Articles مضامین

کیا واقعی ہم اس دنیا میں کسی بھی چیز کے مالک نہیں؟ 

جعفر حسین ماپکر مہاراشٹر


آج کی دُنیا میں، کسی شخص کی قدر و قیمت کا اندازہ، اُس کی دولت اور حیثیت سے لگایا جاتا ہے. کہنے کو تو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ آراء کوئی مستند پیمانہ نہیں، چند لوگوں کی مادّی قدر و قیمت کا میزان ہے. تاہم اِس بحث میں اُلجھے بغیر، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک افسوسناک پیمانہ ہے، مگر حقیقت تو یہی  ہے. یہی وجہ ہے کہ” آپ کیا کرتے ہو اور کتنا کماتے ہو؟“ اکثر و بیشتر، لوگوں سے پوچھے جانے والا سوال رہا ہے.  اِس دُنیا میں محض گنتی کے ہی لوگ ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے پاس فلاں فلاں چیزیں ہیں. دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ، بھائی ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں، جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے. ورنہ زیادہ تر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ جو کُچھ بھی اُن کے پاس ہے، وہ اِن کی انتھک محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے. ایسے لوگ، اللہ تعالیٰ کے فضل کو اپنی ہی ملکیت سمجھتے اور مانتے آئے ہیں. مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن سے بھی زیادہ محنت کش لوگ، اس دنیا میں موجود ہیں، مگر وہ تو صاحب حیثیت نہیں ہوئے. یہ نُقطہ نظر، مادیت پرستی کو جِلا دے کر انہیں، شیطانی قوتوں کا ساتھی بناتا ہے تو دوسرا نظریہ انسان کو اپنے رب کا شُکر گزار بندہ بناتا ہے. پھر یہ اسلامی عقیدے کی ترجمانی بھی تو ہے نہ کہ” میں کسی چیز کا مالک نہیں، سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہے“. جو لوگ اس نُقطہ نظر کے حامل ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ عاجز اور صالح ہوتے ہیں. آئیے اب اس موضوع کو، فلسفیانہ نُقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔  بہت سے اسکالرز اور فلاسفرز کا یہ ماننا ہے کہ ہم، کسی بھی چیز کے مطلق "مالک” نہیں ہوتے. کیونکہ اس کا دائمی کنٹرول ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہوتا. ہمارا اختیار بظاہر ہے، پس پردہ کوئی اور ہی اس دنیا کی ہر شئے کا مالک ہے. اس زندگی میں، صرف ایک ہی چیز ہے جس کے ہم حقیقی مالک ہوتے ہیں، اور وہ ہے، وقتی لمحات. ان لمحوں میں ہم، اپنے اپنے چُنندہ اُمور کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی کوشش کرتے  ہیں. ملکیت کا فلسفہ، ہمارے ذہن سازی پر مبنی ایک خود ساختہ فریب کے سوا کچھ نہیں، ملکیت ایک من گھڑت احساس ہے. اگر آپ زمین یا مکان خریدتے ہیں تو حقیقتاً ، اُس پراپرٹی  کی دیکھ بھال کی لاگت ادا کرتے ہیں. تاوقتیکہ آپ بقید حیات ہوں یا پھر اس کو فروخت کرکے ایک متبادل پراپرٹی تلاش نہیں کر لیتے. اُن پراپرٹییز میں سے، کوئی بھی اصل میں آپ کی مِلک نہیں ہوتی. اگر آپ کوئی کار خریدتے ہیں تو آپ صرف اُس کار کی ایندھن، دیکھ بھال اوررجسٹریشن کی تجدید کے چارجز، ایک معینہ مدت کے لیے ادا کرتے رہتے ہیں جب تک کے کار چلتی رہتی ہے یا اس مُدّت تک، جب تک آپ اس روئے زمین پر زندہ رہینگے. لہٰذا گاڑی آپ کی ملکیت نہیں ہوئی. اگر آپ شادی کرتے ہیں تو آپ کو شریک حیات کی شکل میں تاحیات ایک سنگی ساتھی تو مل جاتا ہے مگر اس کا ساتھ اس وقت تک رہتا ہے، جب تک کہ آپ لوگوں کے مابین حالات ٹھیک رہتے ہیں  یا موت آپ کو ایک دوسرے سے جُدا نہ کردے. لہٰذا یہاں بھی کوئی کسی کا مالک نہیں. اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ نے صرف ان کی پرورش کے اخراجات اٹھانے ہوتے ہیں، اور بدلے میں، اپنا نام اُن کے ولدیت کے خانے میں لکھ دینا ہوتا ہے. یہ نان نقفہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ، آپ کے بچوں کو، آپ کی ضرورت، باقی نہیں رہتی، یا موت آپ کے بچوں کو آپ سے جدا نہیں کردیتی.  آپ اُن بچوں کے مالک نہیں ہوتے. اگر آپ کے پاس پیسہ ہے، تو اس پیسے کے مساوی، آپ کے پاس ایک قوت خرید ہوتی ہے، جو خرچ کرنے پر باقی نہیں رہتی. آپ کے روپوں کے حقیقی اور مالکانہ اختیار، مرکزی یا ریزرو بینک کا یے. آپ روپوں کا صرف استعمال کرتے ہیں. اگر آپ نوکری کرتے ہیں اور ریٹائر ہوتے ہیں تو آپ کی پنشن، آپ کی زندگی بھر کے لیے ہوتی ہے، آپ کی زندگی کے بعد، یا تو یہ بند ہوجاتی ہے یا آپ کے شوہر کو اُس کے تا حیات آدھی مل جاتی ہے. یہاں تک کہ اگر آپ کھانا کھاتے تو آپ کے شکم کا کھانا بھی آپ کا نہیں. آپ کو اُسے فضلہ کی شکل میں زمین پر لوٹانا پڑتا ہے. آپ کا جسم، جسے آپ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں، وہ بھی آپ کا نہیں، جب زندگی کا قرض ادا ہو جائے گا تو وہ بھی یقینی طور پر زمین میں یا ہوا میں بکھر جائے گا.
دُنیاوی نعمتوں پر فخر نہ کیا کریں اور نہ ان کو کھونے سے ہی ڈریں کیونکہ دنیاوی زندگی میں، بطور مِلک ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، ہوتا ہے تو وقتی لمحات اور ان میں کئے گئے ہمارے اعمال. جب ہم کسی بھی چیز کے مالک نہیں، تو ہمیں، حلیم، کریم اور شریف النفس ہونا چاہیے. ہمارے پاس، کھونے کے لئے بھی کچھ نہیں. لہٰذا ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے، جو عطا کردہ نعمتوں کا مکمل مالک ہوتا ہے. اس نے ہم پر احسان کیا کہ اس زمین پر رہتے ہوئے، ان نعمتوں کو زیر استعمال لانے یا اس کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی، ہمیں اجازت دی.  لك الحمد ولك الشكر، يارب العالمين

Related posts

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

Paigam Madre Watan

اجتماعیت انسان کی فطرت ہے

Paigam Madre Watan

بہار کے ندوی فضلاء

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar