تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)
اللہ کا شکر اور اس کا عظیم احسان ہے کہ اس نے مجھے جو رفیقۂ حیات بخشی، اگر چہ تعلیم بہت معمولی یعنی صرف ناظرہ قرآن تک ہے لیکن وہ بھی میری والدہ کی طرح بہت بااخلاق، خدمت گزار، دل دردمندرکھنے والی، باتوں ہی سے لوگوں کا من موہ لینے والی نکلیں جب تک میری اہلیہ نہیں آتی جاتی تھیں اس وقت تک مجھے مہمانوں کی مہمان نوازی میں بڑی دقت اور پریشانی ہوتی تھی۔ کسی دوست یا ساتھی کو بلاتے ہوئے ڈرلگتا تھا اسی طرح کی دقت میں نے والد صاحب کے لیے دیکھی کیوں کہ گھر میں والدہ نہ تھیں ان کا میل جول اور دوستی عام طور سے پڑھے لکھے لوگوں سے تھی کسی کو بلاتے ہوئے انہیں بھی ڈرلگتاتھا۔ ایک بار ان کے ایک دوست ملاقات کے لیے آئے والد صاحب نے ان کو روک لیا جب شام کا کھانا مہمان کے سامنے آیا تو ککڑی کی مسالہ دار سبزی اور چاول۔ ساتھ میں والد صاحب کا کھانا بھی آیا ظاہر ہے وہ کتنا شرمندہ ہوئے ہوں گے کہ گھر میں سب کچھ ہوتے ہوئے اس طرح کابیوہار کیاگیا۔ صبح کو جب ناشتہ کرکے مولانا چلے گئے تو والد صاحب بہت غصہ ہوئے مگر غصہ ہوکر کیا کرسکتے تھے دوسرے کے بال بچوں پر کسی کا کیا اختیار ہے۔ بہرحال میری اہلیہ کے آنے کے بعد میری اور والد صاحب کی یہ مشکل حل ہوگئی اب میں تمام دوستوں، ساتھیوں، بزرگوں اور اساتذہ کرام کی اپنے گھر بلاکر خدمت کرسکتا تھا۔
ہمارے گائوں میں شاید ۶۰؍۱۹۵۹ء کا زمانہ تھا میں فارسی پڑھتاتھا، یہ یاد رہے کہ میں نے اردو کی پرائمری کی تکمیل نہیں کی تھی بس اوپر پڑھنے کے شوق میں درجہ دوم کی ابر رحمت چھوڑ کر فارسی وغیرہ پڑھنے لگا تھا۔ مدرسہ مفتاح العلوم ٹکریا کی جانب سے ایک بہت بڑا دوشبی جلسہ ہواتھا دور دور سے مشاہیر علماء کرام تشریف لائے تھے مولانا محمدشعبان چترویدی دیوریاوی کی اس زمانہ میں بہت شہرت تھی وہ بھی تشریف لائے تھے۔ سامعین کا خصوصی طور پر عورتوں کا بہت بڑا اژدہام تھا والدصاحب نے میرے لیے شیروانی بنوادی تھی اس کو پہن کر میں خوشی خوشی ٹہلا گھوما کرتا تھا۔ اس جلسہ میں سارا کام گائوں کے لوگوں نے کیاتھا اور بڑے اتحاد کے ساتھ سارے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ کھانا پکانے، روٹی پکانے سے لے کر جلسہ گاہ کی سجاوٹ تک سارا کام گائوں کے لوگوں ہی نے کیاتھا۔ اس وقت گائوں میں اتحاد تھا۔ خصوصاً مدرسہ کے لیے سبھی لوگ مخلص تھے اس موقع پر ہمارا گھر بھی مہمانوں سے بھرا ہواتھا۔ انہی مہمانوں میں ہماری منجھلی پھوپھی کی پٹی دار ایک خاتون بھی آئی تھیں ساتھ میں اپنی ایک چھوٹی سی بچی کو بھی لائی تھیں۔ ان کا مقصد جلسہ سننے او ردیکھنے سے زیادہ مجھے دیکھنے کا اور اپنی اسی بچی کا مجھ سے رشتہ لگانے کا تھامگرمجھے اس وقت ا س کی کیاپرواہ تھی اور نہ اس بات کی خبر کہ کون کون کس غرض سے آیا ہے؟ انہوںنے اسی موقع پر دادی دادا،والد صاحب اور دیگر تمام گھر والوں سے اپنا عندیہ ظاہر کردیا۔ اور ایک طرح رشتہ پکا کرلیا۔ دوشبی جلسہ تھا، بہت دور دور سے دوکانیں آئی تھیں۔ میں جلسہ میں جاتا ایک فیض آباد کا مسلمان آدمی دوکان لایاتھا جن کو جلسہ گاہ کے مین گیٹ پر جگہ دی گئی تھی۔ وہ سوہن حلوہ بیچتے تھے خالص گھی ڈال کر مٹھائی بنائی گئی تھی۔ میرے پاس اس زمانے کے حساب سے پیسے کم نہ تھے۔ دادی دادا دونوں چچا اور والد صاحب مجھ کو پیسہ دیتے رہتے تھے۔ او رمیرے پاس ہمیشہ روپئے رہتے تھے کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں وہی مٹھائی بڑی فراوانی کے ساتھ خریدتا خود بھی کھاتا اور گھر میں موجود تمام اپنے ہم عمربچوں اور بچیوں کو بھی کھلاتا۔ میری ایک پھوپھی زاد بہن تھیں جو مجھ سے کافی بڑی تھیںاور مجھ سے بڑی محبت رکھتی تھیں۔ عام طور پر میرے گھر ہی رہا کرتی تھیں ان کو بھی کھلاتا تھا اور جب جلسہ ختم ہونے لگا تو وہی مٹھائی زیادہ سی خریدکر رکھ لی۔ ان ہی بچوں اور بچیوں میں وہ بچی بھی تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے میری رفاقت کے لیے منتخب کررکھا تھا لیکن ابھی مجھ کو یا اس کو کیا احساس تھا ؟