Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

تدریسی خدمات

مدرسہ مظہرالعلوم اوسان کوئیاں (پہلی تجربہ گاہ)


تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی (ماخوذ : رشحات قلم)


جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد کئی جہت سے میری تدریس کے لیے تقرری کی بات آئی تھی خود مولانا عبدالقدوس صاحب ناظم مدرسہ مظہرالعلوم اوسان کوئیاں نے والد صاحب سے دہلی میں بات کی، مولانا عبدالرئوف صاحب جھنڈا نگری نے بھی والد صاحب سے وہیں دہلی میں کوشش کی ، مگر والد صاحب نے جواب دیا کہ ’’ میں ابھی ان کو پابند نہیں کرنا چاہتا۔ ان کو آگے پڑھنا ہو تو پڑھیں اور اگر تدریس میں جانا چاہتے ہوں تو میں روکوں گا بھی نہیں۔ بہر حال ۱۹۷۰ء؁ میں مجھ تک کسی کی بات پہنچی نہیں میں اپنے کام میں لگارہا۔ اور کچھ فرصت ملی تو مادرعلمی کی معاوضہ کے ساتھ خدمت بھی کیں۔
فروری ۱۹۷۱ء؁ میں میری تقرری مدرسہ مظہرالعلوم اوسان کوئیاں پوسٹ اجگرا، ضلع سدھارتھ نگر (قدیم ضلع بستی) میں ہوئی اور اس کے لیے گفتگو میرے ماموں زاد بڑے بھائی (میرے استاذ محترم) مولانا محمد احمد صاحب اثری حفظہ اللہ اور مولانا مختار احمد مئوی ناظم جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو نے کی۔ ان لوگوں نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ ’’کل سے اوسان کوئیاں پڑھانے کے لیے جایا کرو۔ میں نے بات کرلی ہے‘‘ میں نے ان سے کوئی بات نہ پوچھی اور نہ اس سے زیادہ ان لوگوں نے کچھ بتایا۔ دوسرے روز سے میں نے مدرسہ جانا شروع کردیا۔
یہ مدرسہ مجاہدآزادی ہند، قافلہ سیدین کے رفیق کار ، میرمنشی سالار کاروان جہاد نے بالاکوٹ سے واپسی پر ۱۸۶۵ء؁ میں قائم کیاتھا۔ اس میں علامہ اللہ بخش بسکوہری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور میں تدریسی فرائض انجام دیے تھے۔ انہوںنے اپنے دور تدریس میں مدرسہ سے متصل باغ میں ایک آم کا درخت لگایاتھا جو اب تک باقی تھا اور بسکوہری نام سے مشہور تھا۔ تقریباً ۸۰؍۹۰سال کے وقفہ میں معلوم نہیں کتنے مقتدر علماء نے اس چمن کی رکھوالی کی ہوگی اور تشنگان علوم کو سیراب کیا ہوگا۔
ہندوستان کی آزادی کے وقت یہ چراغ نزع کے عالم میں تھاکہ وقت کے دوہوشمند باوقار علماء کی توجہ اس کی جانب ہوئی۔ چنانچہ مولانا عبدالقدوس صاحب ٹکریاوی کی نظامت اور مولانا شکراللہ صاحب فیضی ٹکریاوی (میرے ماموں صاحب) کی صدر مدرسی میں اس مدرسہ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔ اس مدرسہ نے اتارچڑھائو کے بہت سے زمانے دیکھے۔ میری تقرری کے وقت ناظم مولانا عبدالقدوس ہی تھے۔ اور مولانا شکر اللہ فیضی نے ۱۹۵۶؁ء تک تدریسی خدمت انجام دیں۔ اس کے بعد انہوںنے مدرسہ مفتاح العلوم کے نام سے ٹکریاہی میں ایک مدرسہ قائم کرلیاتھا اس کے صدر مدرس مولانا شکراللہ صاحب ہی تھے۔ اور ناظم مولانا عبدالغفور تھے۔مدرسہ مظہر العلوم میں ان دونوں کے علاوہ یہاں پڑھانے والوں میں مولانا محمدخلیل رحمانی ٹکریاوی ، منشی محمدرضا ٹکریاوی (ان کو ان کے خاندان والوں نے ہی میرے بہت بچپنے میں کسی جھگڑے کی وجہ سے قتل کرڈالا تھا جھگڑا اصل میں ان سے نہیں تھا ان کے لڑکوں سے تھا یہ عصر کی نماز پڑھنے گئے اور ایک لڑکے کو اذان کہنے کے لیے کہہ دیا اور خود اپنے بیٹے کو بھاگ جانے کے لیے کہہ دیا اور تھوڑی دیر کے لیے ہل چلانے لگے۔ مگر مخالفین نے جب یہ دیکھا کہ یہ منشی جو مکھیا صاحب ہیں اور لڑکا نہیں ہے تو انہی کو مارڈالا) مولانا انعام اللہ قاسمی، مولانا جمال الدین صاحب ، مولانا حمیداللہ صاحب فیضی وغیرہ نے اپنے اپنے دور میں تعلیم دی اور دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ میرے وہاں جانے سے پہلے قاری ابوالقاسم صاحب فیضی بہت دنوں سے تعلیم دے رہے تھے۔ ان کے علاوہ مولانا محمودالحسن صاحب ۱۹۷۰ء؁ میں مدرس تھے ۔ فی الحال مولانا شفاعت فلاحی اور مولانا عبداللہ عبدالحمید سلفی فیضی(جو اس وقت بحرین میں ہیں اور ان کو وہاں شہریت مل چکی ہے) تعلیم دے رہے تھے۔ خود ناظم صاحب بھی دوسروں کی طرح پڑھا یا کرتے تھے۔ میرے جانے سے پہلے کبھی فراغت تک تعلیم ہوتی تھی۔ بعض علماء وہاں سے فارغ ہوکر نکلے۔ اس وقت یہاں پانچویں جماعت تک تعلیم تھی۔ اب میری پہلی بار تقرری اس مدرسہ میں ہوئی اور ماشاء اللہ پہلے سال ہی عربی کی پانچویں جماعت تک کی کتابیں پڑھانے کو ملیں۔ پہلا سال مکمل ہونے پر مولانا عبدالقدوس صاحب میری کارکردگی دیکھ کر اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ سالانہ حساب کے وقت مجھ سے فرمایا کہ مولانا محمداحمداثری سے تمہاری تنخواہ پچاس روپئے طے ہوئی تھی مگر تمہارے کام کو دیکھ کر میں تم کو از ابتداء سال پچپن کے حساب سے تنخواہ دیتا ہوں اور آئندہ سال تمہاری تنخواہ پرانے مدرسین کے برابر ہوجائے گی۔ (فالحمد للہ علی ذالک)
ناظم عبدالقدوس صاحب روپئے پیسے کے معاملہ میں اتنا وسیع القلب تھے کہ اگر آدمی اپنا اعتبار ان کے دل میں پیدا کر لے تو جتنا روپیہ بھی مانگے وہ دینے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہ کرتے تھے۔ شروع شروع میں پیدل ہی پڑھانے کے لیے جایا کرتا تھا اس لیے کہ گھر پر سائیکل نہ تھی میرے والد صاحب سائیکل چلانا جانتے ہی نہ تھے۔ میں اسی طر ح پیدل آجارہاتھا۔ پرائمری درجات پڑھانے والوں میں ایک مولوی عبدالستار بھی تھے۔ جو میرے پڑوس کے گائوں کے تھے اور بچپن ہی سے ہم دونوں کی جان پہچان تھی۔ اسی مدرسہ میں پڑھ کر پڑھانے لگے تھے۔ بڑے سیدھے سادے تھے۔ وہ ایک روز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس سائیکل سے آیا اور کہا کہ میں نے ایک ہفتہ پہلے بڑی خواہش سے یہ اٹلس سائیکل خریدی تھی مگر کچھ ضروری کام آگیا جس کی وجہ سے مجبوراًبیچنا پڑ رہا ہے اگر کوئی خریدنے والا ہو تو فروخت کرا دیجئے۔ مولانا نے پوچھا ! کتنے کی دوگے۔ اس نے کہا کہ دوسوپندرہ میں خریداتھا لیکن دوسومیں دے دوں گا۔ انہوںنے مجھ کو بلاکر پوچھا! مولانا آپ روز پیدل آتے ہیں اچھا نہیں لگتا۔ سائیکل لے لیجیے تو آسانی ہوجائے گی۔ میں نے کہا بات توصحیح ہے لیکن میرے پاس پیسہ نہیں ہے اور ابھی مجھے پڑھاتے ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا انہوں نے کہا آپ ہاں تو کیجئے پیسے کی ذمہ داری میرے اوپر ڈال دیجئے۔ میں نے کہا اتنی بڑی رقم کا کیسے آپ انتظام کریں گے۔ وہ دوڑتے ہوئے ناظم صاحب کے پاس گئے اور دوسوروپئے ان سے مانگ کر لے آئے اور سائیکل والے کے حوالہ کردیا اور سائیکل میرے حوالے کردی۔ اس طرح انہوںنے بغیر طبیعت اور مزاج کا حال معلوم کئے ۴؍ماہ کی تنخواہ یک مشت پیشگی دے دی۔ اور اسی طرح بعد کے سالوں میں بھی ہوتا رہا۔ سال کے آخری حصہ میں حساب ہوجایا کرتا تھا اس واقعہ سے ناظم صاحب کی وسیع القلبی کا بخوبی پتہ چلتاہے۔
مولانا عبدالقدوس صاحب کا دستور تھا کہ وہ عربی کے اساتذہ کو پرائمری کی دوگھنٹیاں دیا کرتے تھے اور اس چیز کا میں نے طلبہ میں فائدہ بھی دیکھا۔ اس میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ مکتب کے مدرسین اور عربی کے اساتذہ کے مابین جو بُعد اور اونچائی نیچائی کا احساس ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے۔ مجھے بھی مکتب میں دوگھنٹیاں ملی تھیں۔ ایک گھنٹی درجہ سوم کی ملی تھی اور دوسری درجہ پنجم کی۔ اسی پرائمری میں پڑھانے کی وجہ سے بہت سے طلبہ اور طالبات جو قاری صاحب کے پاس قرآن پڑھتے تھے ان میں سے بہت سے بچے اور بچیاں میرے پاس آکر پڑھنے لگے۔ دیہاتوں میں یہ بات اس طور پر اہم ہوتی ہے کہ قرآن پڑھانے کی وجہ سے ان بچوں کے گھرسے ربط رہتاہے۔ پڑھنے کے دوران بھی ہدیہ وتحفہ ملتارہتاہے اور قرآن ختم ہونے پر مخصو ص آمدنی ہوجاتی ہے اب جب کچھ طلبہ وطالبات میرے پاس قرآن پڑھنے لگے تو اس کی وجہ سے پڑھانے والوں کی آمدنی کم ہوتی نظرآئی اس کا احساس انہیں ضرور ہواہوگا۔ اور میں اپنے طور پر اس طرح کی آمدنی کا قائل نہیںتھا۔ میں نے سب بچوں کو گھر سے کچھ لانے کے لیے منع کردیا۔
