فرحان سعید بنارسی
راقم نے بہت سے ایسے اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے ، جو میرے اور میرے والد دونوں کے استاذ تھے ۔ ان میں سے بعض سوۓ فردوس روانہ ہوگۓ اور معدودے چند بقیدِ حیات ہیں ۔ ان اساتذہ میں ” ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ “ سرفہرست ہیں ۔ ماسٹر صاحب کو گزرے مہینوں گزر گۓ ، ذہن تسلیم اور دل یقین کرنے سے قاصر ہے ، یہ سانحہ بڑا اندوہ ناک اور المناک تھا ، جسے حوالۂ قرطاس کرنا محال ہے ۔ آپ کا تذکرہ چند احباب سے سنا تھا ، وہ اس حوالہ سے کہ آپ قادر الکلام شخص ہیں ، کوئی ایسا سوال نہیں جس کا جواب آپ کے پاس نہ ہو اور جواب عقلی و نقلی دونوں گوش گزار کرتے تھے ، ویسے یہ بات تو مبنی بر حق تھی ۔ یہ تب کا واقعہ ہے ، جب میرا داخلہ شروع شروع ہوا تھا ۔ پہلی مرتبہ آپ کو دیکھ کر غیر معمولی حیرت ہوئی ، ویسے یہ کیفیت ہر نا آشنا کی ہوتی تھی ، کیونکہ آپ وضع قطع کے لحاظ سے بالکل ماسٹر نہیں لگتے تھے ، ایک عالم دین معلوم ہوتے تھے ۔ خوش اخلاق ، نرم گفتار ، چہرے پہ بشاشت ، چال ڈھال میں ٹھہراؤ ، سادہ مزاج اور گونا گوں خصوصیت کے مالک تھے ، شریف النفس اور ظریف الطبع انسان تھے ، جس قدر ظاہر پاک و صاف تھا ، چنداں باطن بھی شفاف تھا ۔ ماسٹر صاحب نے ہمیں متوسطہ ثانیہ اور ثالثہ میں پڑھایا تھا ، تدریسی انداز بڑا دلچسپ تھا ، کبھی بھی کسی طالب کو اکتاہٹ نہ ہوتی تھی ، دورانِ درس ایک دو لطیفہ یا چٹکلا سناتے رہتے تاکہ دلچسپی قائم رہے ، طالب علم کو بہت کم سزا دیتے تھے اور کسی طالب کو تادیبی طور پر بھی مارنے کا واقعہ مجھے یاد نہیں ۔ طالب علم سے افہام و تفہیم کا تعلق استوار تھا ، طلبہ آسانی سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتے تھے اور ماسٹر صاحب اپنے نرالے انداز میں جواب دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے متعدد مرتبہ گنگا گھاٹ کی مثال دی ، کسی طالب نے چٹخی لیتے ہوۓ کہا کہ ” شیخ لگتا ہے آپ گنگا بہت گۓ ہیں “۔ ماسٹر صاحب مسکراتے ہوۓ گویا ہوۓ کہ ” مولانا یہ بتائیے آپ ہر جمعرات کو انجمن میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی باری پر تقریر بھی کرتے ہیں ، جنت و جہنم کا بھی ذکر کرتے ہیں ، تو کیا یہ مناظر آپ دیکھ کر آۓ ہیں ؟” ۔ طالب نے کہا کہ ” شیخ وہ تو کتاب سنت سے معلوم ہوتے ہیں “۔ ماسٹر صاحب نے کہا ” جی درست فرمایا ، ہر جگہ کے حالات بیان کرنے کے لیے ان کا مشاہدہ ضروری نہیں ہوتا ، کچھ چیزیں کتاب سے اور کچھ اخبار سے بھی معلوم ہوجاتی ہیں “۔ اس مسکت جواب سے طالب پر سناٹہ چھا گیا ۔ ماسٹر صاحب بڑے ظرف والے تھے ، جن باتوں پر برا منانا چاہیے ، اسے بھی ہنس کر اڑا دیتے تھے ، کبھی کچھ برا لگتا بھی تو زبان سے نہ کہتے ، رنگِ رخسار سے جذبات عیاں ہوجاتے تھے ۔ میں نے آپ کو کبھی کسی کی برائی کرتے ہوۓ نہ سنا ، نہ کسی کو کچھ نامناسب کہتے دیکھا ، گرچہ گرد و پیش میں ایسے لوگ موجود تھے ، جو آپ کو برا بھلا کہتے تھے مگر آپ ہمیشہ مہر بہ لب تھے ۔
یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں
پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں بڑے رہتے ہیں
آپ بڑے خوش نویس تھے ، ہندی ، اردو اور انگریزی تینوں زبانیں عمدہ لکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ سرکاری کاغذات جمع کرنے اور منظوری حاصل کرنے کا مسئلہ درپیش ہوا ، تو کافی طول طویل درخواستیں ہندی میں مرتب کرنی تھی ، تو والد محترم محمد یعقوب سلفی حفظہ اللہ (استاذ جامعہ رحمانیہ مدنپورہ بنارس ) نے ماسٹر صاحب سے درخواست کی کہ یہ کام کر دیں ، ماسٹر صاحب بھی بخوشی راضی ہوگۓ ۔ جب کاغذات دفتر میں پہنچے تو سرکاری افسر دنگ رہ گۓ ، پوچھنے لگے ” یہ کس سے لکھوا لاۓ ہیں ؟ “والد صاحب نے فرمایا کہ ” اپنے استاذ سے “۔ بڑا حیرت زدہ ہوا اور کہنے لگا کہ ” مسلمان بھی اتنی خوشنما ہندی لکھتے ہیں ، پہلی بار دیکھ رہا ہوں “۔ ماسٹر صاحب پر وقار اور شائستگی سے لبریز انسان تھے ، چال چلن میں بڑا ٹہراؤ ، نرمی اور نزاکت تھی ۔ سال ۲۰۱۵ء میں زلزلوں کے کئی ایک جھٹکے محسوس کیے گۓ ، یہ ایسے جھٹکے تھے کہ آدمی سراپا جھٹک گیا تھا ۔ جب پہلی مرتبہ زلزلہ آیا تو ہم متوسطہ ثانیہ میں آخری گھنٹی پڑھ رہے تھے ، اور استاذ آپ ہی تھے ، بیٹھے بیٹھے اچانگ چکر آنے لگا اور میز ہلنے لگی ۔ بعض رفقاء درس نے کہا کہ ” شیخ زلزلہ تو نہیں آگیا ؟ “ ۔ ماسٹر صاحب اپنے پروقار انداز میں گویا ہوۓ کہ ” جائیے میدان میں بھاگیے ، واقعی زلزلہ آگیا ہے “۔ اتنا سنا تھا کہ اکثر طلبہ ننگے پاؤں میدان میں پہنچ گۓ ۔ پھر ماسٹر صاحب کی طرف دیکھا تو وہ چپل پہن کر ہولے ہولے میدان کی طرف آرہے ہیں ، وہی شائستگی ، وہی وقار اور وہی ٹہراؤ ، نہ عجلت پسندی اور نہ ہی کوئی ہچکچاہٹ ۔ آپ مطالعہ کا بھی کافی ذوق و شوق رکھتے تھے ، آپ کے کمرے میں انگریزی ، ہندی اور اردو کی کتابیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں ، ریاضی اور جغرافیہ میں خاص دلچسپی تھی ، شیکسپئیر اور اس جیسے بڑے بڑے مصنف کی کتابیں پڑھتے ، جس کا میں چشم دید ہوں ۔ اردو میں حجیت حدیث اور فتنوں سے نجات اور تاریخ اسلام وغیرہ موضوع آپ کی دلچسپی کا مرکز تھا ۔ آپ جامعہ سلفیہ کی مشرقی عمارت کے دوسرے منزل پر سکونت پذیر تھے ، اسی کمرے میں آپ نے کئی دہائیاں گزار دیں اور طلباۓ جامعہ اور شائقین علم استفادہ کرتے رہے ۔ آپ کے کمرے کے سامنے ، آپ کے قریبی دوست استاذ مولانا احسان اللہ سلفی حفظہ اللہ رہتے تھے ۔ دونوں حضرات کی خوب جمتی تھی ، جب مزاج میں خوشحالی ہوتی ، تو ایک دوسرے سے ہنسی مزاق بھی کرتے ۔ الغرض دونوں حضرات ایک دوسرے کے معاون اور مددگار رہتے تھے۔ آپ نے کھلی فضا ، پیڑ پودے اور ہریالی کے درمیان زندگی گزاری تھی ، اسی لیے آپ ان چیزوں کے عادی تھے ۔ لیکن سال ۲۰۱۵ء میں ” مدرسہ زید بن ثابتؓ لتحفیظ القرآن الکریم “ کے افتتاح کے بعد یہاں منتقل ہوگۓ تھے ، جو آپ کے لیے باعث قلق و اظطراب تھا ، کیونکہ یہاں جگہ تنگ تھی اور زمین کچی ہونے کے بجاۓ ماربل کی تھی ، جس سے آپ کو اور مولانا احسان اللہ کو کافی تکلیف بھی ہوئی تھی ، مولانا احسان اللہ کئی مرتبہ فرش پر پھسل بھی گۓ تھے اور ماسٹر صاحب بھی بڑا سنبھل کر چلتے پھرتے تھے ۔ لہٰذا ان چیزوں کے سبب ماسٹر صاحب کے مزاج میں کافی تبدیلی واقع ہوئی تھی ، طبیعت میں چڑچڑا پن بھی ظاہر ہوتا تھا ۔ یہی آپ کا آخری زمانہ تھا ، جہاں ہم نے آپ کو قریب سے دیکھا اور جانا تھا ۔ ماسٹر صاحب سرکاری ٹیچر تھے ، جامعہ رحمانیہ ( مدنپورہ بنارس ) کے استاذ تھے اور یہیں تدریسی فرائض انجام دیتے تھے ، لیکن ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی تدریسی خدمات جاری رکھیں تھی۔