Education تعلیم

غالب کی شاعری متنوع رنگوں کی حامل۔ پروفیسرسید عین الحسن، شیخ الجامعہ، مانوبازگشت آن لائن ادبی فورم کی 125ویں نشست میںاساتذہ اور طلبہ کی شرکت

حیدرآباد۔’’مرزاغالب کی شاعری متنوع رنگوں کی حامل ہے۔ بعض اوقات ان کی ایک ہی غزل میں کئی رنگ ملتے ہیں۔ان کی اردو شاعری کا مقام فارسی شاعری سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ان کی شاعری عوام و خواص میں یکساں مقبول ہے۔ ان کی مقبولیت میں اہلِ علم اور نقادوں کے ساتھ فلموں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ممتاز اردو، فارسی اسکالر، شاعر، دانشور اور مترجم پروفیسر سید عین الحسن،شیخ الجامعہ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے بازگشت آن لائن ادبی فورم کی 125ویں نشست منعقدہ بہ یادِ مرزا غالب میں کیا۔ انھوںنے مزید کہا کہ مرزا غالب کے جتنے اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئے ہیں اتنے شاید ہی کسی اور شاعر کے ہوں۔ وہ متضاد کیفیات کو بڑی خوبی سے شعری قالب عطا کیا۔ مثال کے طور پر ’بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہوناـ‘ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔انھوںنے غالب کی دوراندیشی، جدت پسندی، انفرادیت،مشکل پسندی اوار دیگر مختلف شعری محاسن پر تفصیلی گفتگو کی ۔ پروفیسر سید عین الحسن نے بازگشت آن لائن ادبی فورم کو کلاسیکی ادب کی تفہیم و تشریح کے ضمن میں گراں قدر خدمت انجام دینے کے لیے مبارک باد دی۔ نوجوان فکشن نگار اور اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی نے غالب کا جامع تعارف پیش کیا۔ نشست میں ممتاز شاعر، نقاد ، مترجم اور صدر شعبۂ ترجمہ ، مانو ڈاکٹر سید محمود کاظمی نے دل کش انداز میں غالب کی منتخب غزلیں پیش کیں۔ بعد ازاںان غزلوں کی کا تجزیہ کرتے ہوئے سجاد باقر رضوی کے حوالے سے ماہرِ غالبیات ڈاکٹر جاوید رحمانی صدر شعبۂ اردو، آسام یونیورسٹی، سلچرنے کہا کہ غالب برصغیر کی ہزار سالہ تہذیب کا استعارہ ہے۔ ویسا ہی استعارہ جیسا کہ امیر خسرو تھے۔ امیر خسرو کا تعلق دور عروج سے تھا اور غالب کادور زوال سے۔ یہ ہزار سالہ تہذیب ہندوستانی تہذیب ہے۔ اسے ہندو اور مسلم میں تقسیم کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔غالب کی مقبولیت کاراز ان کے کلام کے حیرت انگیز میں پنہاں ہے۔ ڈاکٹر جاوید رحمانی نے لیک سے ہٹ کر غالب کی غزلوں کی بہترین تشریح پیش کی۔ ابتدا میں بازگشت کے منتظم ڈاکٹر فیروز عالم اسو سی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو، مانو نے خیر مقدمی تقریر میں فورم کاتعارف کراتے ہوئے بتایا کہ معیاری ادب کی قرأت، تفہیم، تعبیر، ترویج اور فروغ کے لیے ممتاز افسانہ نگار اور نقاد پروفیسر بیگ احساس کی سرپرستی میں 8؍ اگست 2020 کو بازگشت آن لائن ادبی فورم کا آغاز ہوا تھا۔ اس کا افتتاح ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے کیا تھا۔ اس وقت سے اب تک فورم کی جانب سے قدیم عہد سے جدید دور تک کے 124مختلف شعرا و ادبا کی تخلیقات کی پیش کش اور ان پر تنقیدی/ تجزیاتی گفتگو پر مبنی124 نشستوں کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔ بازگشت آن لائن ادبی فورم کی جانب سے اردو کے کلاسیکی ذخیرے سے ہر ہفتے شنبہ کی رات آٹھ بجے کوئی اہم تخلیق پیش کی جاتی ہے۔ اس فورم کے تحت افسانہ، خاکہ، انشائیہ، نظم، غزل، مرثیہ، قصیدہ یا کسی دیگر تخلیق کی قرأت سے قبل قلم کار کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے، بعد ازاں پیش کردہ تخلیق پر گفتگو ہو تی ہے۔ بازگشت آن لائن ادبی فورم کی منتظم اور استاد شعبۂ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد ڈاکٹر گل رعنا نے نشست کی بہترین نظامت کی اور آخر میں اظہار تشکر کیا۔ گوگل میٹ پر منعقدہ اس جلسے میں پروفیسر صدیقی محمد محمود، پروفیسر اے آر فتیحی، محترمہ نسترن احسن فتیحی، پروفیسر مسرت جہاں، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، محترمہ صادقہ نواب سحر، جناب معین الدین عثمانی، جناب ملکیت سنگھ مچھانا،جناب انعام الرحمٰن غیور، ڈاکٹر مشرف علی، ڈاکٹر زاہد الحق، جناب ریاض شیخ، ڈاکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر نصرت جبیں، ڈاکٹر سید نورالامین، ڈاکٹر ریاض توحیدی، ڈاکٹر عبدالحق، ڈاکٹر محمد انصر، ڈاکٹر پرویز عالم، ڈاکٹر ظہور احمد وغیرہ اساتذہ اور اہل قلم کے علاوہ ملک کی مختلف جامعات کے سو سے زائد طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔

Related posts

رحمانی 30 کا آیان اشرف کا سفر؛ محنت، امید اور ثابت قدم قدموں کی پہچان

Paigam Madre Watan

نعتیہ شاعری پر یہ نمائش اہلِ علم کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز کرے گی: پروفیسر اخترالواسع

Paigam Madre Watan

پروفیسر شمیم جیراج پوری کے اہل خانہ سے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن کی تعزیت

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar