مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ’’تحفظ القدس کانفرنس‘‘ سے مولانا شفیق احمد قاسمی اور مولانا احمد ومیض ندوی کا خطاب
بنگلور، (پی ایم ڈبلیو نیوز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ’’تحفظ القدس کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ و تعلق ہے اور یہ تعلق ابتداء اسلام سے ہی قائم ہے جو کبھی اور کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوگا۔ سرزمین بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہایت گہرا اور ایمان افروز تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین اہل ایمان کے لئے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے، ہر دور میں مسلمانوں نے اسے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاور کیا کیوں کہ یہ انبیاء علیہم السلام کا مسکن و مدفن ہے، یہیں مسلمانوں کا قبلۂ اول ’’مسجد اقصیٰ‘‘ بھی واقع ہے، جس کی طرف رخ کرکے تقریباً سولہ سترہ مہینہ نبی کریم ﷺ نے نماز ادا کی۔ سفر معراج کے موقع پر امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے اسی مسجد میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی، یہیں سے معراج کے سفر کا آغاز ہوا، اسکے ارد گرد اللہ تعالیٰ نے برکتوں اوررحمتوں کو رکھا ہے، یہی قربِ قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس بہت محترم ومتبرک خطہ ہے، اور بابرکت مقام ہے، اس سرزمین کا ہر چپہ قابل احترام ہے، اسی سرزمین پر حشر برپا ہوگا، آخر زمانے میں حضرت مہدی اور حضرت عیسی ؑ کا خاص تعلق رہے گا اور بھی بہت سارے فضائل وخصوصیات بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کے ہیں۔ اتنا گہرا رشتہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ناجائز طور پر قائم ہونے والی اسرائیلی حکومت اور اس کے حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کا ایک بدترین باب ہے، آج بھی فلسطینیوں کو خود ان کی ہی سرزمین میں قید وبند کرکے رکھ دیا ہے، معصوم بچوں، بے قصور جوانوں، مرد و خواتین یہاں تک کہ کمزور بوڑھوں کے ساتھ بھی اسرائیلی اپنے روز قیام سے ظلم ڈھاتے آرہے ہیں، ان کے گھروں کو اجاڑنا، ان کے شہروں کو برباد کرنا، ان کی عمارتوں کو ڈھانا،اور ہر طرف خاک وخون کا دل سوز منظر برپا کرنا اسرائیلیوں کا مشغلہ رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ یہودی قوم کی فطرت ہے کیونکہ یہود جو ’’مغضوب علیہم‘‘ قوم ہے، پچھلے ستر سالوں سے اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اپنی ہی قوم کے علماء و صلحاء کا خون بہانا ان کا صدیوں سے آبائی پیشہ رہا ہے اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ یہودیوں کے مختلف جرائم قرآن کریم میں مذکور ہیں، جن میں ’’قتلِ انبیاء‘‘ کا تذکرہ بار بار دہرایا گیا ہے۔ انہی جرائم کی بنا پر یہ قوم ذلت و پستی کی پاتال میں اتاری گئی۔ مولانا نے فرمایا کہ جس قوم نے انبیاء علیہم السلام کو نہیں چھوڑا وہ کیسے ان کے ماننے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرسکتی ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہودیوں نے اسلام اور مسلمان دشمن مختلف النظریات و المذاہب قوموں اور افراد کے تعاون سے، اپنی طبعی چال بازی، مکاری، عیاری اور سازشوں کے ذریعے طرح فلسطین پر زبردستی قبضہ کیا اور ظلم و جبر و نا انصافی کے تاریخ عالم کے تمام ریکارڈوں کو توڑے، پہلے تو اپنی جگہ بنالی اور پھر سن 1948ء میں باقاعدہ اسرائیل کے نام سے اپنی غاصبانہ ریاست قائم کرلی اور بالآخر پورے فلسطین پر قبضہ کرنی شروع کردی اور اصل مکینوں یعنی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کررہے ہیں۔ مولانا نے تاریخ فلسطین پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے دو ٹوک فرمایا کہ سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہے، جس پر صرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے، جس میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں خاص کر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل کے غاصبانہ قیام سے لیکر آج تک فلسطینی اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اس میں غلط ہی کیا ہے، ہر ایک کو اپنا ملک لینے اور اس پر ناجائز قبضے کو ہٹانے کا پورا حق ہے، یہی وہاں کی تنظیم حماس اور دوسری تنظیمیں کر رہی ہیں، آج فلسطین کو دہشت گرد کہنے والوں کی اکثریت اس حقیقت سے نا بلد ہے جو بیان کی گئی ہے، یا پھر وہ اسلام دشمنی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان مسلمانوں کا دفاعی حملہ انہیں دہشت گردی لگتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین اپنے ملک اور حرم قدسی مسجد اقصٰی کی حفاظت کی لڑائی لڑ رہ ہیں، جو اسکے فتح ہونے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ اس جدوجہد میں پوری امت مسلمہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور جو انکے خلاف کھڑے ہیں وہ اپنے ایمان کی فکر کریں۔
تحفظ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت ارض مقدس پر ظلم و جبر کی آندھیاں چل رہی ہیں، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل جس قسم کی وحشیانہ بم باری کر رہا ہے، وہ تاریخ انسانی کی بد ترین جارحیت ہے۔اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے، اور دیگر لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ پٹی پر اس وقت ہر طرف معصوم، بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کا خون، جسموں کے ٹکڑے، تباہی و بربادی اور بارود کی بو ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ امریکی، برطانوی اور بعض دیگر مغربی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے اسرائیل کھلے عام نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک کہلائے جانے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور دیگر کئی مغربی ممالک قاتل اسرائیل کے سہولت کار ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیل کو تھپکی دے رہے ہیں بلکہ ہر قسم کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت دنیا کے بڑے امن پسند کہلائے جانے والے دہشت گرد اسرائیل کی حمایت میں متحد ہیں اور پوری دنیا بدامنی سے دو چار ہو رہی ہے، لیکن وہ یاد رکھیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ نیز فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خاتمہ تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ کا مسئلہ ہے، اس لیے کہ اسرائیل بیت المقدس اور قبلہ اول پر قابض ہے، مسجد اقصی کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکالے سلیمانی کی تعمیر اسرائیل کا خواب ہے؛ بلکہ وہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتا ہے، ایسے میں اس مسئلہ کو صرف عربوں کا مسئلہ خیال کر کے دیگر مسلمانوں کا اس سے دامن جھاڑ لینا بہت بڑی نادانی ہوگی، نیز فلسطین صرف اپنی زمین کیلئے نہیں بلکہ مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہیکہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم ہندوستان میں رہ کر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کر سکتے ہیں، قنوت نازلہ کا اہتمام کرسکتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کو مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کے تعلق سے آگاہ کریں، نئی نسل مسجد اقصی اور مسئلہ فلسطین سے بالکل ناواقف ہے، اکثر مسلم نوجوانوں کو پتہ تک نہیں کہ مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کا کیا رشتہ ہے، اور قبلہ اول کی بازیابی مسلمانوں کا فریضہ ہے۔اسی کے ساتھ ہمیں برادران وطن اور عام لوگوں کو بھی مسئلہ فلسطین کے حقائق سے باخبر کرنا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ہتھیار اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ہے، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں، تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، اور یہ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے، جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو مجبور کر سکتے ہیں، لہٰذا ضرورت ہیکہ مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب اور دارالعلوم حیددآباد کے استاذ حدیث حضرت مولانا احمد ومیض ندوی نقشبندی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