بس وہ گھر میں آئی ہوئی ایک مہمان بچی تھی۔ اور میں اسی گھر کا ایک بچہ ۔ بہر حال بات چیت طے ہوجانے کے بعد وہ مطمئن ہوکر چلی گئیں۔ جلسہ بھی ختم ہوچکاتھا اب آئندہ جوں جوں عمر بڑھی شعورواحساس بھی بڑھا او رمجھے بھی یہ خبر معلوم ہوگئی۔ میں تھا بڑا شرمیلا۔ پھوپھی کے یہاں جاتا تو اس سمت نہ جاتا جس طرف میری سسرال کا گھر تھا ویسے وہ میری پھوپھی ہی کا خاندان تھا لیکن ہمارے پھوپھا دوسرے محلہ میں منتقل ہوگئے تھے۔ اور وہ لوگ پرانی ہی جگہ پر باقی تھے۔ میری پھوپھی کے محلہ میں او راس محلہ میں تقریباً دو چار بیگھ کا فاصلہ تھا ۔ یہاں کھیتی ہوتی تھی آبادی نہ تھی البتہ ان کے بیل وغیرہ یہیں پھوپھی کے پڑوس میں رکھے جاتے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی وہاں ضرور سوتا تھا۔
اس جلسہ کی ایک تاریخ تو یہ بیان ہوئی، اس جلسہ کی ایک دوسری تاریخ یہ ہے کہ جلسہ کے حاضرین خواتین ورجال سے مدرسہ کے لیے چندہ کیاگیا چندہ کی تحریک کوئی اچھا مقرر کررہاتھا۔ اس لیے عورتوں او رمردوں کو ملاکر کافی چندہ ہوگیا۔ اسی میں ایک خاتون معلوم ہوتا ہے بہت غریب قسم کی تھیں انہوںنے ایک پائو کے قریب دھن کودوا کا چاول چندہ میں دیاتھا۔ اس ایک پائو چاول کی نیلامی ہوئی تو ایک آدمی نے اس کو پانچ روپیہ اور دوسرے نے ۶؍روپیہ میں خریدا۔ اس طرح وہ ایک پائو چاول (جو بہت تھرڈ قسم کا سمجھاجاتاہے) گیارہ روپیہ میں فروخت ہوا یعنی دونوں آدمیوں نے اس ایک چاول کو مشترکہ طورپرخریدا اور پھر یہ چاول بھی مدرسہ میں دے دیا جب کہ اس وقت اچھا سے اچھا چاول ایک روپیہ کا ڈھائی تین کیلو ملتا ہوگاچونکہ ہمارے منجھلے چچا اس جلسہ میں بہت متحرک تھے او رشاید اس وقت مدرسہ کے اراکین میں سے تھے اس لیے ان ہی کو اس کی حفاظت سے رکھنے کے لیے کہاگیا۔ انہوںنے میرے ہی بکس میں رکھوادیا۔ وہ چاول میرے پاس بیسوں سال تک تھا اور جب یہ دیکھا کہ وہ خراب ہوگیاہے تو اسے پھینک دیاگیا یہ اس اللہ کی بندی کے خلوص کی وجہ سے ہوا کہ جو چیز اس زمانہ میں ۵؍پیسہ کی بھی نہیں تھی اس کی قیمت ۱۱؍ روپیہ ملی۔ اور وہ چاول بھی مدرسہ ہی میں رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ اس انجانی خاتون کو اس کے اخلاص کا بدلہ بروز قیامت عطا فرمائے۔ آمین۔
اس جلسہ کے بعد کی ایک تاریخ یہ ہے کہ گائوں والوں کے مابین شاید باقی ماند ہ غلہ کے بارے میں کچھ اختلاف رائے سامنے آیا۔ وہ اختلاف اتنا بڑھا کہ چند گھر مدرسہ کے باغی ہوگئے۔ وہ گنے چنے چند گھر تھے مگر انہوںنے اس وقت ایک گھر میں مدرسہ بھی قائم کرلیا۔ اور ایک مدرس رکھ کر اپنے بچوں کو مدرسہ جانے سے روک دیا۔ اس میں سب سے سرگرم ایک مسلمان تیلی تھا جس کا ہمیشہ یہ حال رہا کہ وہ حق سے اختلاف رکھتا اور باطل کی تائید کرتا، بہت پہلے مرحوم ہو چکے، اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
یہاں سے جو اختلاف کی بنیاد پڑی وہ گاہے گاہے ابھر کر بہت سارے مواقع پر نمایاں ہو جاتی۔ نیامدرسہ تو خیر بند ہوگیا مگر دل کا کینہ ختم نہ ہوسکا۔ با ت کچھ دوسری ہورہی تھی لیکن درمیان میں یہ باتیں ذکر کردی گئیں تاکہ کچھ گائوں کے حالات کی بھی تاریخ کا پتہ چل جائے۔
میں اپنی نسبت کے بارے میں لکھ رہا تھا کہ اسی جلسہ کے موقع پر بات پکی ہوگئی لیکن نکاح تین چارسال کے بعد ہوا۔ اس میں ہمارے یہاں کا رواج یہ تھا کہ لڑکی کے خاندان اور رشتہ داری کے لوگ اپنے معیار کے مطابق بارات کی شکل میں لڑکے والوں کے گھر آتے۔ آنے کے بعد شربت وغیرہ پلایا جاتا۔ نائی سارے باراتیوں کا پیر دھلتا۔ پھر وہ لوگ آرام کرتے۔ شام کو کھانا پینا ہوتا پھر نکاح ہوتا دوسرے روز ناشتہ اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد بارات رخصت ہوجاتی۔ اس موقع پر دونوں گھر کے لوگ اپنے اپنے اقرباء کی دعوت کرتے۔او رسب اس میں شرکت کرتے بالکل اسی طرح میرے گھر بھی ہوا میرے سسرال سے بارات آئی ۔ کھانا پینا ہوا گرمی کا موسم تھا گھر کے باہر گیہوں کی پیاری پر ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ یہ کوئی ۶۴-۱۹۶۳ء کا واقعہ ہے جب نکاح کے لیے سب لوگ اکٹھا ہوئے او رنکاح خوانی کی تیاری مکمل ہوگئی میں اس وقت قریب گیارہ بارہ سال کا ہوچکا تھا تو میری بڑی پھوپھی مجھے گود میں لے کر بیٹھ گئیں کہ پہلے ہم لوگوں کا حق (نیگ) دے دو۔ تب نکاح کے لیے بچے کو چھوڑدیں گے (شادی اور رخصتی کے وقت پھوپھیوں کو خوشی ہوتی ہے وہ کچھ مخصوص تحفہ اس موقع پر مانگتی ہیں۔ اس خوشی میں اس قسم کی رسم ہر جگہ چلتی ہے وہ کسی ایک پھوپھی کا نہیں ہوتا بلکہ اس میں ساری پھوپھیوں کا حصہ ہوتاہے۔ ان سے والد صاحب اور چچا وغیرہ نے کچھ دینے کا وعدہ کیا تب انہوںنے مجھ کو چھوڑا۔میں اگرچہ اتنی عمر کا ہوچکا تھا مگر بڑا دبلا پتلا تھا گھر میں دودھ او رگھی کی فراوانی تھی مگر اس وقت یہ سب چیزیں پسند ہی نہیں کرتا تھا کبھی کبھی دادی زبردستی دودھ پلاتیں تو بالکل لال دودھ جو زیادہ پکنے کی وجہ سے لال ہوتاہے وہی پیتا اور وہ بھی نمک وغیرہ ڈال کر اور گھی خوب تیکھی چٹنی میں ڈال کر کھاتا تھا بہرحال جب دادی کی ضد پر کسی طرح میں رضا مند ہوتا تو چھوٹے چچا مجھے چڑھانے لگتے کہ چاہے دودھ گھی میں ڈوبے رہو لیکن موٹے نہیں ہوگے۔ سینک (تنکا) کی طرح رہو گے۔ جب پھوپھی نے مجھ کو چھوڑا تو پھر نکاح ہوا، ایجاب وقبول ہوا اس وقت پینتیس روپیہ مہر متعین ہواتھا ۔ سوا دس آنہ وغیرہ جو روپیہ کے ساتھ لگانے کا رواج تھا وہ سب نہیں لگایاگیا۔ لڑکی والوں کی طر ف سے ایک مولوی صاحب جن کو وہاں کے لوگ میاں صاحب کہتے تھے وہی آئے تھے انہوںنے نکاح پڑھایا ۔ ہمارے یہاں یہی رواج ہے کہ نکاح خواں لڑکی والوں کی طرف سے ہوگا او رلڑکے والے ان کو خوشی میں روپیہ پیسہ بطور ہدیہ اس موقع پر دیتے تھے ۔ مجھے اس وقت آیات نکاح یاد نہ تھیں۔ بزرگوار مولانا عبدالغفور صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس محفل نکاح میں موجود تھے انہوںنے میاں صاحب سے کہا کہ آیات میں کچھ غلط آپ نے پڑھا ہے اسے آپ صحیح کرلیں۔ اس طرح نکاح میرا میمونہ سے ہواتھا اس رشتہ کے پابند ہوجانے کے بعد بہت سے لوگ اپنی لڑکیوں کے پیغام لے کر میرے گھر آئے۔ والد صاحب انہیں جواب دیتے کہ اس کا نکاح ہوچکا ہے۔ دادا دادی بھی اسی طرح کے جواب دیتیں۔ یہ سلسلہ رخصتی (گونا) تک چلتارہا۔
دادا جان کی بڑی خواہش تھی کہ میری زندگی میں میری نتوہ(پوتے کی بیوی) آجاتی میں دیکھ تو لیتا مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا ۔ مئی ۱۹۶۷ء میں دادا جان کچھ دن بیمار او رصاحبِ فراش رہ کر ۹۰؍۹۵ سال کی عمر میں رہروحیات جاودانی ہوگئے۔ مجھ سے بڑی محبت رکھتے تھے میںاس وقت جامعہ سلفیہ کے عا لمیت رابعہ کا طالب علم تھا بیماری کے زمانہ میں بار بار میرا نام لے کر پکارتے ۔ لوگوں سے کہتے اس کو بلادو میں ایک نظر دیکھ لوں ان کی بیماری سن کر میں بھی بے چین تھا۔ جی میں آتا تھا کہ کب میں گھر پہنچ جائوں او ر دادا جان کو دیکھ لوں۔ مگر بعض بزرگ دوستوں او رساتھیو ںنے مجھے جانے سے روک دیا ۔ عنقریب امتحان ہونے والا تھا وہ لوگ کہتے تھے پڑھائی کا سال خراب نہ کرو ممکن ہے کہ بیمار ی طویل ہوجائے تو پھر دوبارہ جامعہ میں داخلہ پانا دشوار ہوگا۔ امتحان بھی خراب ہوگا سال بھر کا نقصان ہوگا ۔ میں نے ان ساتھیوں اور مخلصین کی رائے مان لی۔ یہاںجامعہ سلفیہ میں ۲۵؍مئی سے ۲۴؍جون تک گرمی کی تعطیل ہوتی ہے ۔ چھٹی ملتے ہی گھر آیا تو معلوم ہوا کہ ایک ہفتہ پہلے دادا کا انتقال ہوا ہے۔ دادی جان یہ داستان روروکر سناتیں اس طرح ان کی آرزو کی تکمیل نہ ہوسکی۔ دادا کی وفات کے بعد نانا نے قبر پر بیٹھ کر کہا تھا کہ اسی کے ساتھ اور اسی کی قوت بازو سے کولہوی بزرگ کا چبوترہ گرایاگیاتھا آج وہ میرا ساتھی چلا گیا۔دادا جان اتنے زور آور تھے کہ چار پانچ آدمیوں کو بغل میں لے کر دبا دیتے تھے۔
دادا کے انتقال کے ایک سال بعد میرا گونا( رخصتی) آیا، اس میں دولہا کے گھر سے بارات جاتی ہے، جون کا مہینہ تھا، سڑک دھول سے بھری تھی، میں نے گھرپر نہایا بھی نہیں اور نہ کپڑے بدلے جب سسرال کا گائوں ایک ڈیڑھ فرلانگ رہ گیا تو والد صاحب مجھ کو لے کر ایک کنوئیں پر گئے اس پر ڈھینکلی بندھی تھی مجھے وہیں غسل کرایا ، کپڑے بدلے ۔ پھر بارات میں آئے اس وقت بارات ایک شب گزارتی تھی۔ ناشتہ کے علاوہ دووقت کا کھانا کھاتے۔ کھلی جگہ پر ٹھہرایا جاتا کیونکہ عموماً گیہوں کٹنے کے بعد چیت مہینہ کے بعد بیساکھ یا جیٹھ میں شادی بیاہ ہوا کرتی تھی۔اور یہ تو جون کا مہینہ ہمارے جامعہ کی تعطیل کا زمانہ تھا صبح جب اٹھے تو معلوم ہوا کہ میرے خالہ زاد بھائی عبدالستار صاحب (جو اب مرحوم ہو چکے ہیں)برات سے چلے گئے کوئی آدمی ان کی ناراضگی کا سبب نہ سمجھ سکا۔ کوئی ان کو واپس بلانے کے لیے گیا تو انہوںنے کہا کہ میرے پاس کپڑے نہیں تھے مجھے اس کپڑے میں وہاں شرم لگے گی۔ اسی لیے میں چلا آیا۔ بہر حال یہ کہہ کر وہ گھر واپس چلے گئے۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ میں چار جوڑے کپڑے لے کر آیاہوں۔ مجھے معلوم ہوتا یا اگر یہاں بتاتے تو میں ان کو ایک جوڑا کپڑا دے دیا۔ اس موقع پر رات میں میرے دوسرے خالہ زا د بھائی مولوی عبدالوہاب حجازی نے کچھ تہنیت اور مبارکباد کے اشعار خودنوشت سنائے۔ شام کو چار بجے بارات اور لڑکی کی رخصتی ہوئی اس طرح نکاح ہونے کے چار پانچ سال بعد میمونہ ہمارے گھر آئیں ۔ تقریباً ایک ہفتہ پہلی بار رہیں۔ پھر ان کے چچا انہیں واپس لے جانے کے لیے بیل گاڑی لے کر آئے ۔ دوسرے دن ان کو رخصت کردیاگیا۔ ہمارے گائوں سے ابھی کچھ ہی دور بیل گاڑی گئی تھی کہ اس کا پہیہ ہی ٹوٹ کر نکل گیا۔ مجبوری کہیے یا اللہ کی مصلحت پھر انہیں ہمارے گھر لوٹ کر آنا پڑا۔ پاس پڑوس کی عورتوں او رلڑکیوں نے ان کو چھیڑنا شروع کردیا کہ طبیعت یہاں سے جانے کو نہیں کہہ رہی تھی اس لیے بیل گاڑی کا پہیہ ہی ٹوٹ گیا۔لو اب رہو۔ بہرحال چار پانچ روز کے بعد پھر ان کے چچا بیل گاڑی لے کر آئے تو پھر اپنے گھر لے گئے۔
ہمارے اطراف میں اس وقت یہ رواج تھا کہ پہلی بار دلہن سسرال آتی تھی تو زیادہ سے زیادہ دوتین رات رہتی تھی ہمارے یہاں یہ رسم ٹوٹ گئی ۔ اسی طرح پہلی بار آمد کے بعد دوبارہ دوسال ، تین سال کے بعد لائی جاتی تھی لیکن ہمارے یہاں سال ہی بھر کے بعد میری جون کی چھٹی میں دوبارہ لائے۔ اس بار پھر کچھ باراتی گئے تھے۔ اور اسی طرح ایک رات گزار کر دلہن کو لے کر واپس لوٹے اور ایک بات یہ تھی کہ پہلی دوسری رخصتی کے موقع پر دولہا کو گھر آنگن میں بلایا جاتاتھا او راس کے ساتھ عورتیں بڑا کھیل تماشا کرتی تھیں مگر میرے ساتھ ماشاء للہ ایسا کچھ نہیں ہوا مجھے بلاکر باہر ہی ایک چارپائی پر بیٹھا دیاگیا کوئی عورت قریب نہیں آئی۔ جس کو جو ہدیہ وتحفہ دینا تھا وہ کسی کے ذریعہ میرے پاس پہنچادیاگیااور پھر میں اٹھ کر چلاآیا۔ ممکن ہے کہ میرے مولوی ہونے کا لحاظ کیا ہو، میں اس وقت تک انتہائی صوفی صافی تھا ۔ ذرا ذرا سی داڑھی نکل رہی تھی۔
ہمارے یہاں یہ بھی رواج تھا کہ دوتین مرتبہ آنے تک نئی دلہن سے کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا مگر ہماری بیگم کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید ان کا امتحان مقصود تھا اس لیے میری چھوٹی چچی جو میری خالہ زاد بہن بھی ہیں( جو اب مرحوم ہو چکی ہیں) انہوںنے میری اہلیہ کے دوسری بار آتے ہی چولہا ، چکی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
اس سال ہمارے کھیت میں کنواں کی کھدائی ہورہی تھی آخر کا دوتین روز جس میں بڑی محنت ومشقت ہوتی ہے اس میں کئی کئی کام یکبارگی ہوتے ہیں ۔ کھدائی کرنا مٹی نکالنا، پانی نکالنا وغیرہ۔ بہت سا کام رہتاہے اس وقت یہ سارے کام مزدور نہیں کرتے تھے بلکہ گائوں کے لوگ ہی آپس میں تعاون کے ساتھ کرلیتے تھے۔ کم ازکم پچاس ساٹھ آدمیو ں کی ضرورت پڑتی ہے گھر والوں کو سب کے کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑتاہے ۔ ناشتہ سے لے کر کھانا تک ۔ کئی عورتیں کام میں لگتی ہیں تب پورا کام ہوپاتاہے لیکن یہاں ہمارے گھر کسی کو بلانے کو کون کہے چچی نے بھی گھر چھوڑدیا صرف دادی دیکھ ریکھ کے لیے بچیں وہ کچھ تو نہ کرسکتی تھیں البتہ رہنمائی ان سے مل سکتی تھی۔ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے میمونہ کو یہ صلاحیت دے رکھی تھی کہ انہوںنے تنہا تمام لوگوں کا ناشتہ اور کھانا تیار کیا اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملا۔ بعد میں ہماری دادی جان میمونہ کی بڑی تعریف کرتی تھیں کہ بہو نے ایک نئی نویلی دلہن پر سارا کام چھوڑدیا کہ اگر کوئی کام پورا نہ کرسکی تو مجھے برہم ہونے، غصہ دکھانے او رلعن وطعن کا موقع مل جائے گا اور اس نے اکیلے سارا کام کرکے رکھ دیا اور سب کے منہ پر طمانچہ ماردیا۔
یہاں جو کنواں کھودا جارہاتھا اس کے اطراف میں پانی کا کوئی بندوبست نہ تھا جس سے کھیتوں کی آب پاشی کی جاسکے۔ خود ہمارا وہاں سب سے زیادہ کھیت تھا ہمارے یہاں تو ایک گڈھے سے کچھ پانی مل جاتاتھا لیکن وہ بالکل ناکافی تھا اور دیگر لوگوں کو توبالکل پانی نہ ملتا تھا اس لیے والد صاحب نے یہ کنواں کھدوانا چاہا۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ گنے کی آبیاری کے موسم میں کچا کنواں کھود کر کئی بار دیکھا جاچکا تھا۔ بہت معمولی پانی نکلتا تھا مگر اللہ کی شان کون جانتاہے ۔ تقریباً بیس فٹ کنوئیں کی کھدائی ہوئی پھر لمبے لمبے بانسو ںسے ہول کرنے لگے ۔ کافی حد تک بانس اندر چلاگیا۔ مگر پانی کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتاتھا ۔ آخر کار محنت کرنے والے لوگ مایوسی کا شکار ہونے لگے۔ کسی نے کہا کہ لائو اس بانس سے ڈیڑھ دوفٹ او رہول کیا جائے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ مددکردے۔ چنانچہ پھر سے بانس کو مزید اندر گاڑا جانے لگا ابھی پورا دوفٹ نہیں گیاتھا کہ پانی ایک تیز ریلے کے ساتھ نکلنے لگا۔ ذرا سی دیر میںلگا کہ اندر کے لوگ ڈوب جائیں گے اب لوگوں کی خوشی قابل دید تھی خوب شور ہنگامہ ہوا ہر ایک دوسرے سے ہنستا مذاق کرتا اور مبارکباد دیتا۔ اسی خوشی میں دس پندرہ کلو گڑ جو لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا ہمارے خاندانی چچا نے پورا یکبارگی کنوئیں میں ڈال دیا۔ ایک صاحب جن کا پڑوس میں کھیت تھا بڑے بخیل مانے جاتے تھے اولاد میں صرف ایک لڑکی تھی انہوںنے نئی نئی نیم آستین پہن رکھی تھیں ان کے بدن سے نکلواکر کسی کو دے دی گئی ۔ اللہ کے فضل وکرم سے اتنا پانی نکلا کہ دور دور تک لوگوں کی کھیتیاں سیراب ہونے لگیں۔ اس میں روپیہ جو لگتا تھا وہ ہمارے والد کی کمائی کا تھا ۔ چھوٹے چچا کی محنت اور دیکھ بھال تھی شاید کچھ روپیہ منجھلے چچا نے دیدیاتھا۔ مگر بڑے ابا کے گھر سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا اور کسی سے لینا بھی نہ چاہا۔ پانی لینے کے لیے کبھی کسی کو روکا نہ گیا۔
پھر تو میمونہ ہمارے گھر ہی کی ہوگئیں۔ منجھلے چچا نے تو بہت پہلے اپنا بٹوارہ کرلیاتھا۔ منجھلی چچی کسی کو برداشت نہ کرسکتی تھیں پھر ۱۹۷۰ ء میں چھوٹے چچا نے بٹوارہ کرلیا میرے بستر میں ان کی بیوی نے خود ہی حصہ کرلیا۔ میری چادر وغیرہ لے لی اور گھر کا بٹوارہ ا س طرح کیا کہ حمام اور نابدان ان ہی کی طر ف گیا او رپہلے ہی دن سے نابدان میں آنے جانے سے روک دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ایک دلہن ہے گھر ہی میں رہنے والی وہ کہیں آجا نہیں سکتی۔ اس کے لیے تو اجازت دیدیں۔ پہلا دن کسی طرح گزرا ۔ دوسرے دن والد صاحب نے گائوں ہی سے ایک مستری کو بلاکر اپنی طرف نابدان بنوالیا ۔ اب دلہن کو اندر باہر جانے کے لیے پچھواڑے کی طرف ایک دروازہ یعنی کھڑکی کی ضرورت تھی تاکہ سامنے کے دروازہ سے اندر باہر نہ آنا جانا پڑے۔معلوم نہیں کہ باہر کون کون بیٹھاہو۔ اسی ہفتہ پچھواڑے کی طرف ایک دروازہ پھوڑنے لگے۔ دیوار مٹی کی تھی ۔ مٹی کی دیوار سے پیچھے کی طرف نوانچی اینٹ جوڑ دی گئی تھی تاکہ مٹی کی دیوار بارش سے بھیگ کر خراب نہ ہو۔ اس کو ہمارے یہاں چھلہ کہتے ہیں۔ جب دروازہ پیچھے کی طرف ظاہر ہونے لگا تو پچھواڑے کھیت والا آکر کھڑا ہوگیا اور دروازہ پھوڑنے سے منع کرنے لگا کہا کہ یہ دروازہ نہیں بننے دیں گے اس لیے اس کو بند کرلو۔ اس لیے کہ ہمارا کھیت آپ کی دیوار تک ہے۔ میں نے اور والد صاحب نے مل کر اس کو سمجھایا اور بڑی سنجیدگی سے موجودہ گھر کی صورت حال بتائی ۔ ہم محض ایک دروازہ دلہن کے اندر باہر آنے جانے کے لیے بنارہے ہیں ۔ آپ کی زمین اگر میری دیوار تک ہے تو آپ قبضہ کرلیجیے۔ فی الحال ہم کو اس دروازہ سے نکلنے کی اجازت دے دیجئے۔ ہم لوگوں کی باتوں پر اس کو اعتماد ہوگیا اور وہ دروازہ سے ہٹ کر چلاگیا۔
اللہ کا فضل واحسان ہے کہ وہ زمین جو ہمارے پچھواڑے تھی کچھ دن کے بعد والد صاحب نے خرید لی پھر تو سارا رخنہ دور ہوگیا۔ بلکہ تقریباً ڈیڑھ سوفٹ زمین گھر کے پچھواڑے ہماری ہی ہوگئی۔ بعد میں اس میں مزید دوکٹھا یعنی سولہ سترہ فٹ چوڑی زمین اور بھی مل گئی اسے بھی خرید لیاگیا۔ پڑوسیوں نے اپنے پیچھے کی زمین جس کو ہمارے والد صاحب نے روپیہ دے کر خریدا تھا اس پر قبضہ کرنا چاہا مگر اس پر بس نہ چل سکا تو آگے کی زمین جس میں ہمارا بھی حصہ تھا ۴۰x۴۰ فٹ اس پر زبردستی قبضہ کرلیا اور شمال کی جانب جس طرف ان کو حصہ ملا تھا وہ دس فٹ چوڑی اور پچاس فٹ لمبی ہوگی۔ اس پر بھی قبضہ کرلیا یعنی ہمارے والد صاحب کو چوہے کے بل میں بند کر دینا چاہا۔ ہر طرف سے لوگوں نے دبایا اور خالی زمین جو میرے حصہ کی تھی اس پر دھیرے دھیرے قبضہ کرتے گئے او راسی لیے پہلے بٹوارہ پر مطمئن نہ ہوئے بلکہ تقریباً بارہ مرتبہ لوگوں کو بلاکر لائے او ربار بار تقسیم کروایا۔
جب میں نے یہ دیکھا تو آخری بار کے بٹوارہ کے بعد جو، ان کی سسرال کے لوگوں نے کیا تھا، میں نے دوہزار اینٹیں لے کرجڑائی کرادی یعنی ایک طرح حد فاصل بنادیا تاکہ اب مزیدآگے نہ بڑھ سکیں۔ پھر بھی جب اپنا گھر بنوانے لگے تو ہماری جڑائی ہوئی حد کی کچھ اینٹیں یعنی تقریبا دس فٹ اکھاڑدیں اور اپنی دیوار آگے کرلی اور ہماری زمین اور گھر کی طرف کئی کھڑکیاں اور جنگلے لگوالیے اور ان کھڑکیوں پر پانی روکنے کے لیے چھجہ بنوالیااس وقت میں بنارس ہی میںتھا۔ جب میں نے یہ چالاکی دیکھی تو مجھے پیچھے کی زمین کا بھی خطرہ محسوس ہوا۔ تو میں نے ان ہی کے ایک لڑکے کو بلوایا اور اس سے میں نے کہا جہاں سے تم نشان لگا دو میں وہیں سے جڑوا لوں۔ اس نے جہاں سے نشان لگایا وہیں سے میں نے تین چار فٹ اونچی دیوار اٹھالی تاکہ اب تو میری زمین محفوظ ہوجائے۔ لیکن اس پر بھی بڑا جھگڑا کیا جب کہ انہی کے لڑکے نے نشان لگایا تھا ایک بار تو ایسا ہوا کہ سامنے کی طرف کے راستہ میں اتنی دور تک مستری بلاکر ڈھلان دار راستہ میںجڑائی کرلیا۔ اور میرے راستہ کا نصف سے زیادہ حصہ جڑواکر میرے راستہ کو بالکل تنگ کردیا۔ میں کہیں کسی ضرورت سے گیاہواتھا اللہ کی شان کہ موقع پر پہنچ گیا۔ اینٹوں کی پکی جڑائی ہوچکی تھی صرف پلاسٹر تھوڑا ساباقی تھا۔ میں نے دیکھا تو مجھ کو بہت تکلیف ہوئی میں نے کہا یہ کیاکررہے ہیں۔ ہمارے گھر کے لوگ کدھر سے آئے جائیں گے۔ اپنی زمین کے بجائے ہماری زمین لے رہے ہیں اور ہمارا ہی راستہ بند کررہے ہیں۔ میں نے مستری سے کہا یہ اینٹ اکھاڑلو۔ اس نے کہا صاحب ہم سے نہ کہو جس نے کرایاہے اس سے کہیے۔ مالک سے کہا تو انہوںنے کہا کہ میں نے جو جوڑایا ہے وہی ٹھیک ہے اسی طرح رہے گا۔ میں نے کہا یہ ظلم ہے کہ اپنا راستہ کشادہ کرو اور ہمارا تنگ کرو کم ازکم ہمارا پورا راستہ تو چھوڑدیجیے۔انہوںنے کہا نہیں ایسا ہی رہے گا۔ لیکن اب میرے بچے بھی سمجھ بوجھ کے لائق ہوگئے تھے میں نے جھک کر اپنے سامنے کی دواینٹیں اکھاڑ کر پھینکی تو مطیع الرحمٰن نے ۴؍اینٹیں اکھاڑ کر پھینکیں اور اللہ کا شکرواحسان یہ ہوا کہ بارش ہونے لگی۔ موسلا دھار بارش، پڑوسی کے گھر کا پانی بھی روک دیاتھا۔ اس عورت نے آکر اپنی طرف کی ۴؍۶ اینٹیں اکھاڑکر پھینک دیں۔ اب ہمارا راستہ بھی صاف ہوگیا اور پڑوسی کا پانی بھی جو اس کے گھر میں بھر گیاتھا۔ وہ پانی بھی بہہ گیا اور بارش اتنی زیادہ ہوئی کہ ان کی پوری سیمنٹ بہہ گئی۔ اسی طرح ہوئی اللہ کی مدد۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ، ہر موڑ پر ہماری مددفرمائے۔ آمین۔ فالحمدللہ، والعزۃللہ جمیعاً