درجہ پنجم کی جو گھنٹی مجھ کو ملی تھی اس میں دوکتابیں تھیں ایک تقویۃ الایمان دوسری نورالقواعد ۔ دیہاتوں میں ہر جگہ پرائمری درجات میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ میں پڑھتے ہیں۔ تقویۃ الایمان کی پڑھائی کے دوران لڑکیاں شامل تھیں مگر نورالقواعد کی گھنٹی آئی تو لڑکیاں اپنی جگہ پر بیٹھی رہ گئیں۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو لڑکوں نے بتایا کہ یہ کتاب مشکل ہے اس لیے لڑکیاں اسے کبھی نہیں پڑھتیں۔ اس درجہ میں شاید تین لڑکیاں تھیں میںنے ان کو بلاکر پوچھا تو انہوںنے جواب دیا کہ اولاً یہ کتاب ہم کو سمجھ میں نہیں آتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ہمیں پڑھانا نہیں ہے۔ امورخانہ داری دیکھناہے۔ ہم اس کو پڑھ کر کیا کریں گے۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ جہاں تک مشکل کی بات ہے تو پڑھنے سے پہلے ہی کسی کتاب کو کیسے مشکل سمجھ لیا؟ دوسری بات کہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے، تو میں یہ کہتاہوں کہ تمہیں بھی تمام علوم کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تم کو پڑھانا نہیں ہے مگر زندگی میں کچھ اوقات ایسے آئیں گے جب تمہیں اس کی ضرورت محسوس ہو گی۔ ایسا ہے کہ تم لوگ ایک ہفتہ میر ے پاس بیٹھو۔ اگر کتاب سمجھ میں نہیں آئے گی تو چھوڑ دینا۔ اس پر لڑکیاں راضی ہوگئیں اور میں نے پڑھانا شروع کر دیا۔ میں نے بعد میں یہ دیکھا کہ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کو زیادہ یاد رہتا ہے۔ اس طرح سال بھر ان لڑکیوں نے پڑھا اورامتحان میں اچھا نمبر لائیں۔
اس سال ناظم صاحب نے فارسی کے دوسالہ کورس کو ختم کرکے ایک سال کردیا اور وہ گھنٹی بھی مجھے ہی ملی۔ اس جماعت کے طلبہ کی تعداد زیادہ تھی اور اکثریت ذہین طلبہ کی تھی۔ بڑی دلچسپی سے انہوںنے پڑھا ۔ اسی سال اتفاق سے جمعیت اہل حدیث بستی کی جانب سے امتحانی بورڈ کی شکل میں امتحان ہوا۔ پورے ضلع میں دوسینٹر بنائے گئے تھے۔مدرسہ اسلامیہ جمنی اور سراج العلوم جھنڈا نگر اور قرب وجوار کے مدارس کو قریبی سینٹر سے منسلک کردیاگیاتھا۔ یہ طلبہ بھی امتحانوں میں شریک ہوئے اور ماشاءاللہ نتیجہ بہت اچھا آیا۔
معلوم نہیں کیسے میرے پڑھانے کا طریقہ اتنا مشہور ہوگیا کہ بہت سے مدارس کے نظماء وذمہ داران نے مولانا عبدالقدوس سے یہ فرمائش کی کہ فلاں مدرس کو ہمیں دیدیجیے۔ مثلاً مولانا محمد امین ریاضی، مولانا عبدالرئوف جھنڈا نگری وغیرہ۔ یہ بات ناظم صاحب نے مجھ کو بتائی۔
ناظم صاحب صبح مدرسہ کے وقت پر اپنی سائیکل سے آتے تھے اور عصر کی نماز کے بعد گھر چلے جاتے ۔ یہ فاصلہ تقریباً ۴؍کلومیٹر کا ہوگا۔ سائیکل سے پہلے وہ گھوڑا رکھے ہوئے تھے۔ اسی سے مدرسہ آتے جاتے تھے۔ مدرسہ پر رات میں مستقل ایک مدرس رہتے تھے۔ جو ناظم صاحب کے خاندانی تھے۔ اپنے حالات کے اعتبار سے کبھی کبھی کوئی دوسرا مدرس بھی رک جاتا۔ اس لیے بالائی وقت میں مدرسہ کے طلبہ پر انہی کا کنٹرول رہتاتھا۔ چوں کہ جھاڑپھونک بھی کرتے تھے اس لیے گائوں کے علاوہ اطراف میں دوردور تک ان کے مرید آباد تھے۔ طالبات کو قرآن پڑھاتے اس سے الگ ہدیہ وتحفہ ملتا۔ جماگی (جمعرات کے دن) بھی وصولی کرتے تھے کبھی کبھی طلبہ وطالبات سے یاان کے گھروالوں سے منہ کھول کر فرمائش بھی کیا کرتے تھے۔ اس لیے ان کی آمدنی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تھی۔ کسی دن اگر اس ضرورت سے مدرسہ کے باہر جانا پڑتا اور دن میں مدرسہ پر پہنچ پاتے تو اس کو تبلیغ دکھا کر رجسٹر میں درج کرتے اور لکھتے کہ مدرسہ کے لیے ۵؍ روپیہ چندہ وصول کیا۔ اور اتنی رقم ناظم صاحب کے پاس جمع کرکے رسید لیتے۔
میں نے اوپر یہ ذکر کیاہے کہ مجھ سے پہلے ایک مدرس مولوی محمودالحسن صاحب تھے۔ انہوںنے ابتدا میں فیض عام سے آکر جامعہ سلفیہ کے عالم اول میںداخلہ لیاتھا۔ پڑھنے لکھنے میں کچھ نمایاں تو نہ تھے۔ دوسرے سال عالم ثانی ہی میں جامعہ کو خیربادکہہ کر پھر فیض عام چلے گئے فراغت کے سال میںداخلہ لے کر اسی سال فارغ ہوگئے اور پڑھانے لگے۔ بعد میں ان کے بارے میںجو معلومات حاصل ہوئیں کہ یہ آدمی ظاہر میں تو بھولا بھالا لگتاہے مگراندر سے رنگین مزاج کا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر اطلاع کے جامعہ سے چلے جانے کے بعد کچھ خطوط موصول ہوئے جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص باہر کی دنیا میں بہت اندر تک تعلق رکھتا ہے۔ جب وہ اوسان کوئیاں میں پڑھانے لگے او ریہ دیکھا کہ ناظم صاحب کا خاندانی مولوی کس طرح گائوں میں اور قرب وجوار میں اپنا جال پھیلائے ہوئے ہے او رطلبہ وطالبات سے اور عام لوگوں سے کتنا فائدہ اٹھارہاہے تو انہوںنے بھی اسی طرح کا عمل اپنالیا۔اور تھوڑے ہی دنو ںمیں بڑی شہرت بنالی۔ ان مولوی صاحب کا اگر دس گھر سے تعلق تھا تو اس نے پچاسوں گھروں سے اپنا تعلق بنایا۔ وہ اگر فجر کی نماز اول وقت میں مدرسہ پر پڑھاتے تو وہ گائوں کی مسجد میں پہنچ جاتے۔ ان کی پہنچ اگر باہر باہر تھی تو اس نے اندر تک اپنی پہچان بنالی۔ اگر ان کے پاس دوگھروں سے تحفہ (انڈے، حلوہ، شہد، گھی وغیرہ) آتا تو اس کے پاس دس گھروں سے آتا۔ جب ناظم صاحب کو ان حالات کا علم ہوا تو ان کو آئندہ کے لیے یہ خطرہ محسوس ہوا کہ یہ آدمی کہیں گائوں والوں کو ملاکر سازش کرے او رمدرسہ پر ہی قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ اس خوف سے سال کے اخیر میں ان کو جواب دے دیا۔
میری تقرری ہوئی تو میں نے دیکھا کہ تمام چیزیں بے ہنگم اور غیر منظم ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے لائبریری کو منظم کیا۔ میں روز گھر سے آتا جاتاتھا۔ کبھی کبھی کسی تقریب کی وجہ سے ایک آدھ رات کے لیے مدرسہ پر رک جاتا۔ طلبہ قرب وجوار کے گائوں میں جاگیر سے کھانا کھاتے تھے۔ اساتذہ کا کھانا گائوں میں کسی شخص کے یہاں سے آتا تھا۔ وہ بھی طلبہ ہی لے کر آتے تھے۔ جب کسی کے گھر شادی کی تقریب ہوتی تو اکثروبیشتر ایک دوآدمی کی دعوت ہوتی۔ مکتب کے اساتذہ کو کوئی پوچھتا ہی نہ تھا۔ میں نے آئندہ کے لیے یہ بات اٹھائی کہ دعوت ہو تو مکتب وعربی دونوں شعبوں کے اساتذہ کی دعوت ہو اور باہری طلبہ کی بھی دعوت ہو۔ اس لیے کہ اس کے سب سے زیادہ مستحق طلبہ ہی ہیں۔اگر طلبہ کی دعوت نہیں ہوگی تو میں ایسی دعوت میں شریک نہ ہوں گا۔ میری بات کی وجہ سے گائوں والوں کے مزاج میں کچھ تبدیلی آئی۔ اور طلبہ کی دعوت بھی ہونے لگی۔ اگر کوئی شخص مدرسہ پر کچھ ہدیہ وتحفہ بھیجتاتھا تو عربی کے ایک دومدرسین لے لیا کرتے تھے۔ میں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ عربی اور مکتب کے مدرسین برابرہیں۔ انہیں بھی اس کا حق ہے اس طرح بہت سی چیزوں میں تبدیلی ہوئی۔
مجھے دوپہر کا کھانا نہیں ملتا تھا اس کی جگہ پر ایک پائو دودھ ملتاتھا مگر صبح سے شام تک ایک پائو دودھ پر گزارا ممکن نہ تھا۔ اس لیے گھر سے روٹیاں لے کر آتا اور ایسا چھپا کر لاتا کہ کسی کو احساس نہ ہوسکے۔ مجھے اس میں شرم محسوس ہوتی تھی۔ وہی دوپہر میں کھاکر دودھ گرم کرکے پی لیا کرتا۔اور اگر کوئی اور بھی موجود ہوتا تو چائے بناکر خود بھی پیتا اور مہمان کو بھی پلادیا کرتا تھا۔ میرا اوسان کوئیاں سے یا پڑوس کے کسی گائوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نہ کسی کے گھر آنا جانا تھا۔ بچپن سے ہی میری یہی عادت تھی۔حالانکہ اس گائوں کے ایک گھر سے میری قریبی رشتہ داری تھی مگر میں ان کے یہاں بھی نہ جاتاتھا۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو کسی طالب علم کو بھیج کر دوکان سے منگوالیا کرتا تھا۔ کبھی راستہ گذرتے علیک سلیک ہوجاتی تھی ورنہ کئی کئی ماہ ملاقات نہ ہوتی تھی اس لیے گائوں کے لوگ مجھے جانتے بھی نہ تھے۔
صرف ایک شخص تھے جن کا نام حاجی مقدس تھا بس انہیں کا تعلق مدرسہ سے تھا۔ اور ہر استاذ ہر طالب علم سے ان کا تعلق تھا۔ وہ سب کے تھے کسی کے لیے مخصوص نہ تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اتنا نیک آدمی قرب وجوار میں بھی کوئی نہ تھا۔ ان سے میرا بھی تعلق تھا۔ اور کبھی کبھار وہی مجھ کو مدرسہ پر روک لیا کرتے تھے کبھی میں ان کو اپنے گھر لے آیا کرتا تھا سبھی لوگ انہیں دیکھ کر ان سے بات کرکے خوش ہوتے۔ وہ اگربناوٹی غصہ سے بولتے تو اس میں مزید محبت کی چاشنی محسوس ہوتی تھی۔ اگر کوئی مسافریاعالم اپنے کام سے یا کسی غیر کے کام سے اوسان کوئیاں گائوں میں آتا تو وہ حاجی مقدس ہی کے پاس آتا، انہی کے پاس ٹھہرتا اور اگر مدرسہ پر آتا تو اس کی خبر گیری سب سے پہلے حاجی مقدس ہی کرتے۔
ان کی شخصیت خود ہی ایک تاریخ تھی۔ وہ آیۃ من آیات اللہ تھے۔ ان کی ذات اللہ کی قدرت کاملہ پر دلیل تھی اللہ کی عظیم صفت اور اس کی مشیت کا ظہوران کے ذریعہ ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش ایک لڑکی کی شکل میں ہوئی۔ سبھی لوگوں نے ان کو لڑکی ہی سمجھا اور لڑکی ہی کی طرح ان کی پرورش وپرداخت ہوئی تھی۔ قدیم رواج کے مطابق ان کی ناک اور کان میں زیورات پہننے کے لیے سنار سے چھدوائے گئے (سوراخ کردیاگیا) جب یہ قریب البلوغ ہوئے تو ان کے جسم میں تغیر واقع ہونے لگا۔ یہ تبدیلی شروع میں تو انہی کو محسوس ہوتی رہی۔ اس تبدیلی کے ناطے ان کو درد رہا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے ان تغیرات کا علم عورتوں کو بھی ہوا۔ آہستہ آہستہ وہ لڑکی کے بجائے لڑکا کی شکل میں ہوگئے ایک زمانہ ایسا آیا کہ ان کو مونچھ داڑھی بھی نکلنے لگی۔ اس تبدیلی کو سارے لوگوں نے جانا اور محسوس کیا۔ اور اب وہ مردوں کی طرح کپڑے پہننے لگے اور مقدس خاتون سے صرف مقدس اور بعد میں حاجی مقدس ہوگئے۔ نہ قوت نسوانی رہ گئی اور نہ قوت مردانگی پیداہوئی۔ ان کے کانوں اور ناک کا سوراخ بعد میں بھی ظاہر ہوتا تھا۔ جہاں بھی جاتے لوگ تعجب سے ان کے کان اور ناک کی سوراخ کی جگہوں کو مخفی طور پر ضرور دیکھتے تھے۔ اسی لیے تمام لوگ انہیں غیر ادلی الاربۃ میںشمار کرتے تھے۔ عورتیں بھی ان سے پردہ نہ کرتی تھیں بلکہ اندر گھر میں بلاکر بیٹھاتیں، ان کی بڑی خاطر داری اور عزت کرتیں۔ ان کے گائوں میں بھی لوگ ان کی بڑی قدروعزت کرتے۔ ان کی کہی ہوئی بات کوئی ٹالتا نہ تھا۔ نماز اور جماعت کے پابند تھے، تہجد گزار تھے۔ سب بھائیوں کے برابر ان کا حصہ تھا۔ اور خاندانی اعتبار سے مالدار تھے اسی لیے گھر میں بھی ان کی وقعت وعزت تھی میں نے تو ان کو بڑھاپے کے زمانہ میں دیکھا۔ سانولے رنگ کے بھرے بھرے بدن کے، موٹے سے پستہ قد مضبوط کاٹھی کے تھے۔ شمس الحق ایڈوکیٹ کے چچا اورحاجی ادریس کے بھائی تھے۔
اوسان کوئیاں تدریس کے زمانہ میں ڈومریاگنج دو روزہ کانفرنس ہوئی جس کی تیاری کے لیے ہم لوگ ہر جگہ گئے جہاں چند روپئے ملنے کی امید تھی۔دن کو مدرسہ پر پڑھاتے اور رات کہیں کسی گائوں میں پہنچ جاتے ، جہاں ناظم صاحب اور قاری صاحب کبھی منظر صاحب ہوتے مختصر تقریر ہوتی اور پھر چندہ کی اپیل ۔ حلقہ ڈومریاگنج کا معاملہ اس لیے اہم تھا کہ ڈومریا گنج میں کانفرنس تھی تو حلقہ ڈومریا گنج کی نمایاں حصہ داری ہونی چاہئے۔ بہر حال کانفرنس کے پہلے تک جتنا کچھ ہو سکا وہ ڈاکٹر عبد الباری کے پاس لے جا کر جمع کر دیاگیا۔
کانفرنس کے کچھ دن پیشتر چند لوگوں کے ہمراہ مجھے بھی لگا دیا گیا تاکہ کانفرنس میں لگائے جانے والے بعض اسباب دو سائل تیاری کریں اور مناسب جگہوں پرلگائیں۔ یہ کانفرنس ۱۹۷۲ء؁ میں ہوئی تھی۔ وقت مقررہ پر کانفرنس شروع ہوئی، اس میں مولانا عبد الحمید صاحب رحمانی ، مولانا شبیر احمد ، ازہر میرٹھی ، مولانا دائود صاحب راز ، قاضی عدیل عباسی ، مولانا عبد الجلیل صاحب رحمانی وغیرہم شریک تھے کانفرنس ماشاء اللہ کامیاب ہوئی۔ اسی کانفرنس کے موقع پر ضلعی جمعیت بستی کا نیا انتخاب ہوا۔ جس میں کچھ اختلاف بھی رونما ہوا۔ لیکن بعد میں یہ اختلاف ختم ہوگیا۔ اس وقت سدھارتھ نگر ضلع نہیں بنا تھا۔
یوں تو حلقہ ڈومریا گنج کے پروگرام پندرہ روز پر یک شبی کسی نہ کسی جگہ ہوا کرتے تھے، جس میں حلقہ کے مدارس کے اساتذہ اور کچھ عوام پابندی کے ساتھ شریک ہوتے تھے، اس ضمن میں پپرا رام لال ، مہوارہ، کھرگولہ، پڑیا، کسہٹا، ککرا پوکھر ، کمہریا، ٹکریا، پرسا، سکھوئیا، مینہا ، برہ پور میں پروگرام ہوئے۔ حلقہ کی جمعیت کے ناظم مولوی غیث اللہ مرحوم تھے اور میں نائب ناظم تھا، لیکن ہر جگہ پروگرام کی نظامت میرے ذمہ ہوا کرتی تھی، واضح ہو کہ حلقہ کے پہلے ناظم ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن تھے اور میں نائب ناظم تھا۔ ان کے مدینہ چلے جانے کے بعد مولانا غیث اللہ کو ناظم بنایا گیا۔ مولانا عبد القدوس صاحب ناظم مدرسہ اور اوسان کوئیاں اپنی مصروفیت کے باوجود شریک ہوتے تھے۔
