از- مولانا محمد نعمان رضا علیمی، بنارس
جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ معاشرے میں جب بیٹاں جنم لیتی ہیں تبھی سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ لیا جاتا ہے، اور ایک ذمہ داری بھی بن جاتی ہے۔ بیٹیاں بوجھ تو نہیں ہوتیں لیکن انہیں بوجھ بنا دیا جاتا ہے وہ بھی ایک جہیز کا نام دے کر۔ جہیز کیا ہے ؟ اصل جہیز جو میکے سے سسرال جاتا ہے وہ ٹرک میں بھرا سامان نہیں بلکہ خود بیٹی ہوتی ہے۔ والدین اپنی اولاد سے محبت تو کرتے ہیں اور انہیں دل و جان سے چاہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی پوری دنیا ان کی بیٹی میں بسی ہوتی ہے۔ ان کا اتنا بڑا دل ہوتا کہ اپنی پوری دنیا کو پرائے گھر میں رخصت کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی بیٹی کے سسرال والے اس کے میکے سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا بیٹا معذور ہے؟ کیا وہ کما نہیں سکتا؟ اسے چاہیے کہ وہ جہیز پر لعنت بھیجے اور اس کے خلاف کھڑا رہے، اس نے ٹرک دیکھ کر نکاح کیا ہے نہ کہ اس کی حیثیت۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مالدار گھروں میں جب بیٹیاں رخصت ہو کر جاتی ہے تو ان کے ساتھ ایک بڑی کار اور دو ٹرک بھر کر سامان بھی دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ کچھ گھروں میں بیٹیوں کے جہیز میں فلیٹ یا پھر زمین بھی ان کے نام دی جاتی ہے۔ وہ لوگ تو اپنی بیٹیوں کو خوشی خوشی رخصت کر دیتے ہیں اور سسرال میں بھی اسے خوشحال پاتے ہیں۔ والدین کو بھی سوچنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ بیٹی کو جہیز دیں بلکہ اسے اتنا پڑھائیں کہ وہ کسی قابل بن جائے اور آپ اسے جہیز میں یہ سمجھا کر بھیجئے کہ دونوں میں جو بھی بات ہو آپس میں سمجھوتہ کریں اور دل میں اخلاق اور لہجے میں نرمی پیدا کریں اور دیکھا جائے تو والدین اپنی غربت کی وجہ سے بیٹیوں کو رخصت نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے بیٹیاں انہیں بوجھ لگنے لگتی ہیں۔
سماج میں جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفے کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور شہرت کی غرض سے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے اور گائوں، سماج کو خاص طور پر برادری کے لوگوں کو بڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بارات کی بھی خوب خاطر مدارات کی جاتی ہے اور پرتکلف کھانے کا اہتمام ہوتا ہے جو کہ سراسر اسراف میں داخل ہے۔
اس رسم/روایت کے خاتمے کی شروعات لڑکے یا اس کے گھر والوں کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے اگر لڑکے یہ قدم اٹھائیں اور جہیز لینے سے صاف منع کردیں تو آہستہ آہستہ یہ روایت ختم ہو جائے گی کیونکہ سب ایک دوسرے کو ایسا کرتے دیکھ کر خود بھی اس کی تقلید کریں گے لیکن اگر لڑکے والے جہیز لینے کو اپنا فرض سمجھتے رہیں گے تو ہمیشہ یہ رسم چلتی رہے گی اور لڑکی والوں پہ بوجھ بڑھتا ہی جائے گا۔ البتہ یہ عمل اخلاص کے ساتھ ہونا چاہیے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ جہیز نہیں لیتے مگر پھر شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ مار کر اور احسان جتا کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں کچھ کیسز میں یہ معاملات اتنے گمبھیر ہو جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔
یقیناً جہیز کی روک تھام کے لئے قانون موجود ہے مگر یاد رکھیں کہ قانون اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب سماج میں اس قانون کے تئیں بیداری ہو اور اس قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم ہو مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان سے تو سب جہیز کو برا کہتے ہیں مگر عملی طور پر اس کو بہت ہلکے میں لیتے ہیں۔جب سماج میں یہ سوچ رائج ہو تو بیٹیوں کو اذیت پہنچانے اور قتل کرنے کی راہیں تو کھلیں گی ہی۔
ہم ایک لکڑی میں لگی آگ کو تو بجھا سکتے ہیں لیکن جہیز کی لعنت جو دن بدن ناسور بنتی جا رہی ہے اسے کیسے بجھایا جائے، آپ اس کے لئے آواز اٹھائیں اور بیٹیوں کے حق کے لئے لڑیں۔ ایسی بیٹیاں کب تک جہیز کے نام پر بکتی رہیں گی، کب تک وہ ذلت برداشت کرتی رہیں گی۔ ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے دینا سیکھو، لینا نہ سیکھو، یہ جو رسم جہیز ہے ہیں اس دقیانوسی سوچ کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہیے اور اس جہیز کی آگ کو بڑھانے کے بجائے اسے بجھانا چاہیے تا کہ جو بیٹیاں اپنے گھروں میں جہیز کے بوجھ تلے دبی بیٹھی ہیں ان کے نصیب بھی کھل جائیں۔
یاد رکھیں جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہمارے ملک کے رگ و ریشہ میں سما گئی ہے۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو برائیاں ہندوستان میں داخل ہوئی ہیں ان میں جہیز بھی ہے۔ اس رسم کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دل سے لالچ کو نکالیں اور بیٹی کو جہیز نہیں،وراثت میں حصہ دیں، ایسا کرکے ہی ہم معاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں اور تبھی یہ لعنت ہمارے سماج سے دور ہوگی۔