ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514
(۱) ہر زندگی کو موت کا سامنا کرنا ہے۔ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔(عنکبوت:۳۹)وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی اور ایک دوسری مدت ا ور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔(انعام:۲)کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں۔(انعام:۶)دنیا کا انسان جس زندگی کی فکر میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے،ہر طرح کا دکھ اور تکلیف جھیل رہا ہے،اپنی خواہشوں اور ارمانوں کا خون کر کے آنے والے شاندار مستقبل کی امید میں اپنے آج کوقربان اور برباد کر رہا ہے،اپنے اور بیگانوں سے بھی ناطہ توڑے ہوئے ہے کیا اُس کو معلوم ہے کہ جس کل کی فکر میں وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے وہ یقینی طور پر اُس کو مل جائے گا۔موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار، یقین اور اعتراف ساری دنیا کر تی ہے۔ہر مذہب ، عقیدے اور نظریے والے جانتے اور مانتے ہیں کہ انسان کو کسی نہ کسی دن اور کسی نہ کسی وقت مر جانا ہے۔اُس کی موت بچپن میں ہوگی یا جوانی میں،ادھیڑ عمر میں ہوگی یا ایک سو سال پورے کر کے ہوگی، بیماری کے ذریعہ ہوگی یا کسی حادثے کا شکار ہو کر ہوگی۔کیسے ہوگی یہ نہیں معلوم ہے لیکن ہوگی اس کا پورا اورپکا یقین ہے۔کیا مرنے کے بعد انسان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا ؟ نہیں اسلام کے علاوہ دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی بت پرست، عیسائی او ر یہودی سب مانتے ہیں کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جہاں جنت اور جہنم یعنی سورگ یا نرک ہے۔ہر انسان مرنے کے بعد اپنے اچھے یا برے عمل کی بنیاد پر جنت یا جہنم میں جائے گا۔لیکن شیطان نے دنیا کے تمام انسانوں کو گمراہ کر کے اس عقیدے اور یقین و ایمان کے خلاف زندگی گزارنے کا عادی بنا دیا ہے۔موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے بعد بھی اُس زندگی کی کوئی تیاری انسان نہیں کر رہا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ دو نمبر کے مذہبی گرو،درویش، پیر اور عالم و فاضل لوگوں نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا یقین دلا ہے کہ دنیا والے چاہے جہنم میں چلے جائیں لیکن تم ضرور جنت میں جاؤگے۔بت پرست، عیسائی اور یہودی سب کا یہی عقیدہ ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں تھا مگر اس دور کے مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا ہے۔فرق اتنا ہے کہ دوسرے مذہب والوں کے بیچ میں فرق و اختلاف ہونے کے بعد بھی اتحاد و اتفاق ہے مگر مسلمانوں کے بیچ شدید افتراق و اختلاف ہے۔بریلوی مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ اُن کے علاوہ کوئی مسلمان جنت میں نہیں جائے گا۔دیوبندی فرقہ کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں۔اہل حدیث اور سلفی اور مدنی بھی اسی کا دعویٰ کرتے ہیں۔یعنی غیرمسلم جنتی ہونے پر اتفاق رکھتے ہیں لیکن مسلمان دوسرے فرقے کے مسلمان کو جنتی نہیں مانتے ہیں۔مسلمانوں کی موجودہ حالت کا اندازہ کیجئے کہ اسلام اتحاد و اتفاق پیدا کرنے آیا تھا،غیر مسلم متفق و متحد ہیں اور اسلام والے اختلاف و افتراق کا شکار ہیں۔
(۲)مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ جیسا کہ اوپر بتایا گیا تمام لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مر کر جنت میں جائیں گے۔جنت میں جانے کی شرط قرآن اور احادیث رسولﷺ میں حسین اور نیک عمل کو بتایا گیا ہے،لیکن غیر مسلم دنیا حسین اور نیک عمل کو جنتی ہونے کا معیار نہیں مانتی ہے بلکہ اپنے مذہب اور عقیدے کو معیار مانتی ہے۔مسلمان بھی اس وقت غیر مسلموں کی طرح اپنے فرقے کو جنتی مانتے ہیں ، حسین اور نیک عمل کی اُن کے نزدیک بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔لیکن پیارے نبیﷺ کیا فرما رہے ہیں، ذرا س کو بھی پڑھئے:رسول اللہﷺنے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی ہٹ نہیں سکتا جب تک اُس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہ لے لیا جائے۔ اُس سے پوچھا جائے گا(۱) عمر کن کاموں میں گزاری ؟ (۲)جوانی کس مشغلہ میں گھلائی ؟ (۳) مال کس طرح کمایا ؟ (۴)مال کن کن کاموں میں خرچ کیا ؟ (۵)دین کا جو علم حاصل کیا اُس پر کہاں تک عمل کیا ۔(ترمذی)جو مسلمان بھی دنیا اور دولت کمانے کی ہوس اور جنون میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے اورآخرت پر یقین نہیں رکھنے کی وجہ سے اُس کی کوئی تیاری کر ہی نہیں رہا ہے کیا وہ اللہ کے سامنے پہلے سوال کا صحیح جواب دے پائے گا ؟ یعنی اللہ پوچھے گا کہ میں نے تجھے اپنی بندگی، اطاعت اور فرماں برداری کے لئے پیدا کیا تھا ،تو نے اپنی زندگی کس مقصد کو پورا کرنے کے لئے گزاری، میری عبادت اور فرماں برداری کے لئے یا غیر مسلم کی طرح دنیا اور دولت کمانے کے لئے ؟ اسی طرح دوسرا سوال جوانی کے متعلق ہوگا۔انسان اپنی مستقبل کی زندگی خوش گوار اور کامیاب بنانے کے سارے جتن اور جد و جہد جوانی میں ہی کرتا ہے تا کہ بوڑھا ہو جائے اور دولت کمانے کے لائق نہیں رہے تو اپنی جمع کی ہوئی دولت کے سہارے آرام کی زندگی گزارے۔آج جوانی میں آخرت کی کامیابی کے کام کرنے کو حماقت اور نادانی سمجھا جاتا ہے۔غیر مسلموں کی طرح مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہو گیا ہے کہ ابھی تو جوانی کے مزے لو اور عیش کرو جب بڑھاپا آئے گا تو پھر اللہ اللہ کیا جائے گا۔ آج کا انسان دولت مند بننے کے جنون اور دیوانگی میں حلال اور حرام کی کوئی پروا نہیں کر رہا ہے۔جبکہ شریعت میں حرام کمانے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حرام دولت استعمال کرنے والے کی کوئی عبادت اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔لیکن آج کے مسلمانوں کو اس کی کوئی پروا کہاں ہے۔سوچئے حرام کمائی کے لئے جو زندگی اور جوانی گزر رہی ہے کیا اُس کا صحیح جواب دے کر قیامت میں اللہ کے سامنے اُس کے عذاب سے چھٹکارا مل سکے گا ؟ اس کے بعد حلال آمدنی کمانے والوں سے پوچھا جائے گاکہ دولت کہاں خرچ کی ؟ قرآن میں اور احادیث رسول میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ تمہاری کمائی ہوئی دولت میں تمہارا حق صرف اتنا ہے جتنے کی تم کو ضرورت ہو۔باقی دولت محتاج، مجبور، نادار اورمعذور کا حق ہے۔آج کا مسلمان نہ اس بات کو جانتا ہے نہ اور بتانے پر مانتا بھی نہیں ہے۔وہ اپنے آپ کو امانت دار ہونے کی جگہ اپنی دولت کا مالک مانتا ہے اوراُس کو چھوٹا پن اورخود غرضی اُس کو سکھاتی ہے کہ اپنی یہ قیمتی دولت ان بھک منگوں میں بانٹنا حماقت اور نادانی ہے۔سوچئے اس طرز عمل کا اللہ کے سامنے کیا عذر اور جواب دے کر خود کو بچا پائیے گا ؟(۳)زندگی کا حالات سے کیا رشتہ ہے۔یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچے مومن کون ہیں،اوراُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھاجو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں،کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں (آل عمران:۱۴۰)دنیا کا ہر انسان اور ہر مسلمان اپنے حالات کو اچھا بنانے کی دھن میں لگا ہوا ہے اور اس کا رشتہ اُس نے دولت سے جوڑ رکھا ہے یعنی دولت خوب جمع ہو جائے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ نہیں تمہاری دولت تمہارے حالات کو نہیں سنوارے گی اس کا تعلق تو ہمارے فیصلے سے ہے۔ ہم طے کرتے ہیں کہ کون دیا میں چین اور آرام سے جئے گا اور کون دولت اور اسباب کا بے انتہا جمع کرنے کے بعد بھی بے چین اور پریشان رہے گا۔گویا اپنے حلات اور اپنی زندگی کی ہر خوشی اور خوش حالی کے لئے دولت کی جگہ اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اُس کی بندگی اور عبادت کرنی چاہئے تاکہ اللہ خوش ہو کر بندے کو اپنی رحمت ، برکت، فضل اور نوازش سے نوازتا رہے ۔لیکن آج کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے ہی نہیں ۔ وہ تو اللہ کی جگہ دولت پر ایمان رکھتے ہیں۔اللہ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اللہ نے غیر مسلموں کی طرح مسلمانوں کی عقل کو بھی خبط اور گمراہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے آج مسلم اور غیر مسلم کی سوچ ، سمجھ اور زندگی کے طور طریقے میں کوئی فرق دکھائی دے ہی نہیں رہا ہے۔مسلم ہو کر غیر مسلم کی طرح زندگی گزارنا کتنی بڑی بد نصیبی ہے؟ ایسے لوگوں کا آخرت میں کیا حال ہوگا اس کا ذکر قرآن کی ان آیات میں پڑھئے۔’’آخر کار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی ، اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ اُن میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔‘(عبس: ۳۴تا ۳۷) ’’جس روز یہ لوگ اُسے(قیامت کو) دیکھ لیں گے تو اُنہیں یوں محسوس ہوگا کہ(یہ دنیا میں یا حالت موت میں)بس ایک دن یا پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔‘‘(النازعات:۴۶)یعنی آخرت کے مقابلے میں ان کو دنیا میں کتنا کم وقت ملا تھا،اُس کو بھی انہوں نے برباد کر دیا۔
کس سوچ میں ڈوبا ہے غافل کس فکر میں الجھا بیٹھا ہے
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