اوسان کوئیاں میں تدریس کے زمانہ کی بات ہے کہ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی بونڈھار پر تشریف لائے تھے ویسے تو وہ بونڈھار مدرسہ کے سرپرست تھے اور مولانا اقبال رحمانی کے محبوب استاذ تھے۔ ان کو کیا پورے گائوں والوں کو ان سے عقیدت ومحبت تھی۔ اور ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ہر چہار جانب ان کی شہرت تھی۔
اس سال ناظم عبد القدوس صاحب نے اساتذہ سے کہا کہ شیخ الحدیث ابھی بھی یہاں تشریف نہیں لا سکے ۔ کسی طرح ان کو لانا ہے اور اس کے لیے مجھے اور قاری صاحب کو نامزد کیا، ہم دونوں اس مقصد کو لیکر بونڈھار روانہ ہوئے۔ پہنچے تو مغرب کا وقت قریب ہو چکا تھا نماز کے بعد ہم لوگ بھی اس مجلس میں سلام ومصافحہ کرکے شریک ہوگئے۔ ابھی تک شیخ الحدیث کو قریب سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ بس بعض پروگرام میں دیکھا تھا۔ یہاں جو منظر دیکھا وہ عجیب لگا۔ دیکھا کہ کس طرح ایک دبلے پتلے نحیف ولاغر انسان پر لوگ پروانہ وار نثار ہو رہے تھے۔ ہر شخص بس اسی بات کا منتظر ہے کہ شیخ کچھ فرمائیں اور ہم تعمیل کریں۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ معلوم ہوا کہ شیخ الحدیث صاحب کی پچھم مہتو کے یہاں دعوت ہے اور جتنے حاضرین ہیں ان سب کو شریک ہونا ہے۔ بہر حال تھوڑی دیر بعد دعوت کے لیے سب لوگ چل پڑے۔ دعوت کھا کر واپس ہوئے تو نماز کی ادائیگی کے بعد وہیں کہیں رات گزاری۔ بات شیخ الحدیث صاحب کے سامنے رکھ دی گئی تھی۔
صبح معلوم ہوا کہ شیخ صاحب اوسان کوئیاں چلنے کو راضی ہیں، ہم لوگ خوشی خوشی مدرسہ پر پہنچے ۔ شیخ صاحب کو سڑک موتی چوراہے سے بیل گاڑی پر لایا گیا۔ کچھ دیر مدرسہ پر ٹھہرے اور واپسی کے لیے کیا سواری اسی طرح بیل گاڑی کی تھی اور قاری صاحب واپسی کے ہمراہی تھے۔ بفضلہ تعالیٰ بعافیت مبارکپور پہنچ گئے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ البتہ قاری صاحب کی واپسی پر صدری کی جیب کسی نے کاٹ لی۔ بقیہ بعافیت وہ بھی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
اس طرح اس مدرسہ میں میں نے چارسال کام کیا۔نظام میں بہت ساری تبدیلیاں میں نے کیں جس سے ناظم صاحب مزید خوش ہوئے۔
گائوں والوں کے مدرسہ سے تعلقات اچھے نہ تھے۔ نیز قرب وجوار کے مواضعات سے بھی کچھ خاص تعلق نہ تھا۔ میں نے گائوں والوں کو مدرسہ سے جوڑنے اور راغب کرنے کے لیے یہ طریقہ نکالا کہ طلبہ کی انجمن دوتین ماہ کے وقفہ سے گائوں کے اندر کرانا شروع کردیا۔ چھوٹے چھوٹے گائوں کے بچوں کو مختصر تقریر،نظم اور مکالمے لکھ کر بچے اور بچیوں کو یادکراتا اور وہ طلبہ وطالبات انجمن میں اسے پیش کرتے۔ جب گائوں والوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو اس طرح بولتا ہوا دیکھا تو ان کی توجہ مدرسہ کی طرف ہونے لگی، اور ششماہی وسالانہ امتحان کا نتیجہ پیش کرنے کے موقع پر اطراف وجوانب کے لوگوں کو بلاکر انہی کے سامنے طلبہ کا نتیجہ سنایا جاتا۔ اس مختصر سے کام کی وجہ سے ان کو مدرسہ کی کارکردگی کا علم ہونے لگا۔ اور وہ مدرسہ کی طرف توجہ دینے لگے۔
اطراف کے مدارس میں باہمی کوئی ربط ضبط نہیں تھا۔ اس کے لیے میں نے جشن کا طریقہ نکالا۔ اس طرح باری باری ہر مدرسہ پر جشن ہونے لگا۔ اور تمام مدارس کے اساتذہ باہم ملنے جلنے لگے۔ اور پہلے کی دوری ختم ہوگئی۔ گائوں والوں کو سب سے زیادہ اس بات پر تکلیف تھی کہ کوئی میٹنگ نہیں ہوتی، آمدوصرف کا جائزہ نہیں ہوتا، حساب وکتاب پیش نہیں کیا جاتا۔ اسی وجہ سے ایک صاحب مدرسہ سے بہت دور تھے ۔ میں نے ان سے تعلق پیداکیا آتے جاتے ان کو اپنے پاس بلالیا کرتا ، خوش گپیاں ہوتیں۔ اسی طرح ایک موقع پر میں نے ان سے ایک نظم سنانے کی فرمائش کردی، تھے تو کالے کلوٹے، اور بڑے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو لحن دائودی عطا کی تھی۔ جس کو سن کر پرندے بھی ٹھہرجائیں۔ ایک نظم سنائی اور پھر کہا کہ مولانا اب تو بوڑھا ہوگیاہوں۔ اب کیا ہے دانت بیشتر گرچکے ہیں جو بولنا چاہو وہ منہ سے نکلتا نہیں، جوانی میں جب میں کہیں شعر پڑھ دیتا تھا تو مردوں او رعورتوں کا مجمع لگ جاتاتھا۔ اور اس کے بعد اپنی زندگی کے چند واقعات سنائے۔ اس طرح وہ بھی مدرسہ پر آنے جانے لگے۔