چھوٹے چچا سے جب بٹوارہ ہواتھا تو میں ان لوگوں کی باتوں میں شریک نہیںہواتھا۔ محض اس لیے کہ بھائی بھائی مل کر صحیح طور پر بٹوارہ کرلیں۔ میں تو سب کا لڑکا ہوں۔ میرا شریک ہونا ٹھیک نہیںہے۔ دادی جان ہمارے ہی پاس رہ گئیں بلکہ وہی تو ان کی بیوی کی نظر میںخار تھیں۔ والد صاحب نے اب تک دوسری شادی نہیں کی تھی۔ یہ سمجھئے کہ جوانی کا زمانہ تنہاانہوںنے گذاردیا۔ اور یہ صرف میری وجہ سے ایسا کیا۔ اس کی ایک پہلی بچی جو تھی اس کی پرورش میرے مقابلہ کے طور پر ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ میرے ماموں مولانا شکراللہ صاحب کہنے لگے کہ لڑکیاں ۱۷؍۱۸سال سے پہلے شادی کے لائق نہیںہوتیں۔ میں نے کہا کہ ہمارے فلاں رشتہ دار کی لڑکی کی شادی ۱۴؍سال میں ہوگئی اور رخصتی بھی ہوگئی۔ تو ماموں صاحب نے کہا کہ اس کی بات نہ کرو۔ اس کی پرورش تمہارے مقابلہ میں تمہارے حریف کے طور پر ہوئی ہے۔ اس لیے وہ بہت جلدی بالغ ہوگئی۔ اور یہ حقیقت ہے ۔ میں نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیاتھا۔ بعد میں میں نے سوچا کہ جب سے کھانے کے قابل ہوئی ہر چیز اس کے لیے علاحدہ بنتی تھی۔ اگر ایک کیلو گوشت یا مچھلی ہو تو اس کے لیے دوسوگرام کے قریب الگ سے بغیر مرچ کے علاحدہ اس کا سالن بنتا تھا۔ دودھ اور گھی تو ان ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔جب میںنے یہ سب سوچا تو ماموں کی بات مجھے صحیح لگی۔
جب چچا نے بٹوارہ کیا اسی سے کچھ پہلے والد صاحب نے دوسری شادی کی جو پڑوس کی ایک بیوہ تھیں۔ ان کے شادی کرلینے کے بعد میرے اقرباء،اور دوسرے دور کے لوگوں نے بھی مجھ کو والد صاحب کے خلاف بہت اکسایا کہ تم اس کی مخالفت کرو۔ مگر میںنے ایک لفظ بھی نہیںکہا۔ میںنے ان لوگوں کو جواب دیا کہ والد صاحب جو کچھ کریں گے میری بھلائی کے لیے کریں گے۔ اور یہ بات تجربہ سے صحیح بھی ثابت ہوئی۔ اس بیوہ کے جس سے والد صاحب نے شادی کی تھی ۔پچھلے شوہر سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی دواولاد تھے۔شادی کے بعد ان دونوں کو بھی اپنے گھر میں رکھ لیا اس کا گھر علاحدہ تھا ۔ کھیتی بھی تھی مگر سب گروی رکھی ہوئی تھی۔ والد صاحب نے اپنی کمائی سے سب کو واگذارکرایا۔ وہ سب بہن بھائی کی طرح رہتے تھے۔ جب دونوں بڑے ہوئے تو دونوں کی شادی کی ۔ جس کا انتظام کچھ والد صاحب نے کیا اور کچھ میں نے کیا۔ جب لڑکی اپنے گھر آنے جانے لگی۔ اور بہو میرے گھر آنے لگی تقریباً دوسال بہت اچھی طرح گذرا۔ لیکن اس کے بعدلڑکی کے اندر کچھ شوخی آنے لگی۔ جب لڑکی ہمارے گھر ہوتی تو بات بات پر ہماری اہلیہ سے الجھ پڑتی اور جھگڑا کرنے لگتی۔ میں نے جب یہ بات دیکھی تو میں نے یہ سوچا کہ یوں ہی معاملہ بڑھتا جائے گا اور گھر کا ماحول خراب ہو جائے گا تو بغیر والد صاحب کو اطلاع دیئے میں نے لڑکے اور لڑکی دونوں سے کہا دیکھو تمہارا گھر الگ موجود ہے۔ تمہارا کھیت بھی الگ موجود ہے۔ شادی بیاہ بھی ہوچکا ہے، اب ایسا کرو کہ اپنے گھر ہو جائو اور اپنی کھیتی کرو، ان دونوں میں لڑکا بہت سنجیدہ تھا۔ کچھ دن گذارہ کے لیے میرے گھر سے غلہ لے لو۔ میری یہ بات لڑکے کی سمجھ میںآگئی۔ اور وہ دونوں اپنے گھر میں چلے گئے۔ اور ٹھیک ٹھاک رہنے لگے۔ ممکن ہے اس وقت والد صاحب کو کچھ تکلیف ہوئی ہو۔ اور یقینا ان کا میلان ان دونوں کی طرف زیادہ تھا۔ کبھی کبھی میری بیوی سے ناراض بھی ہوجاتے تھے لیکن جو بعد کا زمانہ آیا اور اس کی بیوی نے والد صاحب کے ساتھ جس اخلاق کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے کچھ ان کا ماتھا ٹھنکا اور دھیرے دھیرے جس طرح تجربہ ہوتا گیا ان کا دل پھرتا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک وقت والد صاحب ان لوگوں کو زیادہ چاہتے تھے ان کو روپئے پیسے دیتے۔ ان کے کام کرتے۔ ان لوگوں کو ہم سب سے مقدم رکھتے۔ یہ ان کی بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوالیکن جوں جوں زمانہ گذرتا گیا اس چاہت کا مزا کڑوا کسیلا ہوتاگیا۔ ان کی طرف سے نفرت بڑھتی گئی اور ایک وقت وہ آیا کہ ان لوگوں کا نام سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ بدلہ کی شادی کی وجہ سے بہن سے بھی اس کی قربت ختم ہوتی گئی۔ اگر کبھی آتی بھی تو ہمارے گھر آتی۔ اپنے بھائی کے گھر جھانکنے تاکنے بھی نہ جاتی۔ یہ معلوم ہوتا کہ جیسے اس گھر کی لڑکی ہی نہیںہے اور اس کا بھائی نہ اب بھائی لگتا تھا۔ والد صاحب بھی اس کے گھر بہت جایا کرتے تھے۔ اور والد صاحب کی وہ بہت خدمت بھی کرتی تھی۔ بھائی بہن میں بول بات بھی نہیں رہ گئی تھی۔
دیکھئے زمانہ کے احوال کیسے ہوتے ہیں۔ کہ اسی لڑکی کی وجہ سے میں نے ان دونوں کو علاحدہ کیاتھا اور بعد میں چل کر اسی لڑکی نے والد صاحب کو اپنا سگا باپ اور میمونہ کو سگی بھابھی سمجھا اور پھر آخر وقت تک یہی حال رہا۔ (ابھی چندسال پیشتر اس لڑکی کا انتقال ہوا ہے۔ کئی بچے بچیاں ہیں۔ بعض بچوں کی شادی بھی ہوچکی ہے)
اس آدمی نے اپنی بیوی سے مجبورہوکر اپنی ماں سے بھی قطع تعلق کرلیا اور اس کی بیوی نے تو کبھی سمجھاہی نہیں کہ وہ عورت اس کے شوہر کی سگی ماں ہے ہمارے والد صاحب کے زیرنکاح جب اس کی ماں آئی تو اس کا سن یاس شروع ہوچکا تھا۔ اس لیے یہاں کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ میمونہ نے جہاں تک ہوسکا اس کی خدمت کی۔تقریبا۴؍۵سال پہلے ان کا انتقال عین افطاری کے بعد ہوا۔ وفات کی خبر سننے کے بعد اس کی بیوی معلوم نہیں کیسے میرے گھر آئی تو ضرور ممکن ہے کسی کے لعن وطعن پر آئی ہو۔ لیکن میت کے قریب تک نہیں گئی۔ چہرہ دیکھنا تو دور کی بات ہے بس میرے برآمدہ کے پاس ایک پائے سے چپکی کھڑی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اپنے گھر واپس چلی گئی۔ اس کی اس بے رحمی کا اندازہ سب کو ہوا۔
والد صاحب کی شروع میں جو بے رخی تھی اس کا انہیں بعد میں شدید احساس ہوا اور میمونہ کی خدمت گذاری کو بڑی گہری نظر سے دیکھا تو اس کی محبت اور حسن سلوک کا اندازہ اچھی طرح ہوا۔ میمونہ کی خدمت گزاری والد صاحب کے لیے پہلے بھی اسی طرح تھی۔ لیکن جب بے التفاتی ختم ہوئی تو پھر وہ گائوں بھرمیں یہ جملہ بیان کرتے پھرتے تھے کہ وہ (یعنی) میمونہ میری بہو نہیں بیٹی ہے۔ اور بیٹی بھی اتنی محبت نہیں دے سکتی اور نہ اتنی خدمت کرسکتی ہے جتنی میمونہ کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ زمانہ کو الٹتا پلٹتا رہتاہے۔ یامثبت القلوب ثبت قلوبنا علی دینک ویا مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک۔
میں نے سابقہ سطروں میں یہ ذکر کیا ہے کہ میں گھر بھر کا دلارا تھا کوئی بھی گھر کا فرد مجھ سے کوئی کام نہیں لیتا تھا۔ میں اپنے تئیں خود دادا کا پیر دبایا کرتا تھا۔ اسی طرح والد صاحب کا سراور پیر دبایا کرتا تھا اور یہ سب بغیر کسی کے حکم دیے کرتا تھا۔ گھر کا کام کاج اگر میں کچھ کرنے کی ہمت بھی کروں تو بھی لوگ کرنے نہیں دیتے تھے۔ کبھی کبھی چپکے سے بیل کی ہودی میں پانی ڈال دیا کرتا، چارہ ڈال دیا کرتا ، گھر میں پانی لاکر رکھ دیتا۔ اس وقت کنویں سے پانی آتا تھا۔ ہینڈپائپ شاید باید کسی کے گھر رہا ہو۔ کھیت میں زیادہ سے زیادہ چائے پہنچا دیا کرتا تھا۔ مگر بعد میں صورت حال بالکل بدل گئی۔ چھوٹے چچا سے بٹوارے کے بعد اور تعلیم سے فراغت کے بعد کسانی کے سار ے کام کرنے پڑے۔ اسی لیے میں طلبہ کو ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتا ہوں کہ اپنے گھر کا پیشہ اور گھر والوں کا کاروبار پہلے سیکھنے کی کوشش کرو۔ اسی کام کاج کے ناطے مجھے دومرتبہ دھوپ لگی۔ اور کافی طبیعت بگڑی مگر دونوں مرتبہ اللہ تعالیٰ نے چند دن بعد صحت عطا فرمادی۔