تحریر: سعیدالرحمٰن عزیز سلفی
حرم مَدَنی اور مسجد نبوی کے تعلق سے جو لوگوں کے ذہن میں سوالات گردش کررہے ہیں کہ کیا مشرکین وہاں جاسکتے ہیں یا نہیں؟
تو یاد رکھیں! مکہ مکرمہ کے حرم میں داخل ہونے کی ممانعت موجود ہے سورۃ توبہ آیت28، حالانکہ حرم مَکّی میں بھی بعض لوگ مصلحتاً جانے کی رائے رکھتے ہیں مگر "مدینہ منورہ” میں داخلے کے تعلق سے ممانعت کا کوئی حکم موجود نہیں ہے نہ قرآن میں اور نہ ہی احادیث میں، لہٰذا اگر کوئی مشرک حرم مَدَنی میں باجازت کسی خاص حاجت یا مصلحت کے تحت جاتا ہے تو اُس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
1: علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے مساجد میں کافر کے داخل ہونے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے سورۃ توبہ آیت28 ذکر کی، اور آگے جواب دیا:
. . . . الآية. فمنع سبحانه من دخولهم المسجد الحرام، والمشركون يدخل فيهم اليهود والنصارى عند الإطلاق، فلا يجوز دخول أي مشرك المسجد الحرام؛ لا يهودي ولا نصراني ولا شيوعي، بل هذا خاص بالمسلمين، وأما بقية المساجد فلا بأس ب-دخول المسجد للحاجة والمصلحة، ومن ذلك المدينة، وإن كانت المدينة لها خصوصية، لكن في هذه المسألة فهي مثل غيرها من المساجد؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم ربط فيها ثمامة بن أثال وهو كافر في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم، وأقر وفد ثقيف حين دخلوا المسجد قبل أن يسلموا، وهكذا وفد النصارى دخلوا مسجده عليه الصلاة والسلام، فدل ذلك على أنه يجوز دخول المسجد النبوي للمشرك۔ آیت ذکر کرکے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انہیں مسجد حرام میں داخل ہونے سے منع کر دیا دیا، اور مشرکین میں یہود و نصاریٰ مطلقاً شامل ہیں، اس لیے کسی مشرک کے لیے مسجد حرام میں داخل ہونا جائز نہیں۔ نہ یہودی، نہ عیسائی، نہ ہی کمیونسٹ، بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے خاص ہے، بہرحال بقیہ مساجد میں حاجت اور مصلحت کے تحت داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اُسی میں مدینہ (بھی) ہے اگرچہ مدینہ کو خصوصیات حاصل ہیں مگر اس معاملے میں یہ دوسری مساجد کی طرح ہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "ثمامہ بن اثال” کو جو اُس وقت کافر تھے، مسجد نبوی میں باندھا تھا اور قافلہ ثقیف کو حالتِ کفر میں مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی، اور اسی طرح عیسائی وفد مسجدِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوا، تو یہ واقعات دلالت کرتے ہیں کہ مشرک کے لیے مسجد نبوی میں داخل ہونا جائز ہے۔
(فتاوي نور، ج11، ص353) 2: اِس طرح کے سوالات بہت پُرانے ہیں، تقریباً 4 سال پہلے بھی اِس قسم کے سوال کے جواب دیئے جا چکے ہیں۔
مصطفی انصاری صحافی نے بتاریخ 1، اکتوبر 2019 کو اِس سوال "لماذا تحظر السعودية دخول غير المسلمين المدينة المنورة؟” کا جواب دیا تھا جس میں علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ وغیرہ کے فتاوے مذکور ہیں، ذیل کی ویب سائٹ پر عنوان لکھ کر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
3: شیخ محمد صالح المنجد حفظہ اللہ کے سوال وجواب میں مذکور ہے۔
وأما حرم المدينة فإنه لا يمنع من دخوله لرسالة أو تجارة أو حمل متاع۔
بہرحال حرمِ مدنی، تو اُس میں پیغام، تجارت یا سامان کے نقل و حمل کے لئے داخل ہونا منع نہیں ہے۔
(الاسلام سوال وجواب، سوال47736، هل يجوز دخول غير المسلم المدينة؟)
4: بریلوی عالم: مولانا محمد امداد حسین پیرزادہ صاحب فرماتے ہیں:
حنفی فقہاء کے نزدیک مشرکین تمام مساجد اور مسجد حرام میں داخل ہو سکتے ہیں اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ ادا کرنے کے لیے حرم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ (روح المعانی) اور یہی قول زیادہ قوی ہے۔
(تفسیر امداد الکرم، ج2، ص767، ط: الکرم)
5: بریلوی عالم: علامہ غلام رسول سعیدی صاحب فرماتے ہیں:
فقہائے احناف نے یہ کہا ہے کہ ذِمّی (وہ مشرک، کافر جس کو امان دے دیا گیا ہو) کے لئے تمام مساجد میں داخل ہونا جائز ہے۔
(تبیان القرآن، ج5، ص114، ط: فرید بک اسٹال)
6: دیوبندی عالم: مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
ہاں حنفیہ کے نزدیک کوئی کافر مسافرانہ عارضی طور پر امام کی اجازت سے وہاں جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ امام اتنی اجازت دینا خلاف مصلحت نہ سمجھے. (تفسیر عثمانی، ص565)
7: دیوبندی عالم: مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:
کفار حج تو نہیں کر سکتے لیکن کسی اور ضرورت سے مسجد حرام یا کسی اور مسجد میں اُن کا داخلہ بالکلیہ ممنوع (یعنی منع) نہیں ہے، کیونکہ کئی مواقع پر یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
(آسان ترجمہ قرآن مع تشریحات، ص571، ط: معارف)
8: سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب فرماتے ہیں:
امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں ۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔
(تفہیم القرآن، ج2، ص187، ط: ترجمان القرآن)
تلخیص: حَرم مَدنی یعنی مَدینہ مُنورہ اور مَسجدِ نبوی میں کسی حاجت اور مصلحت کے لئے مشرک، کافر جاسکتے ہیں، لحاظ رکھا جائے کہ کسی قسم کا فساد اور خرابی لازم نہ آئے۔
واللہ أعلم بالصواب، اللهم اهدنا وسددنا