نئی دہلی (پی ایم ڈبلیو نیوز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی سکریٹری فیصل عز الدین نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ مذہب پرستی اور عقیدت سنگھ پریوار کے لیے محض ایک نقاب ہے اصل مقصد تو پیسہ اور طاقت کا حصول ہے۔جہاں بابری مسجد کی زمین پر دراندازی کرکے ایک عمارت کے افتتاح کو سنگھ پریوار کی طرف سے قومی تہوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہیں نام نہاد مندر کے اردگرد ایک ماحولیاتی طور پر حساس ویٹ لینڈ کے بڑے لین دین کی خبر سامنے آئی ہیں۔بابری مسجد کی سرزمین پر بنایا گیا مندر نسلی منافرت کا استعما ل کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کھبی سنگھ پریوار کا سیاسی آلہ رہا ہے اور اس کے افتتاح کا جشن بہت دھوم دھام سے منانا، یقینا اس علاقے کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کے لیے ایک حیلہ سازی ہے۔ جس سے یقینی طور پر سنگھ پریوار کو بھاری دولت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔نئے مندر کے ارد گرد ایک ماحولیاتی طور پر حساس ویٹ لینڈ ( Wet land) کو بی جے پی کے ایک لیڈر کی سربراہی میں ایک گروپ کے ذریعے سرمایہ دار اڈانی کو فروخت کرنا ایسی ہی کوششوں میں سے ایک ہے۔ نئے مندر سے صرف 5کلومیٹر کے فاصلے پر ماجھا جمتھارا میں ایک ہیکٹر سے زیادہ ویٹ لینڈ کی پٹی کو ابتدائی طور پر ٹائم سٹی نے خریدی تھی ، جو کہ ایک رئیل اسٹیٹ فرم ہے جس کی ملکیت بی جے پی کے در لیڈروں کے پاس تھی، جن میں سے ایک پہلے ایم ایل اے تھا۔ اس زمین کے عوض غریب کسانوں کو 1.13کروڑ روپئے کا معاوضہ دیا گیا جو کہ علاقے میں زمین کی قیمت سے بھی کم ہے ، بعد میں اسے اڈانی گروپ کو 3.57کروڑ روپئے میں فروخت کیا گیا۔ یہ بات یقینی ہے کہ اڈانی گروپ نے یہ زمین اتنی بڑی رقم سے اس کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ کاروباری مقصد کے لیے خریدی ہے۔ اس خرید وفروخت سے فائدہ اٹھانے والے تمام سنگھ پریوار کے لیڈر اور ان کے قریبی بزنس ٹائیکون ہیں۔اس میں نقصان اٹھانے والے غریب کسان ہین جو اپنی روزی روٹی کے لیے مذکورہ زمین میں کاشت کررہے تھے۔ ایس ڈی پی آئی قومی سکریٹری فیصل عزالدین نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعدمیں آنے والی خبروں کے مطابق نوٹ بندی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے بی جے پی لیڈران تھے۔ ایوڈھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک بورڈ جس میں ماجھا جمتھارا کی ویٹ لینڈز پرتعمیرات کو روک رہا ہے ، جہاں ٹائم سٹی نے اڈانی گروپ کو زمین فروخت کی تھی۔ اب بھی وہیںایک پتلے کی طرح کھڑا ہوا ہے اور شاید انتظار کررہا ہے کہ کب اسے گرا کر اس ماحولیاتی طور پر حساس پٹی میں بڑ ی عمارتوںکی تعمیر کی جائے گی۔