نئی دہلی ۔ ( پی ایم ڈبلیو نیوز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( SDPI) کے قومی نائب صدر محمد شفیع نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ بابری مسجد پر دعوئوں کے تناظر میں عبادت گاہ ایکٹ1991نافذکیا گیا تھا،اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس طرح کے دعوے دوبارہ نہ ہوں اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو تجاوزات سے محفوظ رکھا جائے اور عبادت گاہوں پر جھوٹے دعوئوں کے نام پر ملک میں مذہبی ہم آہنگی میں خلل نہ پڑے۔ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ کہ "عبادت گاہوں کا ایکٹ جو 1991میں پارلیمنٹ کے ذریعہ نافذ کیا گیا تھا، آئین کی بنیادی اقدار کا تحفظ کرتا ہیـــ”۔ واضح طور پر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں پر دعوے آئین کے خلاف ہیں۔وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم کے بعد گیان واپی مسجد پر اے ایس آئی سروے رپورٹ کو عام کرنے کے بعد، ہندوتوا گروپ کے وکیل نے پہلے ہی کہا ہے کہ رپورٹ جس میں مسجد کے نیچے مندر کی بظاہر باقیات کا حوالہ دیا گیا ہے ، حتمی ہے۔ وکیل کا یہ مشاہد ہ بدنیتی پر مبنی ہے تاکہ پہلے سے بگڑتی ہوئی فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید آلودہ کیا جاسکے۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر محمد شفیع نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مایوس کن ہے کہ آئین کے محافظ سمجھے جانے والے ہی عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عبادت گاہوں پر دعوئوں کی درخواستوں کی اجازت دے رہے ہیں۔ حالانکہ ایک ایسی حکومت سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی جو بابری مسجد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیکر اقتدار میں آئی اور اپنے منشورمیں رام مندر کی تعمیر کو شامل کیا، لیکن اس معاملے پر ملک میں سیکولر طبقے کی خاموشی زیادہ پریشان کن ہے۔
Related posts
Click to comment