مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ’’تحفظ القدس کانفرنس‘‘ سے مولانا یامین قاسمی اور مولانا عبد السبحان ندوی کا خطاب!
بنگلور(پی ایم ڈبلیو نیوز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ’’تحفظ القدس کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مبلغ حضرت مولانا محمد یامین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ سے تعلق تمام مسلمانوں کے مذہبی فریضہ ہے۔ اہل فلسطین کی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ فلسطین میں بسائے گئے یہودیوں کے خلاف فلسطینی قوم کا ایک ایک بچہ نبرد آزما اور اپنی جان ہتھیلی پے لیے مسجد اقصٰی کی حفاظت اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔ کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا بچے اور کیا خواتین ہر ایک اپنی بساط کے مطابق قابضوں کے خلاف لڑتا نظر آتا ہے۔ اہل فلسطین پوری امت مسلمہ کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ میں مسلسل بمباری جاری ہے جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہورہے ہیں، تاحال لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، لیکن نام نہاد امن پسند دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ مولانا نے فرمایا کہ آج جب ہم غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں، بوڑھوں کے انتہائی وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہیں اس ناجائز اسرائیلی حکومت کو مغرب کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی ہے اور بین الاقوامی صیہونیت نے مغرب کی فوجی، سیاسی، بین الاقوامی اور اقتصادی طاقت کو اسلام اور مسلمانوں کو دبانے کے لیے بھرپور استعمال کیا ہے لیکن دوسری طرف عالم عرب کے حکمران اپنی شان و شوکت اور اقتدار کیلئے یا تو اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں یا خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی اہل فلسطین بڑی ہمت و جرأت اور عزیمت کے ساتھ ظالم اسرائیل سے نبرد آزما ہے۔دنیا سمجھ رہی تھی کہ مسئلہ فلسطین مردہ ہو چکا ہے، تازہ واقعے نے ثابت کیا مسئلہ فلسطین مردہ نہیں ہوا بلکہ اس کی اہمیت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطینی مجاہدین کا اسرائیل پر حملہ تاریخی کامیابی اور تاریخی معرکہ ہے، فلسطینی مجاہدین نے اپنے علاقوں کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے چھڑانا اور فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم اور عرب ممالک اسرائیل سے بڑھتے تعلقات اور ہونے والے معاہدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فلسطین کے جیالوں نے اس جنگ کا آغاز کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ عالم گواہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے دین اسلام اور اس کے حلقہ بگوشوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا ہے، اپنی تاریخ کے ہر دور میں ان دونوں قوموں نے اسلام کی بیخ کنی اور قوم مسلم کے وجود کو صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادینے کے لیے اپنی طاقت اور بس کی حد تک کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ تہذیب وتمدن کے ان مدعیوں نے اسلام دشمنی میں نہ صرف یہ کہ اپنی حیثیت عرفی کا پاس ولحاظ نہیں کیا؛ بل کہ انسانی روایات اور آدمیت کی جوہری صفات سے انحراف اور گریز سے بھی ننگ وعار محسوس نہیں کی۔ مولانا نے فرمایا کہ آغاز اسلام کی روداد سے واقف کون نہیں جانتا کہ محسنِ انسانیت رحمت دو عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک کو (نعوذ باللہ) قتل کردینے کی انتہائی مذموم وملعون سازش سے ان کی تاریخ داغدار ہے، انھیں جب کبھی بھی قوت وغلبہ میسر آیا ہے تو خدا کی اس زمین کو خدا کے پرستاروں کے خون سے رنگین کردیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ان لوگوں نے فلسطین پر قبضہ کیا ہوا ہے اور مسلمانان فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین اور مسجد اقصٰی سے مسلمانوں کا جذباتی و ایمانی تعلق ہے، اور ارض مقدس کے حقیقی وارث مسلمان ہیں۔ لہٰذا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی رہے، انکی مدد و معاونت کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔
مرکز تحفظ اسلام ہند کے’’ تحفظ القدس کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا عبد السبحان ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے مسجد اقصٰی کی اہمیت محض جذباتی نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم نے مسجد اقصٰی کے اردگرد کے علاقے کو مبارک قرار دیا، یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کی تعمیر کردہ مسجد ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ اس مسجد کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیمؑ اور بنی اسرائیل کے انبیاؑ کی آخری آرام گاہیں واقع ہیں۔ ان اسباب کی بنا پر القدس کی اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت ہرصاحب ِایمان کے دل میں جاگزیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قضیہ فلسطین کا معاملہ کوئی قومی یا زمینی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ خالص ایک دینی مسئلہ ہے۔کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مسئلہ ہماری پہچان اور ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے- اللہ تعالی نے اس مقدس مقام اور اس کے قرب وجوار پر برکت نازل کی ہے۔ یہ دنیا بھر کے مومنین کے دلوں کا مرکز ہے کیونکہ یہ اس عظیم مقام کی نمائندگی کرتا ہے جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ رہا ہے۔ یہاں موجود مسجد اقصیٰ حرمین شریفین کے بعد دنیا میں مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑ تا ہیکہ 1918 میں ترکوں کے پر امن تخلیہ کے بعد 1919 میں فلسطین برطانوی اقتدار میں چلاگیا۔ پھر 1948ء میں اقوام متحدہ اور مغرب کی پشت پناہی کی وجہ سے یہودیوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور یہودیوں کے قبضہ کے بعد سے وہ لوگ مسجد اقصی کی اسلامی شناخت ختم کرکے صیہونی رنگ میں رنگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس عظیم خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے بیسیوں یہودی محلے اور کالونیاں بنا ڈالیں، جن میں مختلف ممالک سے نقل مکانی کرکے لاکھوں یہودی یہاں آبادہوگئے۔ اسطرح آج القدس کے 86 فیصد رقبہ پر یہودی قابض ہیں جبکہ عملاً صرف 14 فیصد حصہ فلسطینیوں کے پاس بچا ہوا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بلاشبہ فلسطین کا حالیہ قضیہ اس وقت امت مسلمہ کے لیے اہم ترین قضیہ ہے، امت مسلمہ کے تمام طبقے اور افراد اپنی اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق فلسطین اور بالخصوص غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے مکلف ہیں۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں استطاعت کے مطابق پوری کوشش کرکے بھی مطمئن و قانع نہ ہو، نگاہ اپنے عمل پر نہ ہو، اس کا دکھلاوا نہ کرے، دوسروں کو جتلائے نہیں، بلکہ جو کچھ کرے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت سمجھ کر کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں، اور وہ اس قوم کے امین ہیں۔ علماء کرام کو جہاں منبر و محراب سے اپنے بیانات کے ذریعے اور فتویٰ و صحافت کے سنجیدہ میدان میں اپنے فتاویٰ و مضامین کے ذریعے عام مسلمانوں اور حکمرانوں کے اندر اس مذہبی فرض کی ذمہ داری کا شعور بیدار کرنی چاہیے، وہیں منظم و پر امن احتجاج اور سیاسی ذرائع سے ارباب اقتدار کو اس مسئلے کے حل کی طرف بھی متوجہ کرنی چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ حقیقت ہے کہ فلسطین ہمارا ماضی بھی ہے حال اور مستقبل بھی، اسے قومی یا ملکی مسئلہ سمجھ کر چھوڑا نہیں جاسکتا۔بلکہ فلسطین اور بیت المقدس کی بازیابی کیلئے ہمیں ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی، ملکی اور سیا سی طور پر بھی۔ اور ہم اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ مسجد اقصی کی آزادی ہم پر فرض ہے اور یہ فرض اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب ہم اپنے تمام تروسائل کے ساتھ بیت المقدس اور اہل فلسطین کی پشت پناہی کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دونوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