Articles مضامین

کانگریس نے حیدرآبادی ناگ کا پھن نا کچلا تو

 تحریر ….مطیع الرحمن عزیز

تلنگانہ میں آج کانگریس برسر اقتدار ہے۔ وہاں کی مالک و مختار اور تمام زہریلے پھنوں کو کچلنے کے لئے بااختیار ہے۔ تلنگانہ کی راجدھانی حیدر آباد میں اندھے کالے ناگ کی اولاد کے کرتوتوں سے ملک کا کوئی باشعور شخص انجان نہیں ہے۔ کوئی لاعلم اس بات سے ہر گز نہیں ہے کہ یہ ناگ سب سے پہلے اپنے ہی قبیلے کو نگل جانے کا عادی ہے، بلکہ کالے اندھے ناگ کا اپنی کمیونٹی اور اپنے شہر و ملک کوبرباد کرنے اور ڈسنے کا شوق اپنے آبا واجداد سے وراثت میں ملی ہے ۔ موجودہ ناگ بھی اپنے سماج کے سارے افراد کو اپاہج اور لولا لنگڑا بنا کر خود راج کرنے کا عادی ہے، اور یہ راج پاٹھ پانے کیلئے ناگ اپنے آبائی طور طریقوں پر کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے، بلکہ یہ ان کی مجبوری بھی ہے کہ وہ سب کچھ کرے۔ ملک کے کونے کونے میں پھیل کر یہ اپنے رقیبوں کے اشاروںپر اپنے زہریلے بدبودار بھاشنوں سے عوام کے ذہنوں کو دو دھاری تلوار کی طرح متاثر کر رہے ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار نہ صرف ایک طبقہ کو متاثر کرتی ہے بلکہ چہار سمت زہر افشانی کر کے لوگوں میں انتشار و بے چینی کا ماحول گرم کر کے دئے گئے نشانے اورہدف کو پورا کرتے ہوئے اپنی عافیت کی تلاش ان تمام گناہوں کے عوض کرتے ہیں جو ان کی سرزمین پر ہر قدم پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے اپنے شہر حیدر آباد کے لوگ ان ناگوں سے اتنے زیادہ متاثر مگر سہمے ہوئے ہیں کہ آواز اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اگر کسی نے آواز اٹھائی تو ان کے گھروں، زندگیوں اور آبرو پر آنچ آ جاتی ہے۔ بہن، بیٹیاں اور مائیں اس ناگ کے زہریلی حرکت سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے برسوں سے ظلم سہتے سہتے ہر شخص اس شہر کا اس انتظار میں ہے کہ وہ وقت آئے گا جب اس ناگ کا پھن کچلا جائے گا۔
2024 کے تلنگانہ ودھان سبھا الیکشن میں انہیں سب وجوہات اور امید کی بنا پر عوام نے کانگریس کا دامن تھاما، اور اس ناگ سے چھٹکارہ پانے کیلئے اس کو اور اس کی حواری پارٹیوں کو شکست فاش دی۔ تلنگانہ کانگریس وزیر اعلیٰ نے جیت درج کرنے کے بعدکرسی پر براجمان ہوتے ہی ان ناگوں کیلئے اپنے رحم و کرم کے دامن پھیلا دئے۔ مگر بعد میں مرکزی کانگریس کمیٹی کچھ حرکت میں آئی اور کہا کہ اس ناگ کا سر ابھی نہیں کچلا تو پھر بہت دی ہو جائے گی۔ کیونکہ یہی ناگ ہے جو مادر وطن ہندستان کے کونے کونے میں گھوم پھر کر جمہوریت کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ ان سب میں کانگریس اپنی آبرو بچا پا رہی ہے نہ ہی عوام ۔ عوام خواہ وہ کسی بھی کمیونٹی کی ہو ، حیدر آبادی زہریلے ناگ ایسی مسموم فضا قائم کرتے ہیں کہ اقلیتی کمیونٹی اور اکثریتی کمیونٹی دونوں ایک دوسرے کو نگل جانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر اقلیتوں کو تقسیم کردیا جاتا ہے اور جمہوریت کا قتل ہو جاتا ہے۔ اقلیتی عوام اس جھانسے میں ڈال دی جاتی ہے کہ اگر اس ناگ سے کانگریس یا دیگر جمہوریت پسند پارٹیاں اتحاد کرلیتی ہیں تو اقلیتوں کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ جب کہ یہ بات قیامت تک پوری ہونے والی نہیں ہے کیونکہ ناگ نے اتنے گناہ کئے ہیں کہ مرکزی حکومت میں برسراقتدار سپیرا اس ناگ کی گردن مروڑ دے گا۔ لہذا یہ ناگ نہ تو اتحاد کرے گا اور نہ ہی اقلیتوں کے ووٹوں کو یکجا ہونے دے گا کیونکہ اس ناگ کو زہر پھیلانے کیلئے خوراک دے کر ملک بھر میں بھیجا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے پھنپھناتے ہوئے زہر آلود آواز سے تقسیم کردے ۔ جس سے جمہوریت کا قتل ہو اور اقلیت انتشار کا شکار ہو جائیں۔
آج تلنگانہ میں حکومت کانگریس برسر اقتدار ہے۔ اس اندھے ناگ کے پھن کو کچلنے میں دیر نہیں لگے گی، اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اس ناگ نے اپنے آبا واجداد کے دور سے کتنے گناہوں کے قلعے کھڑے کئے ہیں۔ کتنے معصوم نہتے اور مجبور وں کی زمینوں پر ان ناگوں نے قبضے کئے ،کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کتنی مسجدوں کو ان ناگوں نے مسمار کیا ہر کوئی جانتا ہے۔ کتنی وقف پراپرٹیز پر قبضہ کیا یہ ہر کوئی خاص و عام فرد جانتا ہے۔ ان ناگوں کے اجداد نے اپنی زندگی میں کتنی بیوہ و بے کس کی جائیدادوں پر قبضہ کیا ہر کسی کو معلوم ہے کہ عدالت نے زمین مافیا اور ناجائز قابض غاصب کا خطاب مرنے کے بعد دے دیا۔ اپنے ہی قبیلے کے لوگوں کی کمپنی اور روزی روٹی کو بند کرکے نوالے کو ترسانے والے یہ ناگ ملک بھر میں پھنپھناتے پھر رہے ہیں۔ کتنے لوگوں کے قتل ان لوگوں نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کیلئے کر دئے۔ کتنی سازشیں اپنے شہر حیدر آباد کے عوام کو غریب رکھنے کیلئے کئے۔ کتنی سرکاری اسکیمیں ان لوگوں نے ڈکار لیں۔ کتنے قائد کے وجود ان ناگوں بلکہ ازدہوں نے نگل لئے۔ کتنے معصوم نوجوانوں کیخلاف مقدمات کرکے ان کے مستقبل کو تباہ وبرکاد کردیاگیا۔ یہ جمہوریت اور اقلیتوں کے حق رائے دہی کے قاتل متشددزہریلے ناگ بلکہ ازدہوں نے اپنی گناہوں کی نگری کو بچانے کیلئے کتنی پھروتی حاصل کرتے پھر رہے ہیں؟ کتنی گناہوں کی ندیوں میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں یہ کالے ناگ اندھے ازدہے ۔ اپنی تقریروں کے درمیان ان کا ضمیر خود ان کے وجود سے گھن کھاتا ہے ، جب ان کی بدبودار جھوٹ اور فریب سے ان کی آنکھیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں۔ ان ناگوں سے چھٹکارہ پانے کیلئے کانگریس کا دامن تھامنے والی عوام حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، اگر کانگریس نے اب بھی اس موقع کو غنیمت نہیں جانا تو بہت دیر ہو جائے گی۔
