Articles مضامین

شادی کی بے جا رسومات اور ان کا حل

از۔ افتخار ساقی، اسلامک اسکالر، البرکات


  • معاشرہ کہتے ہیں: جماعت، سماج اور سوسائٹی وغیرہ کو۔ انسانوں کے وجود سے پہلے بھی معاشرے کا وجود تھا اور یہ جنوں کا معاشرہ تھا۔ جو بہت ہی فساد پھیلاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے جب فرشتوں سے فرمایا کہ” میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں” (البقرۃ:30) تو فرشتوں نے جنات پر قیاس کرتے ہوئے عرض کیا "کیا تو زمین ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا” (البقرۃ:30) اللہ تعالٰی نے ان کے شبہات کو دور فرما دیا، اگلی آیتوں کے پڑھنے سے معلوم ہوگا۔ خیر اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمانے کے بعد حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو پیدا فرمایا تاکہ ایک انسانی معاشرہ تشکیل پا سکے۔ یقیناً عورتوں کے بغیر معاشرے کا وجود ممکن نہیں ہے کیوں کہ عورت ہی نسلِ انسانی کی افزائش کا سبب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی تشکیل شادی و نکاح کے ذریعے ہوتی ہے۔ کیوں کہ جب مرد و زن آپس میں ملتے ہیں اور ان سے جو نسل انسانی کی افزائش ہوتی ہے، وہی معاشرے کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اب جب معاشرے کا وجود ہو گیا تو اس میں اچھائیاں بھی ہوگی اور برائیاں بھی لیکن دور حاضر میں معاشرہ اچھائیوں کی بنسبت برائیوں کا مرکز بنا ہوا نظر آتا ہے۔ تقریباً 1500 سال پہلے جن برائیوں کو محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے سے نکال پھینکا تھا، وہی برائیاں آج عام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہم اگر دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دور صحابہ و تابعین والا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے معاشرے میں چلتی برائیوں کو ختم کرنا ہوگا اور خاص کر ہمارے معاشرے میں جو شادی کا ماحول ہے اس کو یک سر تبدیل کرنا ہوگا۔ آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہوگا کہ اچھے معاشرے کا شادی سے کیا کنکشن ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جس سے معاشرہ بنتا ہے، وہ اصل میں کسی اور سے نہیں بلکہ شادی کے ذریعے ہی بنتا ہے۔ آپ کہیں وہ کیسے؟ بھائی! سمپل سی بات ہے، نسلِ انسانی کی افزائش شادی کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے شادیوں میں بیماریاں ہیں ان سب کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا تبھی جا کر ایک اچھا اور عمدہ معاشرہ وجود میں آئے گا۔
  • پہلی خرابی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے جتنے باراتی لڑکی والوں کے یہاں پہنچتے ہیں تو ان کے کھانے پینے کا سارا خرچہ و انتظام لڑکی والے کو اٹھانا ہوتا ہے، اس میں اگر کوئی کمی ہوتی ہے تو سب لوگ اول فول بولنے لگتے ہیں۔ اگر لڑکے والوں کو براتی لے جانے کا بہت شوق ہے تو سارا خرچہ و انتظام خود اٹھائیں! کسی دوسرے پر یہ بوجھ ڈالنا بہت غلط ہے۔ امیروں والی شان و شوکت دکھانا ہے تو اپنی دولت سے دکھائیں؟ دوسرے کی دولت سے نہیں! معاشرے سے اس بیماری کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ اور بہت ساری خرابیاں ہیں جن کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے مثلاً: ناچ، گانے اور ڈھول باجے وغیرہ ان سب کا بھی اپنی شادیوں سے نکال پھینکنا ہوگا! کیوں کہ یہاں سے فیزیکلی معاشرے کو ایک پیغام پہنچتا ہے۔ جیسی فیزیکلی ایکٹیوٹیز ہوں گی ویسا ہی پیغام پہنچے گا۔ اور آنے والی نسلیں اسے سیکھتے اور عمل کرتے ہوئے نظر آئے گی۔ انہیں خرابیوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک خراب و برباد معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ایک جہیز کا بھی مسئلہ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ اگر اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے تو پھر محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر نور نظر سیدہ، طاہرہ، پارسہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو شادی میں خانہ داری کے کچھ سامان کیوں دیے؟ ایک روایت میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ مہر کی ادائیگی کے لیے تمہارے پاس کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گھوڑا تو جہاد میں کام آئے گا، ایسا کرو زرہ بیچ دو۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زرہ بیچ دیا اور ساری رقم حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیش کر دی۔ تو اسی رقم سے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خانہ داری کے سامان حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عطا کیے۔ چلو اگر مان بھی لیتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جہیز دیا تھا۔ تو میرا آپ سے یہ سوال ہوگا کہ جس نبی نے اپنی پوری حیات مقدسہ میں عدل و انصاف اور برابری سے کام لیا ہو اس نبی پر ناانصافی کا الزام عائد کرنا ہوگا؟ اور دوسرا سوال یہ ہوگا کہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک شہزادی کو جہیز دیا اور باقی شہزادیوں کو کیوں نہیں دیا؟ تو آپ کہیں گے باقی شہزادیوں کے شوہر مالدار تھے اس لیے انہیں نہیں دیا گیا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں چل یہ رہا ہے کہ جو سب سے زیادہ مالدار اور امیر ہے وہی لوگ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں لکژری کار، واشنگ مشین اور یہ چاہیے وہ چاہیے۔ اسی بیماری اور خرابی کو معاشرے سے ختم کرنا ہوگا! تبھی ایک اچھا، عمدہ اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے گا۔ رہا یہ سوال کہ "حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لخت جگر، نور نظر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جہیز دیا ہے” تو اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مالی حالت صحیح نہیں تھی، دوسری بات یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش میں تھے۔ ایک ذمہ دار کی حیثیت سے دیے نہ کہ جہیز کے طور پر۔ یہی وجہ تھی کہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خانہ داری کے ضروری سامان عطا فرمائے۔ آج بھی معاشرے میں یہ حسن عمل پایا جاتا ہے کہ لوگ اپنے غریب داماد کو خانہ داری کے ضروری سامان دیتے ہیں۔
  • دوسری خرابی یہ ہے کہ عورت جب اپنے سسرال میں کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے، اکثر سسرال والے کہتے ہیں میکے سے لے آؤ یا خود عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے اور اس چیز کا مطالبہ کرتی ہے۔ والدین تو والدین ہوتے ہیں اگر ان کے پاس سہولت نہ بھی ہو تو اپنی کڈنی بیچ کر اپنی شہزادی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تو میں ایسی بیٹیوں اور ایسے والدین سے کہوں گا کہ: محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جس قدر اپنی شہزادیوں سے محبت فرمائی ہے ان سے زیادہ آپ اپنی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں؟ جو نبی اپنی امت سے اس قدر محبت کرتے ہوں کہ کبھی ان کے لیے اپنے پیٹ میں پتھر باندھ لیتے ہیں تو کبھی امت کی بخشش کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں آنسوؤں کے دریا بہا دیتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ وہ نبی اپنی بیٹیوں سے محبت نہ کریں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک دفعہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر، نور نظر، آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور، سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے والد محترم کے پاس غلام کی حاجت لے کر آتی ہے کہ کاموں میں میرا ہاتھ بٹائے، تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم منع فرما دیتے ہیں، کیوں کہ اس وقت محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دے دیتے تو وہ اسلامی قانون بن جاتا کہ جب جب عورت اپنے سسرال میں کسی چیز کی ضرورت محسوس کریں وہ اپنے میکے سے لے آئے۔ یہ خرابی اور بیماری ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
  • تیسری خرابی مہر ادا نہ کرنے کی ہے: آج کل معاشرے میں لوگ عورت کو اس کا مہر تک ادا نہیں کرتے ہیں۔ یہ تو شریعت کی طرف سے شوہر پر مہر ادا کرنا ضروری ہے جو مہر کم از کم دس درہم ہے یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ (618.30 گرام) چاندی یا اس کی قیمت ہے۔ جو دس درہم سے کم مہر باندھتا ہیں تب بھی اسے دس درہم ہی دینا ضروری ہوگا۔ اور جو دس درہم سے زیادہ باندھتا ہے تو اسے اتنا ہی دینا ضروری ہوگا جتنا اس نے باندھا ہے۔ اور یاد رہے کہ مہر عورت کو ہی دینا ہے نہ کہ ان کے سرپرست کو کیوں کہ مہر کی مستحق عورت ہے۔ شریعت نے تین طرح کا مہر رکھا ہے۔ پہلا "مہر معجل” یہ مہر عورت سے ہمبستری کرنے سے پہلے دینا ہوگا ورنہ عورت ہمبستری سے منع کر سکتی ہے۔ دوسرا "مہر مؤجل” ہے یہ مہر ایک وقت (ایک مہینہ، ایک سال،دس سال وغیرہ) تک مقرر کر دیا جاتا ہے۔ وقت پورا ہونے کے بعد مہر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تیسرا "مہر مطلق” ہے یہ مہر پوری زندگی میں کبھی بھی ادا کرے۔ اور ہاں مہر دینے کے بعد عورت سے واپس لینا قطعاً جائز نہیں ہے۔ اگر عورت اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ یا پورا حصہ دے دے تو جائز ہے۔
  • چوتھی خرابی فضول خرچی کی ہے: ہمارے معاشرے میں یہ بیماری بہت عام ہے، لوگ قرض لے کر فضول خرچی کرتے ہیں۔ جیسے قسم قسم کی ڈشیں بنانا۔ جس کی جیسی استطاعت ہو ویسا کریں۔ قرض لے کر ڈشیں نہ بنائیں۔ آتش بازی کی بیماری بھی بہت عام ہو چکی ہے۔ ایک عقل سلیم رکھنے والا بندہ بھی آتش بازی کو برا سمجھتا ہے کیوں کہ اس میں جان کے نقصان کا قوی اندیشہ ہے اور یہ فضول خرچی ہے۔ آتش بازی کا مذہب اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے کیوں کہ یہ فضول خرچی ہے اور اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے "بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں” (بنی اسرائیل:27) اللہ تعالٰی نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا کیوں کہ شیطان مردود، جہنمی اور ناشکرا ہے اور کسی کا ناشکرا ہونا کتنی بڑی ذلت کی بات ہے۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو دولت کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی نوازا ہے تو اس دولت کو نیک کاموں میں خرچ کر کے اللہ تعالٰی کی رضا و خوشنودی حاصل کرو نا!
  • پانچویں خرابی "دیر سے شادی کرنا” ہے: آخر سرپرست لڑکے اور لڑکی کی شادی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں؟ یا تو معاشرے میں چلتی ہوئی غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کے لیے تاخیر کرتے ہیں کیوں کہ ابھی ان کے پاس ان غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں۔ یا یہ کہ ابھی میرا بیٹا سیٹل نہیں ہوا ہے، سیٹل ہونے کے بعد شادی کرائیں گے۔ یا علم حاصل کرنے کی وجہ سے۔ جب اتنی وجوہات ہوں گی تو ظاہر سی بات ہے، لڑکے اور لڑکیوں کی عمر زیادہ نہیں ہوگی تو اور کیا؟ جبکہ والدین جوانی کی عمر سے گزر چکے ہیں کہ کس طرح جوانی کی عمر میں نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے؟ اتنے سارے تجربات، جانکاری اور معلومات ہونے کے باوجود بھی اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں، اور اکثر بچے اس بھری جوانی میں موج مستی کرتے ہیں اور اپنے لیے مفاسد اور فتنوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ تو کیسے ہمارا معاشرہ ایک اچھا، عمدہ اور پاکیزہ معاشرے کی صورت اختیار کرے گا؟ اسی لیے محسن انسانیت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغام لائے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہے تو اس سے نکاح کر دو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا” (ترمذی شریف:1084) اور دوسری جگہ فرمایا کہ "جو شخص قدرت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ نکاح کر لے” (ابن ماجہ:1846) آپ اگر ایک اچھا،عمدہ، خوبصورت اور پاکیزہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ان خرابیوں اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا!

Related posts

लक्षद्वीप की प्रधानमंत्री की तस्वीरों ने यूं ही नहीं मचाई हलचल

Paigam Madre Watan

تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا

Paigam Madre Watan

تابِ سخن”  ____  ایک مطالعہ

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar