تصنیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی(ماخوذ: رشحات قلم )
ہماری جماعت میں بفضلہ تعالیٰ کچھ ایسے رفقاء درس تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی سربلندی عطافرمائی اور یہ بات کہنے میں بڑا فخر اور بڑا اعزاز محسوس ہوتاہے کہ یہ ہمارے رفقائے درس تھے۔
(۱) علامہ ڈاکٹر وصی اللہ عباس حفظہ اللہ پروفیسر جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ وخطیب ومدرس مسجدالحرام، صاحب تصانیف کثیرہ، ڈاکٹر صاحب نے ہم لوگوں کے ساتھ جامعہ سلفیہ میں ۴؍ ۵ ماہ پڑھا تھا اور یہیں سے وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ جامعہ سلفیہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جن چار اشخاص کا جامعہ اسلامیہ میں داخلہ کے لیے انتخاب ہواتھا۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ جامعہ سلفیہ سے پہلے وہ جامعہ رحمانیہ بنارس ہی کے طالب علم تھے۔ ہم لوگوں کا وطن سدھارتھ نگر قدیم ضلع بستی ہے ۔ کم عمرساتھی ہونے کی بناء پر ان کی نظرالتفات میری طرف بہت تھی۔ اور اب بھی عندالملاقات وہ اپنا ئیت اور التفات جھلکتاہے۔ گفتگو ایسی ہوتی ہے کہ لگتاہے ابھی وہی قدیم طالب علمی کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ترقی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچایا وہ علامہ امام محمدبن عبداللہ السبیل قدیم رئیس الحرمین الشریفین کے بڑے محبوب تھے جن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو ترقی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچایا۔ ان کی گوناگوں صلاحیت کا یہ حال ہے کہ ریٹائرڈ ہوجانے کے باوجود جامعہ ام القریٰ کے ذمہ داران ان کی علاحدگی کی خواہش کے باوجود انہیں علاحدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں اور ان کے بچوں کو سعودی شہریت مل چکی ہے۔ مخالفین کی مخالف سرگرمیوں کے باوجود وہ مسجدحرام کے مدرس او رخطیب ہیں ہفتہ بھر روز مغرب کی نماز کے بعد مختلف ومتنوع موضوعات پر ان کا درس ہوتاہے۔ اور مستفیدین میں دور دور کے لوگ خاص کر سعودی علماء حاضر ہوتے ہیں۔
(۲) دکتورمحفوظ الرحمٰن سلفی صاحب دیوبند سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ میں داخل ہوئے اور ہم ہی لوگوں کے ساتھ فارغ ہوکر نکلے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت کے آدمی تھے۔ کچھ دن تدریس کا کام علاقہ کے مدارس میں کیا۔ تبلیغ کے لیے ہم لوگ ساتھ نکلتے۔ پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہوا۔ وہیں سے ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری لے کر نکلے۔ پرانا مسکن کونڈئو بونڈھار تھا۔ بعد میں ڈومریاگنج مشہور قصبہ میں منتقل ہوگئے۔ بقول مولانا امراللہ صاحب رحمانی ٹکریا انہوں نے اپنی ذہانت اور خدمات سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تہلکہ مچادیا۔ جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد دبئی میں بحیثیت داعی، مدرس، محقق ومصنف تقرری ہوئی۔ تعطیل کے موقع پر جب بھی ڈومریاگنج تشریف لاتے تو ضرور ملاقات ہوتی اور پھر ادنیٰ واعلی کا فرق مٹ جاتا، اپنی دیہاتی زبان ہی بولتے۔ بڑے خلیق، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ مسجد عفراء ، خیرالعلوم، کلیتہ الطیبات خیر ٹیکنیکل اسکول انہی کی نشانی ہے۔ غریبوں اور مسکینوں یتیموں کی خبرگیری کا جذبہ تھا۔ دارالایتام کا قیام ڈومریاگنج میں اسی کے لیے ہوا۔ عملی طور پر ان کاموں کو ڈاکٹر عبدالباری مدظلہ العالی نے ان سارے اعمال خیر کو انجام ہی نہیں دیا بلکہ اس کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسی کے لیے انہوںنے اپنا پیشہ طبابت بھی چھوڑدیا۔ابھی حال میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ اطراف کے لوگوں کے ملجا وماوی تھے ۔ قرب وجوار کے ادارے انہیں اپنا مانتے تھے ان کی خصوصی تقریبا ت میں ضرور شریک ہوتے۔ اور آتے وقت اپنے معیار کے مطابق ادارہ کے ذمہ داران کے کسی مخیر ترین کو کچھ دے کر آتے۔ وفات کے وقت عمر تقریبا نوے (۹۰) برس رہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کا ثمرہ انہیں عطا فرمائے۔ آمین، ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن آخری سانس تک انہیں خدمات میں لگے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت جلدی اپنے یہاں بلالیا۔ اب ان کے فرزند عبیدالرحمٰن صاحب ان اداروں کے صدر اور سرپرست ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اعمال خیر کو قبول کرے۔ اور ڈاکٹرمحفوظ الرحمٰن صاحب کو اپنے کرم سے جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔ کئی اہم کتابوں پر کام کیا، وفات کی وجہ سے بعض کتابیں مکمل نہیں ہوسکیں۔ ان کا انتقال دبئی میں ہوا اور وہیں تدفین بھی ہوئی۔ ایک بھرا پُرا خاندان چھوڑا۔ سارے بچے علمی راہوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول کرے۔ (آمین)
(۳) حافظ محمداسماعیل مئوی صاحب جامعہ سے فراغت کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ وہاں سے کلیۃ پاس کرنے کے بعد جامعۃ الامام ریاض سے ایم اے کیا۔ ریاض ہی میں ایک مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ تحفیظ القرآن میں اور جامعۃ الامام میں کچھ گھنٹیاں پڑھاتے تھے۔ ہم لوگ تدریب کے کورس میں جامعۃ الملک سعود ریاض گئے تو کئی مرتبہ انہوںنے دعوت کی۔ اسی خدمت پر رہتے ہوئے ریاض ہی میں بیمار پڑے مایوسی میں گھر (مئو) آئے۔ علاج برابر جاری رہا۔ بالآخر یہیں مئو میں انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
(۴) مولانا نوراللہ براری بیتول کے رہنے والے تھے۔ بہت ذہین وفطین تھے۔ ساتھ میں فراغت ہوئی ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ وہیں تعلیم کے زمانہ میں کسی سفر میں ایکسیڈینٹ ہوا۔ جان برنہ ہوسکے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میرے خیال میں ساتھیوں میں سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا۔ ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، عنقریب ہونے والی تھی۔ غفراللہ لہم جمیعا ویرحمہم ویدخلہم الجنۃ جنۃ الفردوس
(۵) مولانا محمدیوسف صاحب نے ساتھ ہی میں فراغت حاصل کی۔ دہلی میں رہ کر طبابت کی تعلیم حاصل کی ساتھ ساتھ بعض جرائد کی ایڈیٹری بھی کی۔ محمدیوسف مرکزی سے خود کو روشناس کرایا۔ طب سے فراغت کے بعد پنجاب میں سرکاری نوکری ملی۔ اور وہیں پر رہ کر پوری عمر گزار دی۔ کبھی کبھار دیہات آتے تھے۔ اسی موقع پر بعض مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں۔ اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ وہیں پنجاب میں شاید مالیرکوٹلا میں ہی گھر بنوالیا ہے۔ بال بچوں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں۔ زیادہ دن سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ معلوم نہیں اب بھی وہیں پر ہیں یا وطن (سدھارتھ نگر) واپس آچکے ہیں۔
(۶) مولانا حبیب الرحمٰن صاحب بنگالی بھی ساتھ میں فارغ ہوئے تھے۔ فراغت کے بعد ملاقات نہ ہوسکی۔ اگر زندہ بخیر ہوں گے تو میرے خیال میں تعلیم ہی سے جڑے ہوں گے۔
(۷) مولانا محمدمستقیم سلفی صاحب: ۱۹۶۹ء میں ساتھ میں ان کی فراغت ہوئی۔ یہ ان طلبہ میں سے ہیں جو پہلے سے جامعہ رحمانیہ میں پڑھتے تھے۔ ۴؍سال ساتھ میں تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے۔ فراغت کے بعد پہلے ویڈھن ضلع سیدھی ایم پی میں تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ یہ مدرسہ مکتب کے معیار کا تھا۔ اور اب بھی وہی حالت ہے۔ اہل حدیث افراد اقلیت میں ہیں۔ اکثریت بریلویوں اور حنفیوں کی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث مسلک سے وابستہ لوگ تجارت پیشہ ہیں جنہوںنے پہلے مسلک سلف اختیار کیا وہ لوگ ابھی موجود ہیں۔ مولانا موصوف نے یہاں سے چھو ڑ کر مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر اور مدرسہ سراج العلوم بونڈہار میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ بونڈہار ہی سے ۱۹۷۹ء میں بحیثیت مدرس جامعہ سلفیہ آئے۔اسی وقت سے آج تک جامعہ کی خدمت میںلگے ہوئے ہیں تدریس کے ساتھ تصنیفی کام بھی کیا۔ ایک کتاب بہت عظیم اور نفع بخش ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن انہوںنے تنہا مرتب کیاہے وہ کتاب ہے ’’جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات‘‘۔
(۸) مولوی عبدالوہاب صاحب حجازی۔ ان کے ہم جماعتی ہونے کا شرف تو دارالحدیث مئو ہی میں حاصل ہوگیاتھا۔ اور جب دوسرے سال یہ لوگ دورہ میں پڑھنے لگے تو میں فیض عام پڑھنے چلا گیا۔ پھر جامعہ سلفیہ میں دوبارہ ساتھ ہوگیا کیونکہ یہاں عالم رابع میں سندکاسال ہونے کی وجہ سے داخلہ نہیں ہوتا۔ ان کی فراغت بھی ساتھ میںہوئی۔ فراغت کے بعد دہلی چلے گئے۔ اور لائن بدل کر کچھ پڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ جامعہ ملیہ میں عا لمیت کی سند بی اے کے لیے انہی لوگوں نے سب سے پہلے منظور کرائی۔ واپس آکر کسمہی، جمنی، بریلی میں دھورہ ٹانڈہ کے مدرسوں میں کام کیا جن کا معیار مکتب تک ہی تھا۔ ۱۹۸۰ء میں جامعہ سلفیہ میں بحیثیت مؤلف ومترجم تقرری ہوئی۔ ۱۹۸۴ء میں ان کو بھی تدریس میں جگہ ملی۔ اور اب ماشاء اللہ اسی وقت سے تدریس کے ساتھ ترجمہ وتصنیف اور دعوت وتبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ اچھے خطیب اور مقرر ہیں زبان پر عبور ہے کئی کتابیں ان کی طبع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اچھے شاعر بھی ہیں لیکن ابھی تک ان کا مجموعہ کلام منظر عام پر نہ آسکا۔ مولانا محمدرئیس ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ قرآن کے ترجمہ کا کام بھی کیا اور ظن غالب ہے کہ مکمل ہوچکا ہوگا۔
(۹) مولوی عبد القادر صاحب بہاری، شاید پٹنہ وطن تھا، فضیلت اول میں داخل ہوئے جامعہ میں دوسال تعلیم حاصل کی اور فراغت پائی، بڑے سیدھے اور کم سخن تھے، فراغت کے بعد پٹنہ میں ان کی سروس لگ گئی، ان کی اہلیہ بھی تعلیم یافتہ تھیں، ان کی ملازمت بھی اسی جگہ لگ گئی۔ اس طرح دونوں سرکاری ملازمت میں تھے۔
(۱۰) عزیزالرحمٰن سلفی : انہی بزرگوں کے ساتھ ۱۹۶۹ء میں جامعہ سلفیہ سے فراغت ہوئی اور جامعہ سلفیہ سے عا لمیت اور التخصص فی الشریعۃ (فضیلت) کی سند یں حاصل کیں۔ ساتھ میں عربی فارسی بورڈ سے عالم کا امتحان پاس کیا۔ ۱۱؍شوال المکرم ۱۳۹۸ہجری، ۱۶؍ستمبر ۱۹۷۸ء کو چند سال سے یہ خدمات بند ہوچکی ہیں اس کی وجہ فالج کی بیماری ہے، تفصیل بعد میں ذکر کی جائے گی۔ مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس میں تقرری ہوئی اور تاحال خدمات جاری ہیں۔ اس طرح مولانا محمدمستقیم صاحب مجھ سے ایک سال بعد جامعہ آئے۔ اور مولانا عبدالوہاب حجازی سلفی کی تقرری دوسال بعد (مؤتمرالدعوۃ والتعلیم ۲۲تا۲۴فروری ۱۹۸۰ء کے بعد) ہوئی۔ اس طرح جامعہ سلفیہ میں تدریس کے لحاظ سے مجھے ان دونوں سے تقدم حاصل ہے۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ
جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد میں نے منشی کا امتحان (عربی فارسی بورڈ سے) پاس کیا۔ اس کی تیاری کے لیے میں نے جامعہ رحمانیہ کے دارالاقامہ میں ماسٹر عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے میں قیا م کیا۔ ان کا کمرہ دوسری منزل پر بڑا کشادہ تھا۔ اپنے مقابل میری چارپائی لگوادی تھی۔ اسی کمرے میں ان کے بعض فرزندان رہتے اور پڑھتے تھے۔ انہوںنے جامعہ رحمانیہ کی طرف سے میرے کھانے پینے کا انتظام کردیاتھا۔ اس امتحان میں میرے ساتھ مولانا محمدعیسیٰ سلفی، محمد مسلم سلفی اور مولوی سمیع اللہ سلفی شریک تھے اور اتفاق سے یہی لوگ عالم کے امتحان میں بھی میرے ساتھ شریک تھے۔ اچھا خاصہ خرچہ ملتا تھا ہوٹل میں جاکر الہ آباد میں ٹھہرتے تھے۔ ایک مسلم ہوٹل میں ناشتہ اور کھانا کھاتے۔ او رامتحان دینے کے بعد کچھ نہ کچھ بڑھ ہی جاتا تھا۔ دوسرے مدارس کی طرح یہاں کوئی استاذ نگراں ساتھ میں نہیں ہوتا تھا جو دوروٹی کے بجائے ایک روٹی کھانے کی تبلیغ اور نصیحت کرے۔
اردو فارسی نثرونظم کی تیاری میں نے خود سے کرلی تھی مگر حساب وجغرافیہ کا معاملہ ٹیڑھا تھا اس وقت منشی کے امتحان میں فارسی زبان کی مشکل کتابیں داخل تھیں مثلاً: کلیات نظیری اور قصائد قا آنی، گلستاں بوستاں مکمل، اسی طرح تاریخ وجغرافیہ اور حساب ہائی اسکول کے معیار کا داخل نصاب تھا، مگر ماسٹر حمیداللہ صاحب نے تھوڑے ہی دنوں میں حساب اور جغرافیہ کی تیاری کرادی۔ امتحان کے موقع پر ساتھیوں نے دوران امتحان اتنا پریشان کیا کہ میرا ذہن مختل ہوگیا۔ ان کے سارے سوالات صحیح طریقے سے حل کروادیے۔ اور خود میں اپنے پرچے میں غلطی کرگیا۔ قاعدہ بالکل درست تھا مگر جواب صحیح نہیں تھا ذرا ذرا سا نقص رہ گیا ۔ باہر آکر میں نے سوالات اور جوابات پر جب غور کیا توکل آٹھ نمبر کے سوال کے جواب صحیح نکلے۔ مگر اللہ کے فضل وکرم سے سیکنڈ پوزیشن سے پاس ہوگیا۔
اس امتحان سے فراغت کے بعد ناظم جامعہ سلفیہ نے مجھ کو لائبریری میں کتابوں کی فہرست سازی کے لیے رکھ لیا۔ اور تقرر کے وقت فرمایا کہ اس کے ساتھ جو امتحان وغیرہ تم دینا چاہو دے سکتے ہو۔ تمہارے اوپر کوئی پابندی نہیں ہے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ اسی وقت سے یہ مثل مجھے یاد ہوگئی۔
جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں ابھی تک کتابوں کا اندراج نہیں ہوا تھا۔ باہر سے بہت سی کتابیں آگئی تھیں۔ مولانا غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کا کتب خانہ آچکا تھا۔ اور ایک جگہ پر اوپر نیچے رکھا ہوا تھا۔ مولانا سیف بناری رحمتہ اللہ علیہ کا قابل قدر کتب خانہ جامعہ کو مل چکا تھا، منشی کے امتحان سے فراغت کے بعد فہرست سازی کا کام کیا اور دوسری جانب جامعہ اردوعلی گڑھ سے ادیب ماہر کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس امتحان کے موقع پر بنارسی طلبہ نے سوالات پوچھ پوچھ کر لکھے اور کافی پریشان کیا۔ ماشاء اللہ اس امتحان میں بھی کامیاب ہوا اور نظم میں امتیازی نمبرات حاصل ہوئے۔ اس طرح یہ ۱۹۷۰ء کا سال تکمیل کو پہنچا۔
امتحان ادیب ماہر کے تعلق سے باہر کے بہت سے طلبہ سے جان پہچان ہوئی۔ انجمن ترقی ادب اردو سے تعلق ہوا وہاں دو اساتذہ ان امتحانوں کی تیاری کراتے تھے:
(۱) پروفیسر شیو ناتھ پرساد جو کسی کالج میں پڑھاتے تھے، بڑے اچھے اردو داں تھے اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ ایک مرتبہ اپنی ایک نظم ایک محفل میں پڑھنے کے لیے دی، جس دن میں وہاں جاتا بڑی ملاطت سے بات کرتے ، وہاں سے رخصت ہونے کے وقت میرے ساتھ پیدل نکل کر چوراہے تک آتے۔
(۲) ماسٹر آفتاب الدین صاحب یہ بڑی بازار کے تھے ، بڑی نیک طبیعت آدمی تھے وہاں سے نکلنے کے بعد ایک مرتبہ بڑی شاہی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھ کر میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس پانی لیکر پہنچے ۔ سوچا کچھ کھا رہے ہیں، پانی کی ضرورت ہوگی۔ میری نظر ان کے چہرہ پڑی اور پہچان لیا ، سلام وکلام اور خیر وعافیت دریافت کی گئی۔