محمد شفیق عالم مصباحی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انہیں بہترین صورت میں پیدا فرمایا ’’سورہ والتین‘‘ میں رب کائنات ارشاد فرماتا ہے:’’بیشک یقیناًہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا تو انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کی رشد و ہدایت کے لیے دنیا میں نبوت اور رسالت کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبران عظام کو بھیجا جو اپنےاپنے فرائض کو انجام دیتے رہے ،اپنی قوم کے ساتھ خیر سگالی کا معاملہ کرتے رہے۔اللہ عزوجل نے انھیں ایک ایک آسمانی صحیفہ بھی عطا فرمایا۔ پھر نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ اللہ نے اپنے محبوب، مقصود کائنات، روح کائنات، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام کر دیا اور اللہ نے جو کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی اسے قران مجید اور فرقان حمید کہا جاتا ہے۔ اسے کتاب ہدایت بھی کہا جاتا ہے، اس کلام کو اللہ نے نازل ہی اس لیے کیا ہے کہ یہ سوتے ہوؤں کو جگائے، غافلوں کو خبردار کرے، ظالموں اور سرکشوں کو ان کے ہلاکت اور ان کے برے انجام سے آگاہ کر ے، جو لوگ بھٹکے ہوئے ہیں انہیں راہ ہدایت عطا کر ے، چنانچہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
’’وہ بلند رتبہ کتاب ہے کوئی شک کی جگہ نہیں، اس میں ہدایت ہے ڈرنے والوں کو‘‘۔( سورۃ البقرۃ۲: آیت:٢)
اسی طرح ’’سورہ یونس‘‘ آیت نمبر ٧٥ میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
’’اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے‘‘۔( سورہ یونس/ آیت:75)
اسی مفہوم کی اور بھی بہت ساری آیتیں ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے، ان کی رہنمائی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی کتاب نہیں، قیامت تک کے مسلمانوں کےلیےیہ مشعل ہدایت ہے جو بھی اس سے جڑا رہا، اسے مضبوطی سے تھاما، اس پر عمل کیا،وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔ابتداے اسلام میں جب یہ کتاب حکیم نازل ہو رہی تھی ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی تلاوت فرمائی تو کہنے والےکہا کہ یہ تو عجیب کلام ہے، یہ انسانوں کا کلام نہیں، یہ تو جادو لگ رہا ہے، جوبھی قرآن پاک کی تلاوت سنتا تو اس پر قرآن کا جادو چل جاتا ہے، اس پر قرآن کی ایسی تاثیر ہوتی کہ وہ مسلمان ہوجاتا۔سرداران مکہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ قرآن سن کر مسحور ہو ئے جا رہے ہیں،مسلمان ہو رہے ہیں تو انہوں نے اس کے سننے پر پابندی لگا دی، لوگ اپنی کانوں میں روئیاں ڈال کر گھوما کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ جن کو ہدایت دینا چاہے اسے وہ روئی بھی نہیں روک سکتی ، اورلوگ اسی طرح دائرہ ٔاسلام میں داخل ہوتے گئے ۔ دور صحابہ سے لے کر اب تک جنہوں نے بھی اس کتاب، ہدایت قران مجید کو مضبوطی سے تھاما،اس پر عمل کیا اس میں اپنے لیے رہنمائی تلاش کی، وہ کامیاب ہوئے اور جنہوں نے اسے چھوڑ دیا وہ آج بھی ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔
آج ہم اپنا محاسبہ کریں،کیا ہمارا عمل قرآن کے مطابق ہے؟کیا ہم قرآن سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا:’’ اے لوگو ! ہم تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہے ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔(حدیث)
لیکن آج ہم نے اس کتاب ہدایت کو محض قرآن خوانی اور دعا تعویذوغیرہ کے لیے خاص کر لیا ہے ۔آپ انصاف سے بتائیں کہ کیا قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ ہم اس پر پھول پتی چڑھا کر طاق کی زینت بنا دیں تاکہ دیکھنے والا سلیقےکی داد دےیااس کی آیتوں کو گھول کر پی لیں یا لکھ کر گلے کی تعویذبنا لیں تاکہ ہم پر کوئی بلا و مصیبت نازل نہ ہو اور نظر بد سے محفوظ ہو جائیں، کسی کی نظر نہ لگے یا کوئی مر جائے تو اس کی تلاوت کر کے بخش دیا جائے یا کبھی خود تلاوت کرے تو اس نیت سے کرے کہ تاکہ ثواب حاصل ہو جائے اور ورد کرے تو اس نیت سے کہ یہ توشہ آخرت بن جائے، نہیں قارئین ! قرآن محض دعا تعویذ اور قرآن خوانی کے لیے نہیں اترا تھا قرآن کے تو یہ مقاصد ہرگز نہیں تھے۔ اس کے نزول کا مقصد تو اس میں فکر وتدبر کر کے ہدایت حاصل کرنا تھا۔ قرآن حکیم تو خود اپنے قاری سے غور و فکر اور تدبر کا تقاضا کرتا ہے۔ اور ارشاد ربانی ہے: "تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ دلوں پر ان کے تالے لگے ہوئے ہیں‘‘(سورہ محمد/ آیت: 24)۔
قران کو کیسے پڑھیں ؟ کلام الہٰی کو اس نیت سے پڑھیں کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے، یہ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتی ہے،غفلت میں پڑے ہوؤں کو جھنجوڑ کر اٹھاتی ہے ،یہ خالق کائنات کی معرفت عطا کرتی ہے،یہ انسانیت کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل عطا کرتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح پڑھنے کا حق ہے، اسی مقصد کے لیے پڑھا جائے جس کے لیے اسے اتارا گیا۔قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس میں عمومی طور پر پوری انسانیت کے لیے اور خصوصی طور پر پوری اسلامی زندگی کے لیے تعلیمات دی گئی ہیں۔
یاد رکھیں !قرآن کی رہنمائی عام انسانی کتابوں سے الگ ہے،عام انسانی کتابوں کی reading کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے قرآن پاک پڑھنے والے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ،تو اس کو عام کتابوں کی طرح نہ پڑھیں بلکہ فکر وتدبر کے ساتھ پڑھیں، قرآن پاک کا مشہور ترجمہ ’’ کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن ‘‘اورتفسیر کے لیے ’’صراط الجنان ‘‘وغیرہ کا مطالعہ کریں ، لیکن پڑھیں ضرور ،ہر روز کم از کم چار،پانچ آیتیں ہی سہی ضرور پڑھیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اپنےاسلوب کے اعتبار سے ربانی حکمت کا خزانہ ہے۔
قرآن پاک کو گھر کی زینت نہ بنائیں، اس کی تلاوت سے خود کو اور نسلوں کو مزین کریں۔آج ہم نے قرآن حکیم گھروں میں طاق کی زینت بنا کر رکھ دیا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اتنا اونچا رکھ دیا ہے کہ رکھے رکھے اس پر گرد و غبار جم جاتا ہے،اور اسے کوئی پڑھنے والا نہیں ہوتا یا پھر یہ کہ محض قرآن خوانی اور ایصال ثواب کے لیے خاص کر دیا ہے ۔ لہٰذا خود بھی قرآن پڑھیں، اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں۔