عوام کی جانب سے دی گئی رعایت اور حکومتی اقتدار اور طاقت کو کانگریس نے اب بھی نا سمجھا تو ممکن ہے آنے والے دنوں میں اس حیدر آبادی ناگ کی بنائی گئی زہر آلود فضا میں خود کانگریس ختم ہو جائے۔ بلکہ اس ناگ کے زہر سے کئی ریاستیں اور کئی حکومتیں بلکہ کئی پارٹیاں فوت ہوگئیں۔ اگر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کانگریس ان متاثرین کی فہرست میں سب سے اونچے پائیدان پر ہے۔ اس لئے کانگریس قیادت کو سمجھنا چاہئے۔ حیدر آباد میں ہیڈرا ایجنسی کو مستعد کر کے عوام میں ان ناگوں کے تعلق سے ایک امید کی کرن جگا دی ہے۔ مگر کانگریس کو بہت مستعدی اور چاپکدستی اور تیزی سے تلنگانہ کانگریس قیادت کی نگرانی کرنی ہو گی۔ اور اس بات پر حتمی مہر ثبت کرنا ہو گا کہ سارے ملک میں اپنا پھن پھیلائے ہوئے ناگ کے سر کو کچلنے کا کس قدر بندوبست کیا جا ئے۔ کیا اس ناگ کے گناہوں کا گھڑا تلنگانہ کانگریس حکومت میں پھوٹنے پائے گا۔ یا اپنی کمیونٹی اور ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو مزید اور بدبودار بنانے کیلئے کانگریس اس ناگ کو پھنپھناتا ہوا چھوڑ کر خواب خرگوش میں مبتلا رہے گی۔ معاملہ سنگین بلکہ ہلاکت خیز ہو گا۔ اس ناگ کے زہر کا اب بھی اگر علاج نا کیا گیا تو یہ زہر ایک طرف ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بلکہ اقلیتوں کو موت کے گھاٹ پر پہنچا دیگی۔ ملک میں محبت، بھائی چارہ اور جمہوریت کو ہم مرجھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں آئندہ یہ پودا سوکھ کر ختم ہو جائے گا۔ پھر کسی بھی طرح کا علاج ناقابل شفایابی اور حیدر آباد کی سرزمین لاعلاج ہو گی۔ بلکہ ان سب میں سب سے زیادہ اگر متاثر ہونے والی چیز ہوگی تو وہ کانگریس قیادت اور اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گا۔ لہذا اب بھی غنیمت ہے، اس ناگ کے بھرے ہوئے زہر آلود گھڑے کو پھوڑنے کا وقت ایک ایک دن گزر رہا ہے۔ وقت نکل جانے سے پہلے کانگریس اعلیٰ قیادت ہوش کے ناخون لے۔ اور سسک رہی حیدر آباد، تلنگانہ اور پورے ملک کی اقلیتوں کے وجود کو مسمار اور فوت ہونے سے پہلے بچا لے۔ یہ منافق ناگ اپنے مالک سپیرے کے بین کے آگے اپنا پھن اسی سمت پھیلاتے ہیں جس طرف ان کا مالک اپنی بین اور بانسری کا رخ کرتا ہے۔ کراہ رہی، سسک رہی اور درد میں مبتلا اقلیتی طبقہ کس سے اپنی گہار لگائے، اقلیتوں کی آواز میں دم نہیں رہا۔ اس ناگ نے ملک کے ہر خطہ میں پہنچ کر ان کو بے آواز ، بد دل اور مردہ کر دیا ہے، اس منافق ناگ نے ایسی شاطر چال چلی ہے کہ اس کے زہر کو لوگ فضائی آلودگی سمجھ کر بڑی آسانی سے اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہے ہیں اور دھیرے دھیرے ناگ زہر کے عادی ہو تے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ناگ نے اپنی مسموم زہر آلود آواز اور وجود سے فضا کو پراگندہ اور مسموم کر دیا ہے۔

Related posts

قبضہ اور قید: ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی ناقابل تسخیر جدوجہد

Paigam Madre Watan

"گلدستۂ دینیات” تعارف و تبصرہ

Paigam Madre Watan

 اویسی برادران جھوٹے ڈرامہ بازاور جذباتی مداری

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar