‘اٹھّی جو گھٹاکالی کالی’
تخلیق : مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ : شعری مجموعہ ’پرواز‘
تو کون ومکاں کا خالق ہے، توباغ جہاں کا ہے مالی
احسان ترا ہے یاربیِّ، اٹھّی جو گھٹا کالی کالی
غنچوں کی چٹک کلیوں کی مہک ، بادل کی گرج بجلی کی چمک
رقصاں ہے کلی کی ہر پتی، جھومے ہے شجر کی ہرڈالی
گرمی تھی، تپش تھی،روئے زمیں،سنسان پڑی بے رونق تھی
بادل سے ہوئی رحمت نازل، اور پھیل گئی سب ہریالی
ہیں مرغ سبھی سرگرم نوا، ہے شکر سراپا دہقانی
تسبیح کے دانے گن گن کر،جھومے ہے کسانو ں کی بالی
آتی ہے فراز کوہ سے جو، اٹھلاتی ہوئی بل کھاتی ہوئی
دکھلاتی ہے آکر شہ زوری، ندّی کہ جو تھی سوکھی نالی
ہر چار طرف سبزہ سبزہ، ہر چار طرف رونق رونق
ہے ذات تری بس بے ہمتا، ہے توہی نقائص سے خالی
رحمت کی گھٹائیں چھائی ہیں، برسی ہیں ابھی کچھ برسیں گی
تیری ہے کریمی شان بڑی، ہم سب کا توہی ہے رکھوالی
اے ربِّ جہاں درپہ تیرے، جھک جایا کرے یہ میری جبیں
غیروں کی بڑائی سے میرا، احساس رہے خالی خالی
ہے خشک قلم، معذور زباں، انعام ترا ہر سو پھیلا
ہوسکتی نہیں تعریف تری، ہے شان تری شانِ عالی