ذکی نور عظیم ندوی — لکھنؤ
وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم و شمار کرنے، تاریخ و ہفتہ کے دنوں کی تعیین ، دنیوی نظام کو منصوبہ بند طریقہ پر انجام دینے اوراس کویاد رکھنے کے لئے دنیا میں مختلف کیلنڈر رائج ہیں جن میں عیسوی کیلنڈر، ہجری کیلنڈر، چینی کلنڈر،بکرمی کیلنڈر،مالی کیلنڈر، تعلیمی کیلنڈر،زرعی کیلنڈر ،مختلف افراد کی تاریخ پیدائش ، شادی اور اس جیسی دوسری تقریبات کی مناسبت سے کیلنڈر ر اور کاروبار کے اعتبار سے کاروباری و معاملاتی کیلنڈر وغیرہ وغیرہ۔
عیسوی کیلنڈرکو دنیا میں سب سے زیادہ رواج حاصل ہے،بیشتر ملکوں اور بین الاقوامی سطح پرسرکاری و غیر سرکاری امور میں اسی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ عیسوی کلنڈر شمسی نظام کے تابع ہوتاہےجس میں سورج کے گرد زمین کی مکمل گردش کا اعتبارکیا جاتا ہے، جس میں۳۶۵ دن ۶ گھنٹہ لگتے ہیں۔عام طور پر عیسوی سال ۳۶۵ دنوں کا شمارکیا جاتا ہےجواصل سال سے ۶ گھنٹہ چھوٹا ہوتا ہے، اس کودرست کرنے کے لیے اکتوبر ۱۵۸۲ء میں تیرہویں پوپ گریگوری نے ہر چوتھے سال (جسے لیپ سال کہتے ہیں) کےسب سے چھوٹے مہینہ فروری میں ایک دن کا اضافہ کرکے ۲۸کے بجائے ۲۹دن کردیا اور اس طرح لیپ سال میں۳۶۵کے بجائے۳۶۶دن ہوجاتے ہیں۔ یعنی عیسوی سال میں تین سالوں تک ہر سال۳۶۵ دن اور فروری کا مہینہ۲۸ دنوں کا ہوتا ہے جب کہ ہر چوتھا سال(لیپ سال) ۳۶۶ دن کاہوتا ہےجس میں فروری میں ۲۹ دن ہوتاہے۔ شمسی عیسوی سال کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں موسم و تاریخ کا ربط کم وبیش صحیح طور پر قائم رہتا ہے ۔
ہجری کیلنڈر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں نبی اکرم ؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے سال کا اعتبا رکیا گیا ہے،اس کو حضرت عمر نے ہجرت کے ۱۷ویں سال اوراپنی خلافت کے ڈھائی سال بعد سرکاری طور پر رائج کیا اور محرم الحرام کو اس کا پہلا مہینہ قرار دیا حالانکہ نبی اکرم ؐ نے ہجرت ربیع الاول کے مہینہ میں کی تھی۔ اس کلنڈرکی بنیاد چاند کی رؤیت پر ہے، ہجری قمری سال شمسی سال سے 11 دن چھوٹا یعنی عام طور پر 354 دن کا ہو تاہے، جس میں ایک مہینہ چاند کےدو مرتبہ طلوع ہونےکی درمیانی مدت پر مشتمل ہوتا ہے جو رؤیت ہلال کی بنیاد پر ۲۹یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے، اسی وجہ سےہجری سالوں میں موسموں اور تاریخوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔لیکن بعض ملکوں میں ہجری شمسی کیلنڈر بھی رائج ہے جن میں چاند کے بجائے شمسی نظام پر اعتماد کیا گیا ہے اور جس کو بہت سے نقطہ نظر سے عیسوی گریگورین کیلنڈر سے بھی زیادہ منظم کہا گیا ہے، یہ کیلنڈر ایران و افغانستان و بعض دوسرے ملکوں میں رائج اور معتبر ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے مہینوں، عشروں اور دنوں میں ہجری قمری سال کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے روزہ، حج ، قربانی، عدت کے مسائل اور بعض دیگر عبادتوں کی تعیین ہوتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ اسلام میں سورج کے مقابلہ چاند کی گردش زیادہ معتبر مانی گئی ہے ، بلکہ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جس طرح ماہ و سال اور عشروں میں رؤیت ہلال کا اعتبار کیا گیا اسی طرح دن کے مختلف اوقات اور نمازوں کے اوقات اور روزہ افطار وغیرہ کے لئے سورج کی گردش کو معتبر مانا گیا۔
عیسوی سال کی نسبت حضرت عیسی ؑ کی طرف ہے، اس کو عربی میں ’’میلادی ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اس میں وقت کا حساب حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے کیا جاتاہے حالانکہ حضرت عیسی ؑ کی پیدائش کے سال کے بارے میں خود عیسائیوں میں بھی بہت اختلاف ہے اور اس سلسلہ میں کئی اقوال ہیں اور کسی بھی قول کو قطعی ماننا قرین قیاس نہیں لگتا۔جب کہ اس کو انگریزی میں مخفف کرکے) A.D)لکھا جاتا ہے جو لاطینی لفظ(Anno Domini)کا مخفف ہےجس سے مراد رب کا سال ہے،بعض لوگ اس کو(After Death )کا مخفف سمجھتےہیں یعنی اس کلنڈر میں حضرت عیسیؑ کی وفات کا اعتبار کیا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت عیسیؑ کو دنیا سے زندہ اٹھالیا ہے اور وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ جس کا تذکرہ اللہ نے قرآن کی سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۵۸میں صراحت سے کیا ہے۔ اس لئے (A.D.) لکھنا اور کہنا دونوں طرح سے قرآن اور بنیادی اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے۔
عیسوی کیلنڈر تاریخ کے مختلف ادوار میںردو بدل اور اصلاح کےمختلف مراحل سے بھی گزرا اور اسی وجہ سے اس کو الگ الگ نام بھی دئے گئے جن میں ’’جولین کیلنڈر ‘‘اور’’گریگورین کیلنڈر ‘‘کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔موجودہ عیسوی کیلنڈر’’ گریگورین ‘‘کیلنڈر ہے اور اب دنیا کے بیشتر حصوں میں یہی کیلنڈر رائج ہے، جس میں تیرہویں پوپ گریگوری نےاکتوبر ۱۵۸۲ء میں ہر چوتھے سال (جسے لیپ سال کہتے ہیں) کےسب سے چھوٹے مہینہ فروری میں ایک دن کا اضافہ کرکے ۲۸کے بجائے ۲۹دن کردیا ، تاکہ یہ کیلنڈرسورج کے گرد زمین کی مکمل گردش جس میں۳۶۵ دن ۶ گھنٹہ لگتے ہیں کے مطابق ہو جائے ۔
اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو سال اور مہینوں کا آنا جانا معمول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتابلکہ اس کے ذریعہ انسان کو اپنے منصوبوں اور اس کے نفاذ کی کوشش اور اس کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے اور حسب ضرورت اس میں ردو بدل، تقدیم و تاخیر اور کبھی کبھی کچھ کمی و زیادتی پر بھی غور کرنا چاہیئے۔ اس سلسلہ میں عیسوی،ہجری،ایرانی،بکرمی یا کسی بھی کیلنڈر کا کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔لہذا کسی بھی کیلنڈر کےنئے سال پر کچھ الگ پروگرام یا جشن اسلامی نقطہ نظر سے کسی طرح بہتر نہیں بلکہ یہ ماہ و سال کی تعیین کا ایک عام نظام اورلازمی حصہ ہے جس کا الگ سے کوئی امتیاز نہیں۔
عیسوی کیلنڈر زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے نئے سال کی آمد پر اس کا زبردست استقبال اور جشن بھی ہوتا ہےاور بڑے دھوم دھام سے مختلف پروگرام اور تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے،جس میں لوگ بڑے جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیںحالانکہ ان پروگراموں میںہر طرح کی بے حیائی، بیہودگی،خرافات اور فضول خرچی کی جاتی ہے جسے اسلامی تعلیمات میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی طرح معقول نہیں قرار دیا جاسکتا۔
ان پروگراموں میں مسلمانوں کی بھی ایک تعدادشریک ہوتی ہے،ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں ہو کہ حضرت عیسیؑ کے نام سے موسوم کیلنڈر کے نئے سال پر جشن سے دور رہنے کی کیا ضرورت؟ جب کہ مسلمان حضرت عیسیؑ اور دیگر تمام انبیاء کے احترام کے قائل اور داعی ہیں، توان کومعلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی کیلنڈر (خواہ وہ عیسوی ہو یا ہجری )کےنئے سال پر کچھ الگ پروگرام یا جشن اسلامی نقطہ نظر سے درست نہیں بلکہ یہ تو ماہ و سال کی تعیین کا ایک عام نظام ہے جس کا الگ سے کوئی امتیاز نہیں۔
جہاں تک حضرت عیسی ؑ کا تعلق ہے تو مسلمان تمام سابقہ انبیاء کی طرح ان کا بھی احترام کرتے ہیں، ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی قبول نہیں کرسکتےکیونکہ وہ اور دیگر تمام انبیاء اپنے زمانوں میں ’’اسلام ‘‘ کے ہی داعی تھے اورنبی اکرم ؐ نے سابقہ تمام آسمانی کتابوں اورانبیاء کے احترام کاحکم دیا۔قرآن میں حضرت مریم ؑ کی پاکیزگی کا صراحت اور وضاحت سےتذکرہ کیاگیا، ان کے نام سے ایک سورت ’’سورہ مریم‘‘ بھی ہے،اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کے مختلف معجزات ،انفرادی خوبیاں اور پھر ان کو آسمان پر اٹھائے جانے کی تفصیلات بیان کرکے تمام مسلمانوں کو ان کے تئیں عزت واحترام کی بھی تعلیم دی گئی۔
لہذاآیئےاس نئے سال پر ہر طرح کے شور شرابہ ،ہنگامہ، بے حیائی، بیہودگی،خرافات اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں اور حسب ضرورت اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کی فکر کریں اور نئے عزائم و حوصلوں کے ساتھ نئے سال میںکچھ مثبت پیش رفت کا عہد کریں۔