تحریر: ارشد بستوی
جہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا بولنا ہے، وہیں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا نہیں بولنا ہے۔ کچھ لوگ بھلا کرنے کے چکر میں برا کر بیٹھتے ہیں، عقل مندی جتانے کے چکر میں اپنی بے وقوفی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہیں، ہر چنگھاڑ کو بہادری سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سراسر حماقت ہے۔۔۔ جن لوگوں کو بولنا چاہیے وہ تو وہ بھی نہیں بولتے جو بولنا چاہیے، اور جن لوگوں کو چپ رہنا چاہیے وہ، وہ بھی بولتے ہیں جو نہیں بولنا چاہیے۔۔۔ نامرادی کی جڑ یہی ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں اپنے ملک کے آئین کا علم ہونا ضروری ہے، پھر کرنٹ افیرس پر گہری نظر ہونی چاہیے، پھر ان سب کے ساتھ جب سوجھ بوجھ اور اعلی دماغی کا مِشْرَن ہو تب جاکر ایک اچھی فکر بنتی ہے۔ آج ہر کوئی اپنے آپ کو اخبارات کی زینت بنانا چاہتا ہے۔ اخبارات والوں کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کا مضمون بھی نہ چھاپیں، بل کہ جب کوئی تحریر برائے اشاعت آئے تو پہلے اس کی فکری اور علمی گہرائی ناپ لیں، اس کے بعد ہی اخبار کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنے آپ کو وائرل دیکھنا چاہتا ہے، یہ بھی ایک ناسور ہے۔ اور بہت سے سوشل میڈیائی پلّے اسی بات کا فائدہ اٹھاکر مائک لے کر ہر گلی محلے میں گھومتے رہتے ہیں اور ہر کس وناکس سے حساس سے حساس موضوعات پر سوالات کرتے ہیں اور وہ نادان الٹے سیدھے جواب دے کر آپ بھی بدنام ہوتا ہے اور پوری ملت کو بدنام کرتا ہے۔
در اصل یہ قلم کے فتنے کا دور ہے۔ اور یہ وہی دور ہے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قرب قیامت کی ایک علامت ”قلم کا فتنہ“ ہے۔ اور سوشل میڈیا اور اخبارات میں لکھنے کا ”شوق“ بھی اسی فتنے کا حصہ ہے۔ اور بہت سے بھولے بھالے اور کج فہم لوگ جانے انجانے میں اسی فتنے کا حصہ بنتے جارہے ہیں جو کہ انتہائی مہلک اور بھیانک ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شہرت ونام وری کے پیچھے نہ بھاگیں، اپنے آپ کو وائرل کرنے کے چکر میں نہ رہیں، پہلے اچھے سے دین سیکھیں اور اپنے اندر درد پیدا کریں، اس کے بعد دین کی حفاظت اور نشر واشاعت کا کام انجام دیں۔ ہر چیز کی ایک ترتیب ہوتی ہے، اس ترتیب کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ آپ ضال ومضل قرار پائیں گے۔ اور ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ کے مصداق ٹھہریں گے۔