ہمارے دادا صاحب بہت سیدھے سادے اور قول وقرار کے پکے تھے۔ تھے تو ان پڑھ، مگرنماز روزہ اور عبادات کی پابندی کے ساتھ سچائی پر جمے رہنے والے انسان تھے۔ میرے بچپن میں ایک چک بندی ہوئی تھی۔ سارے گائوں کے لوگوں نے مسجد میں اکٹھا ہوکر یہ رائے کی کہ کوئی شخص کسی ادھیکاری (ذمہ دار افسر) کو ایک پیسہ رشوت نہ دے۔ اس بات پر سب لوگوں نے مسجد میں قسم کھائی اور سب نے عہد کیا کہ کوئی آدمی چک بندی افسر کو ایک پیسہ بھی رشوت نہ دے گا۔ مگر بعد میں معاملہ یہ ہوا کہ جولوگ بڑے متقی، پرہیزگار، تہجدگزار تھے انہوںنے اس قول وقرار اور مسجد کے اندر حلف کا خیال نہ کیا۔ خفیہ طور پر چک بندی افسر کو رشوت دی۔ او رمن موافق اپنا چک بنوالیا جب کھیت ناپنے لگے تو یہ معلوم ہوا کہ سوپیسہ مالیت کی زمینیں انہی پرہیزگاروں کو ملی ہیں اور ہمارے دادا کوپرتی، بنجر اور شورزمین ملی۔ اور وہ بھی مالیت سے بہت کم۔ ایک جگہ اٹھارہ بیگھ زمین کے بدلے تیرہ بیگھ، دوسری جگہ ۸یادس بیگھ زمین کے بدلے پانچ بیگھ۔ اس طرح کھیت بھی ایک تہائی کم دیا۔ اور درجہ سوم یا چہارم کی مالیت کی زمین دی۔ جسکا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ گائوں کا کوئی گڈھا، تالاب، قبرستان ایسانہیں تھا جہاں ہمارے دادا کا کھیت منتشر کرکے رکھ نہ دیا ہو ہمارے دادا اللہ پر توکل کرکے رہ گئے۔ او رظاہری پرہیز گاروں کی بدباطنی دیکھ کر خاموش رہے گائوں کے سبھی باشعور لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اب جان محمد کے بچے دانے دانے کو ترس جائیں گے اور بھوکے مرجائیں گے مگر روزی تو اوپروالے کے ہاتھ میں ہے وہی روزی تنگ او رکشادہ کرتا ہے۔وہی پرتی او ربنجرزمین جہاں گائوں والوں کے بقول بھنگریا(گھاس) بھی نہ جمتی تھی اسی زمین نے پہلے ہی سال سونااگل دیا۔ صرف دوبیگھ گنا بویا گیاتھا ایک ایک گنادس دس فٹ کا تھا پندرہ دن سارے گائوں کے لوگ گنا پیرتے رہ گئے اور سبھی اکتاگئے۔ ہمارے گھروالوں نے سب سے کہہ دیاتھا کہ جتنا گڑکھاناہو کھائو جتنا گنا چوسنا ہو چوسو کسی کے لیے روک ٹوک نہیں ۔ گڑاتنا زیادہ ہوگیاتھا کہ رکھنے کو جگہ نہ تھی ہمارے دادا نے بہت کم بھائو پر سارا گڑبیچ دیا یعنی ستائیس اٹھائیس روپیہ کوئنٹل ، گیارہ روپیہ من۔
اسی گنے کے کھیت میں ایک ارہر کا پیڑ خودروجم گیاتھا وہ اتنا لمبا او رموٹا تھا کہ اس پر آدمی چڑھ جاتا تو بھی اس کی کوئی ڈال نہ ٹوٹتی۔ اس کوبلاک کے ایک افسر نے نمائش کے لیے منگایاتھا اس پر دادا کو انعام ملاتھا ہمارے منجھلے چچا اس وقت نوجوان تھے او رطاقت ورلوگوں میں مانے جاتے تھے اس پیڑ کو ڈومریاگنج لے کر چلے تو دوکیلومیٹر جاتے جاتے تھک گئے پھر بیل گاڑی پر لے کر گئے۔
اسی کے دوسرے سال کی بات ہے ہمارے گھر کے پاس ایک جامن کا درخت تھا اس پر ایک کدو کی بیل جو خود ہی اُگ (جم) گئی تھی اسی پر چڑھ گئی اور اتنا پھیلی کہ پورے خاندان کے لوگ کھاتے کھاتے اکتاگئے۔ یہ کدو گول والا تھا اس کا ایک پھل ایک ڈال کے اوپر لگا اسی ڈال کے سہارے رہ گیا اتنا بڑا ہوگیا کہ اس کو دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ اس کو بھی بلاک کے آدمی نے نمائش کے لیے منگایا اس پر بھی دادا کو انعام ملا۔
ہمارے گھر کے مالک مختار چھوٹے چچا تھے دادا کے اپنے زمانہ میں تین بھینس رہتی تھیں جس کی وجہ سے دودھ اور گھی کی فراوانی ہوتی تھی۔ مہمان بھی اگر آجاتے تھے تو ان کے لیے بھی کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ دودھ گھر میں ہے تو ساری عزت محفوظ ہے۔ تین بھینسوں میں ہمیشہ ایک نہ ایک دودھ دیتی تھی ہمارے نانا جاڑے کے زمانہ میں آکر باہر چارپائی پر آرام فرماتے تھے۔ دادی ان کے لیے گرم گرم دودھ کم ازکم نصف کیلولاکر المونیم کی پلیٹ میں دیتی تھیں جب گھر کی چیز ہوتی ہے تو اس میں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح ماموں صاحب کے ساتھ بھی کرتی تھیں۔ ایک بار چھوٹے چچا نے بھینس بیچ دی ایک آدھ مہینہ کسی طرح گذرا اس کے بعد دادا نے چچا سے کہا کہ میرا بغیر بھینس کے کام نہ چلے گا کہیں نہ کہیں سے بھینس جلدی لائو۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی اس کے بعد چچا ایک دودھ والی بھینس لے آئے۔
کبھی کبھی کھیت خراب او رکم ملنے پر چھوٹے چچا دادا کو کوستے تھے تودادا ان کو زور سے ڈانٹتے: غلام خط (یہ لفظ انتہائی غصہ میں دادا کسی کو ڈانٹتے ہوئے کہتے تھے) غلام خط! اگر کوئی مسجد میں قسم کھاکر سور کا گوشت کھالے تو کیا میں بھی کھالوں۔ ان لوگوں نے رشوت دے کر اپنی عاقبت خوب سنوار لی ہے آخر ت میں پتہ چلے گا او رمجھ کو اللہ تعالیٰ اسی خراب اور کم زمین میں روزی دے گا۔ چنانچہ میں نے اسی کھیتی کا حال پہلے سال کا بتادیا۔ اللہ کا فضل ہے کہ دادا کے زمانہ میں جو پیداوار ہوئی تھی اس پر وہ پھولے نہ سماتے۔ کہتے: دیکھ لو ! گائوں میں کسی کے گھر اس قدر پیداوار ہوئی ہے؟ اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ مجھ کو اسی بنجر زمین میں سب سے زیادہ پیداوار دیتاہے۔
اللہ کا فضل ہے کہ آج دوسری چک بندی کے بعد جبکہ کھیت میں مزید کمی ہوگئی ہے۔ اور دادا کے نام کا کھیت چار حصوں میں تقسیم ہوگیاہے۔ ماشاء اللہ اب ان چارحصوں میں سے ایک ایک حصہ میں جتنی پیداوارہوتی ہے اتنی دادا کے زمانہ میں پورے کھیت میں بھی نہیں ہوتی تھی۔
فللّٰہ الحمد والمنۃ، وہوالرزاق ذوالقوۃ المتین۔ ومامن دابۃ فی الأرض الأعلی اللہ رزقہا۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً ویرزقہ من حیث لایحتسب ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ۔
previous post
Related posts
Click to comment