ممبئی(پی ایم ڈبلیو نیوز) ممبئی قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام جاری قومی اردو کتاب میلے کا آٹھواں دن خاصا پر رونق رہا، آج جہاں ممبئی و اطراف کے درجنوں اسکولوں کے ہزاروں طلبہ و طالبات ، اساتذہ اور شائقین علم و ادب نے لاکھوں کی کتابیں خریدیں ، وہیں حسبِ معمول کئی ثقافتی پروگرام بھی ہوئے۔آٹھویں دن کے پہلے سیشن میں ممبئی میونسپل اردو اسکول کے طلبہ و طالبات کے مابین مونو ایکٹنگ مقابلے کا انعقاد ہوا، جس کا اہتمام بی ایم سی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے کیا تھا۔ اس پروگرام کی صدارت معروف ڈراما نگار آفتاب حسنین نے کی۔ راجو امیر تردی ، مجیب خان اور شاہ مختار احمد مہمانان خصوصی تھے۔ ناصر علی شیخ، خان عبداللہ عبدالکریم اور ڈاکٹر میمونہ شیخ نے حکم کے فرائض انجام دیے اور ڈاکٹر عمران امین نے نظامت کی۔ دوسرے سیشن میں تنظیم والدین ممبرا کے زیر اہتمام ’اردو ذریعۂ تعلیم ایک اہم فریضہ‘ کے عنوان سے مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مجلس کی صدارت دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری جناب احسن عابد نے کی۔ مہمانان اعزازی کی حیثیت سے جناب نور محمد عنبر، جناب عثمان شیخانی اور جناب سید زاہد علی شریک رہے، جبکہ مہمانان خصوصی جناب امتیاز خلیل اور جناب اجمل سعید تھے۔ پروفیسر عبدالرحمن شیخ نے مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے فروغ اردو کے مختلف ذرائع مثلا کتابوں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں تعلیم کے ساتھ ان ذرائع نے ہر دور میں اہم رول ادا کیا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے اردو کے فروغ میں مشاعروں اور اردو اسکولوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ پروفیسر عبدالماجد انصاری نے اعداد و شمار کی روشنی میں ہندوستان اور عالم گیر سطح پر اردو زبان کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت اردو پوری دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں دسویں یا گیارہویں نمبر پر ہے، جو یقینا ایک خوش آیند حقیقت ہے۔ انھوں نے زبان کے فروغ میں بارہ مختلف عناصر کی نشان دہی کی اور کہا کہ ان میں سے ہر عنصر کی فروغ زبان میں اپنی اہمیت ہے۔ محترمہ صبا پٹیل نے مادری زبان میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں بچہ چیزوں کو اچھی طرح سمجھتا بھی ہے اور اس زبان میں اپنے خیالات کا اظہار بھی اچھی طرح کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے نئی تعلیمی پالیسی میں بھی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے اردو زبان کے فروغ میں مسلم ادبا و شعرا کے ساتھ غیر مسلم ادیبوں کی حصے داری پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے موجودہ دور میں اردو کے فروغ کو درپیش مشکلات اور چیلنجز پر بھی گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ آج ہمیں اردو زبان کو عصری ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا ، اسے آج کے ماحول سے جوڑنا ہوگا، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے فروغ کی راہ کی ساری مشکلیں بھی دور ہوجائیں گی۔ انھوں نے اردو اسکولوں کے معیار تعلیم، نصاب اور طریق? تعلیم و تدریس کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کیا جائے تو ہمارے اردو اسکول دیگر زبانوں کے اسکول اور کانوینٹ سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔مہمان اعزازی جناب نور محمد عنبر نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زبان ہمارے تہذیبی ورثے کی امین ہے اور ہمیں اسے پڑھنے، لکھنے اور بولنے میں کسی بھی جھجھک کے بجائے فخر کا احساس ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اردو ایک شیریں زبان ہے جو کان کے راستے دل میں اترتی اور سامع و مخاطب پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں فروغِ اْردو کے لیے عملی طور پر مخلصانہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اپنی جیب سے اس میلے میں ایک لاکھ روپے کی کتابیں خریدی ہیں۔جناب عثمان شیخانی نے کہا کہ قومی اردو کونسل اس میلے کے انعقاد کے لیے لائق ستایش و مبارکباد ہے، جس نے اس عظیم اردو کتاب میلے کا انعقاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو تہذیب سکھاتی ہے، طریقۂ زندگی سکھاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو اسکول پسماندہ ہوتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، مہاراشٹر اور خصوصا ممبئی میں ایسے اردو میڈیم اسکولوں کی کمی نہیں جو اعلی انفراسٹرکچر سے لیس ہیں اور بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جناب سید زاہد علی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اردو کے تحفظ کے لیے اس کے رسم الخط کا تحفظ ضروری ہے، اسی طرح اردو کے رسائل و مجلات اور اخباروں کے مطالعے کا بھی چلن عام ہونا چاہیے، یہ اردو زبان کے تحفظ اور فروغ دونوں کے لیے اہم ہے۔ دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری جناب احسن عابد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اس کتاب میلے میں آکر اور اس پروگرام میں شرکت کرکے مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے، اس کامیاب کتاب میلے کے انعقاد کے لیے میں قومی اردو کونسل اور انجمن اسلام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اتنی بڑی تعداد میں آنے والے شائقین بھی قابل مبارک باد ہیں۔ اس مذاکرے میں مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قابل قدر ہیں اور ان سے فروغ اردو کے سلسلے میں یقینا مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اردو ہندوستان کی نہایت مقبول زبان ہے ، جس سے وہ لوگ بھی دلچسپی رکھتے ہیں ، جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ درس و تدریس کی سطح پر اردو کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کی طرف بھی انھوں نے نشان دہی کی اور کہا کہ اگر اردو میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی اور مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے مواد تیار کیا جائے تو یقینا اس سے بڑی تبدیلی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں اردو کی صورت حال دوسرے علاقوں سے بہت بہتر ہے اور اس میں یقینا یہاں کے اردو اسکول ، اساتذہ اور طلبہ کا رول ہے۔ اس سیشن کی نظامت محمد شعیب ندوی نے کی اور پروگرام میں اسکولی طلبہ طالبات کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذہ اور اہل علم و دانش شریک رہے۔
تیسرا پروگرام معروف مزاحیہ اداکار رحمن خان کا تھا، انھوں نے ایک خوب صورت مزاحیہ شو پیش کیا، جس سے ہزاروں کا مجمع محظوظ ہوا۔
(رابطہ عامہ سیل)