ڈاکٹر علیم خان فلکی
مملکت اسلامیہ آصفیہ حیدرآباد کو چھوڑ کر مملکتِ خداد پاکستان ہجرت کرنے والو ، پڑھو، کہ جس پاکستان پر آج تم خود پشیمان ہو اس پاکستان کی تعمیر کی قیمت تمہارے آباواجداد نے کس طرح اپنے خون، گھربار، مال بلکہ پوری زندگیاں قربان کرکے دی تھی۔
حیدرآبادی مسلمانو پڑھو، کہ کس طرح تم کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا گیا، آج جو کچھ ہورہا ہے اسی پر تم ایک بیوا کی طرح گھروں میں بیٹھ کر ماتم اور فریاد کررہے ہو، تمہیں خبر ہی نہیں کہ تمہاری شکست و ریخت نئی نہیں ہے۔ 1857 میں ، پھر1948 میں پھر1992 اور 2002 میں پھر بے شمار فسادات، سخت قوانین اور تعصبّات کے ذریعے آج بھی تمہیں ہریجنوں سے بھی بدتر طبقہ میں تبدیل کرنے کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔
یہ بھی جان لو کہ اس کے ذمہ دار کوئی دشمن نہیں، تم خود ہو۔ دیکھ لو کہ قاسم رضوی جیسے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر ٹائپ کے محض جذباتی لیڈروں کے پیچھے اندھ بھگتوں کی طرح چلنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ سوچ لوکہ حقیقی اسلام کو چھوڑ کر خودساختہ مذاہب، مسالک، عقائد، سلسلوں، فقہی جھگڑوں، مرشدوں، ملّاؤں،اور عاملوں کے پیچھے چلنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ 1857 سے لے کر آج تک کوئی ایسا دہا نہیں گزرا جب ہر مہینہ تمہاری اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالت پچھلے دہے سے زیادہ نہ گِری ہو۔ اور اب دور دور تک کوئی آثار ایسے نظر نہیں آتے کہ گھر، بیوی بچے ، کاروبار اور فضولیات کو چھوڑ کر تم کبھی دین اور ملت کے لئے کوئی سنجیدہ گفتگو کرو۔
یہ تحریر پڑھو، شائد کسی کو توفیق کا لمحہ میسر آجائے۔ یہ ابراہیم جلیس کی تحریر ہے۔ یہ اپنے وقت کے ایک انقلابی، ترقی پسند ادیب اور متحرک نوجوان تھے، جو قوم میں انقلاب لانے بے چین تھے۔ پھر انہوں نے اُس وقت کے عام اندھ بھگتوں کی طرح قاسم رضوی کی پارٹی MIM میں بھی متحرک ہوگئے تھے۔عام لوگوں کے ذہنوں میں یہی بٹھادیا گیا تھا کہ یہ اولیااللہ کی سرزمین ہے، اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا۔ نواب میر عثمان علی خان کے تخت پر اللہ کا سایہ ہے، یہ کبھی نہیں ہٹ سکتا۔نمازیں، وظیفے، زیارتیں اور عمرے ادا کرتے رہو، قرآن کو سمجھے بغیر بھی تم غالب رہوگے،
ابراہیم جلیس قاسم رضوی کے دوست تھے۔ جب قاسم رضوی گرفتار ہوگئے، اور یہ پتہ چل گیا کہ ان کے سارے ساتھی چند گھنٹوںمیں گرفتار کرلئے جائیں گے، تو انہوں نے اسی لمحے گھر یا خاندان کا رخ کئے بغیر بمبئی ، وہاں سے پاکستان نکل جانے کا فیصلہ کرلیا۔
یہ مت سمجھنا کہ جو کچھ ابراہیم جلیس کے ساتھ ہوا، وہ صرف ایک شخص یا اک نسل کا واقعہ تھا۔ اب یہ ہر نسل کے ساتھ ہونے والا ہے۔ ہر اس شخص کا یہی حال ہوگا جو اب ایسی ناکارہ، بزدل، بے حِس اورخودغرض قوم کو سدھارنے کے لئے اٹھنے والا ہے۔ ایسی ناعاقبت قوم کے لئے وہی عذاب ہے جو 1948 میں آچکا ہے۔ اپنے گھربار کی اکڑ میں مگن رہنے والے سارے چوہوں کی طرح مارے جائیں گے۔
ابراہیم جلیس کی یہ درد ناک تحریر ’’سقوطِ حیدرآباد‘‘ ناشر تعمیرِ ملت، صفحہ 373 سے لی گئی ہے۔
’’مجھے ایک بہت بڑی شکست اور ندامت نے اتنا بے چین کردیا کہ میں رات بھر سو نہ سکا۔ ہر لمحہ مجھے یہ احساس تنگ کرتا رہا کہ میں نے انسان سے غدّاری کی ہے۔ میں نے مذہب کے نام پر انسانیت کی توہین کی ہے۔ ندامت سے میرا سر جھکا ہوا تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسا میں ہی ٹیپو کا قاتل ہوں۔ اسلام کا قاتل ہوں۔ انسانیت کا قاتل ہوں۔ اپنے گھر کا آپ لٹیرا ہوں۔ میں نے اپنے بھائیوں کے جسموں سے ان کی زندگیاں چھین لی ہیں۔ میں نے چار ہزار سالہ تہذیب کو تار تار کرکے رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کی تاریخ کے زرّین صفحات بھاڑ ڈالے ہیں۔ اور آج میں چھپنے کے لئے پناہ ڈھونڈھ رہا ہوں۔ موت کے بازاروں میں زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوں۔مگر کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ کہیں کوئی سایۂ حیات نہیں ہے۔ کہیں کوئی آغوشِ محبت وا نہیں ہے۔ بالکل یکہ و تنہا ہوں۔ میرے ترقی پسند ساتھیوں کا قافلہ دور بہت دور نکل گیا ہے۔ ان کے قدموں کی اڑائی ہوئی گرد تک مجھ کو نظر نہیں آتی۔ ایک ایک کا نام لے کر پکارتا ہوں، مگر مہیب سنّاٹے اور گھناؤنے اندھیرے میں میری آواز مجھ ہی تک لوٹ آتی ہے۔ کسی کرشن چندر کا جواب نہیں آتا۔کوئی احمد ندیم قاسمی نہیں بولتا۔میرا ضعیف باپ، میرے بھائی اور میری بیوی سب کہہ رہے ہیں ’’ہاں ہاں۔۔ بھاگ جائو ورنہ وہ تمہیں زندہ نہیںچھوڑیں گے۔ تم کہیں رہو مگر زندہ رہو۔ یہی ہماری تمنا ہے، یہی ہماری دعا ہے‘‘
میرے ارد گرد میرے معصوم بچے مچل رہے تھے۔ ہم بھی پاکستان جائیں گے، ہم بھی پاکستان جائیں گے۔ میری چھوٹی لڑکی کہہ رہی تھی ’’بابا ۔۔۔ تانگہ منگواؤ میں بھی تمہارے ساتھ پاکستان چلوں گی‘‘ ۔ بھولی بچی پاکستان کو تانگہ نہیںجاتا۔پاکستان کو ہوائی جہاز جاتا ہے۔ پاکستان کو صرف مالدار مسلمان جاسکتے ہیں۔ تانگہ میں بیٹھنے والے مسلمانوں کے لئے پاکستان اتنی ہی دور ہے جتنی آسمانوں والی جنت۔ لیکن کیا اتنی وسیع و عریض زمین پر زندہ رہنے کے لئے پاکستان کے سوائے اور کوئی خطہ زمین ہے ہی نہیں۔۔۔۔ ؟
ہاں ، مسلمان صرف پاکستان میں اور ہندو صرف ہندوستان میں زندہ رہ سکتا ہے۔ حکمران سامراج اور سرمایہ دارانہ قیادت نے پنجاب کی سرزمین میں اسی لئے ایک چھٹا دریا کھود دیا ہے۔ خون کے دریا کے دونوں طرف ہندوستان زندہ آباد پاکستان زندہ آباد۔
مگر ساڑھے چار کروڑ ابراہیم جلیسوں کا نعرہ کیا ہے؟ ان کا وطن کہاں ہے؟ ان کی زندگی کدھر ہے؟ یہ سوچنے کا وقت نہیں ۔ یہ وقت نکلا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ بھاگو ۔۔۔ بھاگو۔۔۔۔۔اپنے ضعیف باپ سے دور جو مجھے بڑھاپے کا سہارا سمجھتا تھا۔ اپنے بھائیوں سے دور جن کے ساتھ میں زندگی کے پچیس سال گزارے تھے۔ اپنی حاملہ بیوی سے دور جو سات مہینے بعد میرا ایک اور جسم جنم دے گی۔ اور جسے شائد اب میں دیکھ بھی نہ سکوں۔ اپنے ننھے ننھے معصوم بچوں سے دور جنہیں پاکستان کی سیر کرانے کے لئے میں تانگہ نہ لاسکا۔
میں بھاگ رہا تھا۔ ہندوستان سے ’اسلام بھاگ رہا تھا اور جامع مسجد کے مینار جھک کر مجھ سے پوچھ رہے تھے، بتاو تم نے ہمیںکیوں سربلند کیا تھا؟۔تاج محل کے خوبصورت مقبرے میں ممتاز محل کی بے قرار روح پوچھ رہی تھی بولو ۔۔۔۔ مجھے کس شاہجہاں کے سپرد کئے جارہے ہو؟
رضاکاروں کی تیس ہزار لاشیں میرے قدموں تلے چیخ رہی تھیں۔ مملکت اسلامیہ حیدرآباد کے ہم آزاد پاشندوں کی آزادی بخش کر اب تم کہاں بھاگے جارہے ہو؟ ٹھہرو ۔۔۔ ٹھہرو۔۔مگر میں بھاگتا رہا۔ تیس ہزار رضاکاروں کی لاشوں کو الانگتا، پھلانگتا، جہیں اسلام کے نام پر اپنی زندگی لٹانے کے لئے بہکاتا رہا۔ اور اب میں بھاگ رہا تھا کیونکہ حیدرآباد میں پٹیل ڈیموکریسی، برلا ڈیموکریسی اور چودھری ڈیموکریسی داخل ہوچکی تھی۔
اب نہ میں ہندوستان میں تھا نہ پاکستان میں۔ اب میں ہندوستانی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت سے دورتھا۔ ۔۔ ایک اسلامی مملکت سے دوسری اسلامی مملکت میں ۔۔۔۔ یعنی میں مملکت خدادا دپاکستان کے دروازے پر ایک اجنبی بھکاری کی طرح کھڑا تھا جس کے کشکول میں صرف سات روپئے کچھ آنے باقی رہ گئے تھے‘‘ ۔