علم و ہنر کے میدان میں بہت آگے ہیں بلکہ عالمی سطح پر معیشت اور میڈیا پر ان کی اجارہ داری ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا مظلوم اور کمزور کا نہیں بلکہ طاقت ور کا سا تھ دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے سب سے زیادہ طا قت ور ملک امریکہ جو خود کوجمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہ پوری طرح سے صہیونوں(یہودیوں)کے سامنے سر نگوں ہے۔ اسرائیل(صہیونی) جو فلسطینیوں پر جس طرح جارحیت اور درندگی کے ساتھ اسپتالوں، اسکولوں ، پناہ گاہوں ،ایمبولنسوں اور رہائیشی علاقوں پر بم برسا رہا ہے، میزائلیں چھوڑ رہا ہے۔ ایسے وحشیانہ حملوں سے غزہ کے نوجوانوںکے ساتھ چھوٹے معصوم بچے ، خواتین اور ضعیف ہلاک ہو رہے ہیں ۔غزہ کے اسپتالوں میں جس بے رحمی کے ساتھ بمباری کی گئی ہے ، ا س سے پورا اسپتال لاشوں سے بھر گیا اور کئی دن گزر جانے کے باوجود ان کی تدفین عمل میں نہیں آئی ، نتیجہ میںان اسپتالوں میں لاشیں سڑرہی ہیں ۔ اف ۔۔۔۔کتنا خوفناک منظر ہے ۔۔۔۔ ایسی انسانیت سوز بمباری کی پشت پناہی کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ جنگی سامان کی فراہمی کے ساتھ 124 بلین ڈالر سے بھی زیادہ رقم امریکی کانگریس سے منظور کر ائی ہے ۔ حالانکہ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کی ممبرراشدہ طلیب نے اپنی ہی حکومت کے خلاف انسانی درد و کرب کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر بائیڈن فلسطینیوں کے قتل عام کی فنڈنگ کر رہے ہیں ۔ دہشت گرد اسرائیل کی حمایت کرنے کے باعث جو بائیڈن کی اب تو صدارت ہی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ا س لئے کہ امریکہ کے کئی شہروں میں اسرائیل(صہیونیوں) اور جو بائیڈن کی حمایت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے بڑے پیمانے پر ہوئے اور مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی سے ان کی مقبولیت میں زبردست کمی پائی جا رہی ہے ۔ جو بائیڈن نے تو صہیونیوں کی پشت پناہی کا جواز بھی جنگ شروع ہونے کے بعد اپنے اسرائیل کے دورہ کے دوران اسرائیلی جنگی کابینہ کی میٹنگ میں بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’ صہیونی ہونے کے لئے یہودی ہونا ضروری نہیں ہے اور میں صہیونی ہوں‘‘۔جو بائیڈن کے ا س بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہودی اور صہیونی میں نمایاں فرق ہے ۔ یعنی ہر یہودی شر پسند ، شدت پسند ،متعصب اورجارح ہو یہ کوئی ضروری نہیں ،ہاں یہ ساری بری خصلتیں صہیونیوں کے یہاں ضرورموجود ہوتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی مظالم و بربریت کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان مظاہروں اور احتجاج میں امن پسند یہودی بھی بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں ۔ بلکہ ان کے کئی ربّی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صہیونی یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور نہ ہی اس حوالے سے بیان دے سکتے ہیں ۔ کئی یہودیوں کا ماننا ہے کہ تمام فلسطینی زمین عوام کو واپس کی جانی چاہئے ۔ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہودی ربی یسر یول فیلڈ مین نے یہاں تک کہا کہ یہودی کبھی بھی فلسطین کی زمین پر ریاست قائم نہیں کر سکتے ،یہ تورات کے خلاف ہے ۔ لیکن افسوس کہ صہیونی انسانیت کے نام پر ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کو نہ صرف نظر انداز کررہے ہیں بلکہ اپنے ملکی عوام کے احساسات و جذبات کو بھی کچل رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ یہ تعاون اورامداد یونہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کے مفادات شامل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں کی، کم تعداد ہونے کے باوجود کئی لحاظ سے علم و ہنر ، معیشت،تجارت اور صحافت ( میڈیا) پر ان کی اجارہ داری ہے۔یہ صرف جدید اسلحہ سازی میں ہی نہیں دنیا کی بہت ساری مصنوعات بنانے اور ان کی تجارت میں بھی بہت آگے ہیں ۔ علم میں ان کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 965 نوبل پرائزکے مقابلے یہودیوں نے امن ، طبیعات(فیزیکس) اور ادوایات میں کل 214 نوبل انعام حاصل کرکے دوسرے کئی ممالک کے مقابلے سب سے آگے ہے ۔ یہودیوں کو امن کا نوبل انعام ملنے پر حیرانی ہو سکتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہودیوں میں بھی امن پسند افراد ہوتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 15 ؍مئی 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرار داد پاس کر کے فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک ملک اسرائیل کے قیام کی منظوری دی تھی ۔ اسرائیل نے اس فیصلے کے بعد عالمی شہرت یافتہ سائنس داں البرٹ آنسٹائن کو ملک کا پہلا صدر بننے کی پیشکش کی تھی ، لیکن آنسٹائن نے اس پیشکش کو یہ کہہ کرٹھکرا دیا تھاکہ’ وہ یہودی ضرور ہیں لیکن فلسطینیوں کے ساتھ نا انصافی سے بنائے گئے ملک اسرائیل کا صدر بننا انھیں منطور نہیں ہے ۔‘ مشہور اور مقبول دانشور نوم چومسکی بھی یہودی ہیں ،جنھوں نے ہمیشہ صہیونیت کی سخت مخالف کی ہے ۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے یہودیت او رصہیونیت میں بڑا فرق ہے ، ٹھیک ویسے ہی جیسے ہمارے یہاںہندوازم او رہندوتوا میں واضح فرق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ہو ، امریکہ ہو برطانیہ یا کناڈا ہو ، ہر جگہ امن پسند یہودیوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی درندگی کی نہ صرف مذمّت کی ہے بلکہ ان تمام ممالک میں یہودیوں نے اسرائیل کی بربریت کے خلاف زبردست احتجاج او رمظاہرے بھی کئے ہیں۔اب تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے یہودی بھی نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ بہرحال ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ صنعتی اور تجارتی میدان میں بھی یہودی اس طرح حاوی ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کی مصنوعات اس وقت انسانی مجبوری بن گئی ہے ۔ یہی وجہ ہوتی کہ جب کبھی اسرائیل کے مظالم بڑھ جاتے ہیں تو اس وقت ان کی معیشت کی کمر توڑنے کے لئے ان کی مصنوعات کے بائکات کی مہم چلائی جاتی ہے ، جس سے یہودیوں کی معیشت کی کمر ٹوٹتی ہو یانہ ہو ، ہاں کمزور ضرور پڑتی ہے ۔
ا س تمہید کے بعد میں اب اصل موضوع پر آتا ہوں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ صحافت،جس کے آج کئی روپ ہیں، اس نے کبھی کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دئے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کبھی کہاتھا :”I fear three newspaper more than a hundred thousand bayonet”
یعنی ’لاکھوں سنگینوںسے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘۔ نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ صحافت کی اس اہمیت کو یہودیوں کی دور رس نگاہوں نے بخوبی سمجھااور میڈیا کے مختلف شاخوں پر قبضہ جما لیا ہے ۔ اس غیر معمولی تسلط کے باعث ہی تمام مغربی ممالک یہودیوں کے آگے سرنگوں ہیں ۔ اگر ہم یہودیوںکی دسترس میں رہنے والے میڈیا کا ایک عمومی جائزہ لیں ہمیں ا ندازہ ہوگا کہ میڈیا یعنی ٹیلی ویژن چینلز،اخبارات ، نیوز ایجنسیاں، ریڈیو اور فلم پروڈکشن پر عالمی تناظر میں 95
فی صد یہودیوں کی 6 سے زائد کمپنیوں پر اجارہ داری ہے ۔ ان چھ کمپنیوں میں والٹ ڈژنی ( walt Disney) ، ٹائم وارنر ( Time warner) واہ یا کام ( Viacom ) نیوز کارپوریشن News Corporation ) ) جی ای(G E ) سی بی ایس( CBS) اور سونی(Soni) وغیرہ کاکنٹرول ہے۔ان کمپنیوں کی ملکیت پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی والٹ ڈژنی کے امریکہ میں سب سے زیادہ پروڈکشن ہاؤس ہیں ،جن کے پاس سات بڑے اخبارات ، تین رسالے نیز کئی عدد نیوز کیبل نیٹ ورکس ہیں اور ان کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے ۔اس کے علاوہ اے بی سی نیوس ، ای ایس پی این پکشر اور مارویل اسٹوڈیو بھی ان کی ملکیت میں شمار کئے جاتے ہیں ۔اس کے بعد جس دوسری بڑی کمپنی ٹائم وارنرکو شمار کیا جاتا ہے ۔ایچ بی او جو کہ امریکہ کا سب سے بڑا ٹی وی کیبل نیٹ ورک اس کے پاس ہے جس کے تحت دنیا کی بڑی اشاعت کی حامل مشہو ر ٹائم میگزین کی اشاعت ہوتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ این این اور ٹائم وارنر بھی اسی کی ملکیتوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ یہودیوں کی مشہور کمپنی ’وائی کام ‘ پیراماؤنٹ پکچرس ،ایم ٹی وی ، سی ایم ٹی ، بی ایٹی اور این آئی سی کے جے آر ایس میں بھی حصہ داری ہے ۔ نیوز کارپوریشن کے ماتحت چلنے والی فاکس ٹی وی چینل ، وال اسٹریٹ جرنل اور نیو یارک پوسٹ میگزین ، جن کا دنیا میں بڑا نام ہے ، ان ہی کی ملکیت ہے ۔ ’جی ای‘ بھی ایسی بڑی کمپنی ہے ،جس کے تحت کوم کاسٹ اور این سی بی ٹی وی چینل، یونیورسل پکچرس اور فوگس فیچرس بھی ان کی ملکیت میں شامل ہیں ۔ سی بی ایس کے زیر ملکیت شو ٹائم ، اسمتھ سونین چینل ، این ایف ڈاٹ کام اور سکسٹی منٹس جیسے مشہور چینل چلتے ہیں ۔ تین بڑی نیوز ایجنسیاں جن میں دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی رائٹر بھی ہے۔ جس کے بانی جولیس ریوٹر تھے۔اس ایجنسی کی خبروں اور تجزیوں کو دنیا کے بڑے بڑے اخبارات اور چینلز معتبر سمجھتے ہوئے استفادہ کرتے ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبارات ’لندن ٹا ئمز‘ اور ’سنڈے ٹائمز‘ پر بھی یہودیوں کا کنٹرول ہے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ عرب ممالک کے بھی کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی یہودیوں کے زیر اثر پائے جاتے ہیں ۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں یہودیوں کے یہ سارے میڈیا گروپ عوام کے درمیان مقبول بھی ہیں اور ان سے آمدنی کی برسات ہوتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ان کمپنیوں کی کُل آمدنی تقریباََ 300 بلین ڈالرہے ۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہودیوں کی تعداد کم ہے ، پھر وہ اتنی زیادہ آمدنی کو خرچ کہاں اور کیسے کرتے ہیں ؟ یہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے ۔ اگر اس سوال پر بہت سنجیدگی سے غور طو فکر کیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اپنے ان تمام میڈیا ہاؤس کی آمدنی سے یہ یہودی اپنے مخالفین خاص طور پر مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنے کے لئے غلط اور بے بنیاد رائے عامّہ تیار کرتے ہیں،نیز مغربی ممالک کے حکمرانوں کو امن پسند اور حق و انصاف کا علمبردار ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ان حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل کرنے کے لئے بھی خرچ کئے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں صرف ایک مثال پیش کرنا چاہونگا کہ امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا میں ہولوکاسٹ کاانکار کرنا قابل جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔ دراصل جنگ عظیم دوئم کے دوران یہودیوں کے قتل عام کو ’’ہولوکاسٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یورپ کے کتنے دانشور وں کو صرف ا س وجہ کر صعوبتیں جھیلنا پڑیں کہ ان لوگوں نے ہولوکاسٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کاش کہ ہم یہودیوں کی ایسی منظم اور منصوبہ سازش کو سمجھ سکیں اور عالمی سطح پر ہمارا بھی کوئی میڈیا ہاؤس ہو ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے

Related posts

ओवेसी बंधु झूठे नाटककार और भावुकतावादी हैं

Paigam Madre Watan

زوالِ حیدرآباد ۔ ایک عبرت

Paigam Madre Watan

مدتو ں رویا کریں گے جا م وپیمانہ تجھے

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar