ادبی سرمائے کے تحفظ کا سب سے بہترین ذریعہ بچوں کا ادب ہے۔حافظؔ کرناٹکی
آج بہ روز بدھ ۱۷؍جنوری ۲۰۲۴ء کو لال بہادر شاستری گورنمنٹ ڈگری کالج آر،ٹی نگر بنگلور میں بھاشا سنگم لینگویج فورم کے تحت بچوں اور بڑوں کے ادب کی خصوصیات و انفرادیت اور روایت کے موضوع پر بچوں کے قومی انعام یافتہ شاعر و ادیب ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے خصوصی خطاب کا اہتمام کیاگیا۔اس جلسے کی صدارت کے فرائض کالج کے پرنسپل ڈاکٹر منظور نعمان نے ادا کیے، جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی پیش کش اور نظم و ضبط میں کالج کے طلبا نے بھرپور حصّہ لیا۔ نظامت کے فرائض کالج کی طالبہ نوویانے اداکیے، تو قرأت کلام پاک محمد مخلص نے پیش کی۔ مہمانوں کے استقبال کے فرائض محمد مجیب الرّحمان نے ادا کیے۔ افتتاحیہ خطاب ڈاکٹر ستیش ،ایس،کے صدر شعبۂ ہندی کا ہوا جس میں انہوں نے کالج میں زبان و ادب پر دی جانے والی توجہ کا ذکر کیا اور زبان دانی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ہندی اور اردو کے رشتے کی مضبوطی کو اجاگر کیا۔ اور کہا کہ یہ دونوں زبانیں ہندوستان کی دو آنکھوں کی طرح ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے درمیان قومی ایوارڈ یافتہ شاعر ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی تشریف فرماہیں، انہیں بچوں اور بڑوں دونوں کے ادب سے دلچسپی ہے۔ آج ہم ان کے خطاب سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہوں گے۔اعزازی مہمان کی حیثیت سے جناب نعمت اللہ حمیدی صاحب نے شرکت کی۔ وہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نائب مدیر ہیں۔ انہوں نے اپنے شاندار خطاب میں ادب اور زبان کی نزاکت اور ان کی تخلیقی قوّت اور ثقافت کی روح کی تازگی پر بھرپور روشنی ڈالی اور بتایا کہ زبان و ادب کی اسی تازگی کے سنگم کا نام ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی ہے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی زبان و ادب کے وہ مینارۂ نور ہیں جس سے پوری اردو دنیا روشنی حاصل کرتی ہے۔ بڑوں اور بچوں کے ادباو شعرا ان سے سیکھتے ہیں کہ ادب کیسے تخلیق کیا جاتا ہے۔ حافظؔ کرناٹکی ایک عبقری فنکار ہیں۔ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ؛بچوں کا ادب بچوں کے ذہنی نشو و نما کا کام کرتا ہے تو بڑوں کا ادب ان کے اندر حوصلے کے ساتھ قدم آگے بڑھانے کا جوش پیدا کرتا ہے۔بچوں کا ادب بچوں کو اپنے بزرگوں سے متعارف کراتاہے۔ تو بڑوں کو اپنے بزرگوں کے کردار کو اپناکر آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے۔بچوں کا ادب زبان کی صحت پر زور دیتا ہے۔ تو بڑوں کا ادب زبان کے علمی وقار سے آگاہ کرتا ہے۔ بچوں کا ادب بچوں میں خلوص، محبت، ایثار اور صلہ رحمی، ماحول سے آگاہی، اور آس پڑوس سے قربت کا احساس پیدا کرتا ہے تو بڑوں کا ادب ماحول کو تحفظ فراہم کرنے، وطن کے لیے جان لٹادینے، انسانیت کو شرمندہ ہونے سے بچانے کا جذبہ بخشتا ہے۔بچوں کے ادب کی زبان میں بڑی سادگی، سلاست، مٹھاس، صفائی، اور سبک روی، پائی جاتی ہے۔ تو بڑوں کے ادب میں زبان کی جادوئی قوّت، علمی وقار، ٹھہراؤ، اعتماد، اور تفکر سے کام لیاجاتا ہے۔ نظمیں ہوں کہ غزلیں، مضامین ہوں کہ کہانیاں، مقالے ہوں کہ کتابیں، سب کی سب علم کی روشنی کے خزانے ہوتے ہیں، اس لیے ادب ضرورپڑھنا چاہیے۔ادب کی تخلیق سے زبان کو نئی زندگی ملتی ہے۔ اور زبان کی نئی زندگی اور طاقت ہی دراصل ہماری زندگی اور طاقت کا استعارہ ہے۔ اس لیے اپنی زبان کی قوّت کو پہچانیں۔ اس کے علمی اور ادبی خزانے کی قدردانی سے واقف ہوں۔ اور اسے اپنے لہو کی گردش میں شامل کرکے اپنی زندگی کا حوالہ بنالیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے قدموں کی آہٹ سے قوم کی سوئی تقدیر ضرور جاگے گی۔جلسے کے صدر ڈاکٹر محمد منظور نعمان صاحب پرنسپل لال بہادر شاستری گورنمنٹ ڈگری کالج بنگلور نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ؛ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نہ صرف یہ کہ تخلیقی اعتبار سے ایک منفرد، ممتاز اور بے مثال شاعر وادیب ہیں۔ بلکہ وہ عملی اعتبار سے بھی سب سے ممتاز اور بے مثال شاعر و ادیب ہیں۔ وہ جس طرح اپنی شاعری کا گلشن سجانے میں اپنے آپ کو کھپادیتے ہیں اور نت نئے گوہر آبدار جیسی کتابوں سے اردو کے خزانے کو بھردیتے ہیں اسی طرح وہ زمینی سطح پر بھی بہت محنت کرتے ہیں۔ نئی نسل کی ادبی تربیت کرنے میں اپنی عظمت اور بڑائی کو یکسر بھلادیتے ہیں۔ بچوں کے درمیان بچے بن جاتے ہیں، اور انہیں زبان و ادب کا سبق اس محبت سے پڑھاتے ہیں کہ کم عمری میں بچیاں شاعری کی ساری باریکیوں سے واقف ہوجاتی ہیں۔ گلشن زبیدہ جسے حافظؔ کرناٹکی نے اپنے لہو سے سینچا ہے یہاں کی بچیاں علم و عمل کے میدان میں اپنا جواب نہیں رکھتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ ایک سوبیس کتابوں کے مصنف نے نہ صرف یہ کہ ہمارے لیے وقت نکالا اور ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشی بلکہ ہمارے یہاں تشریف لاکر ہمارے کالج کے وقار میں بھی اضافہ کیا۔ ایسی جامع کمالات شخصیات صدیوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنے پرمغز خطاب سے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگادیا۔ اور سبھی سننے والوں کے دلوں میں اپنی زبان اور ادب کی عظمت و محبت کی روشنی بھردی۔ اس موقع سے پروفیسر جگدمبا، آر صدر شعبۂ تاریخ لال بہادر شاستری کالج اور ڈاکٹر تھمے گوڑا بھی اسٹیج پر تشریف فرماتھے۔ یہ کامیاب اجلاس اوشا، جے، سیماارم، اور شیخ فردین کے مشترکہ شکریہ کے ساتھ اختتام کوپہونچا۔