میں نے آخر میں ناظم صاحب کو اتنی بات پر راضی کرلیاتھا کہ آمدوصرف کا ایک مختصر جائزہ اسی سالانہ نتیجے کے موقع پر سنادیا جائے تاکہ لوگوں کے دل کی خلش دور ہوجائے۔ انہوںنے حامی بھی بھرلی تھی۔ لیکن سارے معاملے اللہ تعالیٰ کے مقدرات کے مطابق ہوتے ہیں ’’ ماشاء وقدر ماشاء یکون ومالم یشالم یکن‘‘ اللہ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس سال سالانہ امتحان کا موقع آیا تو میں اس مدرسہ میں تھا ہی نہیں۔
اس سال کے آخری حصہ میں دوحادثات وقوع پذیر ہوئے۔ جس کی وجہ سے میں اور وہ کیا؟ پورا گائوں بلکہ قرب وجوار بھی متاثر ہوا۔
ایک واقعہ یہ ہوا کہ ان کے منجھلے لڑکے نے جو انتہائی جھگڑالو اور اجڈ طبیعت کا آدمی ہے وہ بھی اب مرحوم ہو چکا ہے ہمارے ماموں کے ایک لڑکے کو بہت زیادہ ماردیا۔ وہ اس سے عمر میں بہت چھوٹا تھا۔ اس واقعہ پر گائوں کی پنچایت ہوئی اور بھری محفل میں ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ ڈومریاگنج نے ان کے لڑکے کو اپنے ہاتھوں مارا۔ اتنا اگر معاملہ ہوتا تو معاملہ بجھ جاتا لیکن ان کے خاندان کے بعض شرپسند افراد نے اس کو ازسرنوابھارناچاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ لیکن ذہنی اعتبار سے پورے گائوں والے متاثر ہوئے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی غیروں سے نہیں ہارتا لیکن اپنوں اور خاص طور پر اپنے خاندان اور اپنے بچوں سے سبھی ہار جاتے ہیں، بہرحال اس ناخلف لڑکے کی وجہ سے مولانا کو بڑی سبکی اٹھانی پڑی۔ اور دوسرا واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا۔ جوان کے ایک خاندانی عالم سے دوسرے عالم کے ساتھ مدرسہ پر ہوا۔
وہ دوسرا ناہموار واقعہ یہ ہے کہ چوتھے سال کے اخیر حصہ میں یعنی شعبان میں کتابیں اپنے متعینہ کورس کو پہنچ چکی تھیں آموختہ کی رخصت ہوچکی تھی یا ہونے والی تھی۔ ایک دن عصر کے بعد جھاڑ پھونک والے مولانا کہیں اپنے کسی مرید کے یہاں چلے گئے۔ اس رات کو ایک دوسرے مولانا جو ٹکریا ہی کے رہنے والے تھے او رمکتب کے صدر مدرس کی حیثیت سے تھے اورانہی کے ہم عمر بھی تقریباً رہے ہوں گے۔ وہ اس رات کو مدرسہ پر رک گئے رات کو جو کھانا ان کے لیے آیا اس کا ذائقہ کچھ مولانا کو پسند نہ آیا تو انہوںنے کسی لڑکے سے کہا کہ ایک لیموں درخت سے توڑلائو وہ لڑکا بیچارہ ڈر رہا تھا مگر ان استاذ کے مکرر کہنے کی وجہ سے توڑلایا۔ مولانا نے لیموں کاٹ کر کھانے میں استعمال کیا۔ یہاں اوسان کوئیاں مدرسہ پر کئی لیموں کے درخت تھے اور ایک عرصہ پہلے لگائے گئے تھے۔ بہت بڑے ہوگئے تھے مگر آج تک کسی درخت میں ایک بھی پھل نہیں لگا۔ ا س سال ایک درخت میں کچھ پندرہ سولہ پھل لگ گئے تھے۔ انہی میں سے ایک پھل توڑکر مولانا نے استعمال کرلیا۔
صبح دستور کے مطابق مدرسہ کا وقت ہوا اور مکتب کے طلبہ مدرسہ پر پہنچے تو مولانا بھی کرسی میز لگاکر طلبہ کی کاپی جانچنے لگے۔ اور اسی کام میں پورے طور پر منہمک تھے۔ اسی دوران وہ جھاڑ پھونک والے مولوی صاحب جو ناظم کے خاندانی بلکہ بھتیجے تھے ۔ سائیکل سے مدرسہ پر تشریف لائے ۔ پہلے لیموں کے درخت پر نگاہ ڈالی اپنے کمرے میں آئے ، کپڑے نکالے اور طلبہ کو بلاکر پوچھا کہ لیموں کس نے توڑا، ایک پھل کم ہے درخت میں۔ طلبہ نے ڈر کے مارے رات کی ساری بات بتادی، انہوںنے لنگی اور بنڈی کندھے پر رکھی اور ایک طالب علم (ہینڈپائپ) سے پانی نکالنے کو کہااور خود غصہ میں بھرے ہوئے مولانا کے پاس پہنچے اور بغیر کچھ پوچھے ایک زوردار طمانچہ لگاکر کہا کیوں بے بدتمیز لیموں کیوں توڑا وہ بیچارے میز پر سررکھ کر رونے لگے سارے طلبہ نے یہ منظر دیکھا اس کے بعد نل پر جاکر غسل کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ان کا نام قاری ابو القاسم فیضی تھا، بڑے متقی، تہجد گزار تھے۔ معلوم نہیں ان کا موڈ کبھی کبھار خراب ہو جاتا تھا، مجھ سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ میں کبھی ان سے ملنے نہ جا پاتا مگر وہ جب ادھر آتے ضرور ملاقات کرتے ، کبھی کبھی پانی نہ پیتے تھے۔ آج کی رات یعنی ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۰ء؁ رات میں تقریباً دس بجے ان کا انتقال ہوگیا۔ دو بجے جنازہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں اور لغزشوں کو درگذر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ أللھم اغفرلہ وأرحمہ وعافہ أعفا عنہ وأکرم نزلہ أغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد۔ (آمین)
میں اس دن معلوم نہیں کیوں پیدل ہی مدرسہ پر جارہاتھا میں نے سامنے کی طرف دیکھا آدھ فرلانگ کی دوری پر ناظم صاحب اپنی سائیکل سے جارہے تھے۔ وہ جہاں پہنچے وہاں ایک مسلمان کسان ہل چلارہاتھا میں نے دیکھا کہ ناظم صاحب اس کسان کے پاس سائیکل سے اترے دونوں میں کچھ باتیں ہوئیںپھر وہ اپنے مدرسہ پر چلے گئے اور معلوم ہوا کہ سیدھے اپنی درس گاہ کے کمرے میں چلے گئے۔ میں جب ا س کسان کے پاس پہنچا تو اس نے مجھ کو پکار کر کہا ارے مولانا کچھ آپ نے سنا ہے؟ میں نے کہا کیا ہے بھائی؟ خیریت تو ہے؟ اس کے بعد کسان نے بتایا کہ فلاں مولانا نے فلاں مولانا کو مارا ہے۔ میرا تو دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں جب مدرسہ پر پہنچا تو سیدھے مظلوم(ان کا نام مولوی غیث اللہ صاحب تھا، تقریباً سال بھر پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے ، میری بڑی ہمت افزائی کرتے ، خصوصاً جب کوئی تحریر یا نظم دیکھتے تو بغور پڑھتے اور پھر خوشی خوشی اپنا تاثر ظاہر کرتے ، اور ہمت افزائی فرماتے، اچھے اردو داں اور فارسی داں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ، خطائوں سے درگزر کرے۔ ’’اللّٰھم غفر لہ وأرحمہ وعافہ أعفا عنہ وأکرم نزلہ أغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد‘‘(آمین) میں ان کے پاس گیا۔ ان سے پوری تفصیل معلوم کی۔ کچھ طلبہ سے پوچھا تو انہوںنے بھی پوری بات اسی طرح بتائی۔ میں انہی کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ظہر کاو قت ہوا نماز اداکرنے کے بعد پھر میں انہی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں انتظار کرتارہا کہ ہوسکتاہے ناظم صاحب ان کو بلاکر یا خود آکر کچھ تسلی دلائیں یا دونوں کو اکٹھا کرکے کچھ فیصلہ کردیں۔ یا کم ازکم مجھ سے پوچھیں کہ آج اپنی درس گاہ میں کیوں نہیں گئے؟ پڑھایا کیوں نہیں؟ مگر ان میں سے کوئی بات نہ ہوئی تو میں نے ایک عریضہ ناظم صاحب کی خدمت میں لکھ کر بھیجا کہ ’’ دونوں اساتذہ کے مابین جو ناخوشگوار بات رونما ہوئی ہے اس کا یا تو فیصلہ کردیں یا دونوں کے درمیان مصالحت کرا دیں۔ ورنہ اس تحریر کو میرا استعفیٰ تصور کرکے قبول فرمائیں‘‘۔ اس درخواست کے باوجود جب عصر کی نماز کے اختتام تک کوئی جنبش نہیں ہوئی تو میں نے یہ سمجھ لیا کہ میرا استعفاء منظور ہوگیا ہے لہٰذا دوسرے دن سے میں نے مدرسہ جانا بند کردیا۔ اس جرم کی سزا کے طور پر میری دوماہ کی تنخواہ بھی ضبطی میں چلی گئی لیکن جو کتابیں بطور مستعار میرے گھر پر مطالعہ کے لیے رکھی تھیں۔ میں نے ان کو کچھ دنوں کے بعد مدرسہ پر پہنچادیں۔ میرے استعفیٰ کے بعد بعض طلبہ جو مجھ سے محبت رکھتے تھے انہوںنے سالانہ امتحان کا بائیکاٹ کردیا اور بعض طلبہ نے امتحان تو دیا لیکن نئے سال کے شروع میں ا س مدرسہ میں داخل ہوگئے جہاں میری تقرری ہوئی۔
میرے وہاں سے نکلنے کے بعد دوسرے مدرس آگئے اور ان کی گائوں میں بڑی تشہیر کی۔ لیکن میری محبت ان کے دل سے نکل نہ سکی۔ اس کا پتہ اس طرح چلتاہے کہ میرے نکلنے کے ایک سال بعد ناظم صاحب بیمارہوگئے اس بیماری کے زمانے میں اگر میں ایک روز بھی دیکھنے نہ جاتا تو وہ شکایت کرتے اسی لیے میں کوشش کرتا کہ روز پہنچ کر ان کی تیمارداری کرلیا کروں۔ آخرکار دوسرے سال دسمبرکے مہینہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اللہم أغفرلہ وأرحمہ واعف عنہ وأکرم نزلہ اللہم أغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد۔ آمین

Related posts

رفقائے درس

Paigam Madre Watan

دادا کی سچائی اور عہد کی پابندی

Paigam Madre Watan

اسناد

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar