استقبالیہ کلمات اسسٹنٹ پروفیسر نصیب علی چودھری نے پیش کیے، جس میں انھوں نے اپنے مہمان خصوصی پروفیسر غضنفر کا تعارف کراتے ہوئے ان کے فن کی مختلف جہات بیان کیں۔ آپ ایک اچھے فکشن نگار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ساتھ ہی آپ اردو ادب کے ایک اچھے کالمیسٹ، خاکہ نگاراور تنقید نگار بھی ہیں۔ گفتگو کافی پرلطف ہوئی بالخصوص اردو ادب کے مایہ ناز فکشن نگار پروفیسر غضنفر کی گفتگو سے طلبہ مستفیض ہوئے۔ آپ کی باتیں پر مغز تھیں، آپ نے کئی چیزوں کو سامنے رکھ کر افسانے کا فن،اس کی روایت اور اس میں عہد بہ عہد ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندھی کی۔ آپ کی چند کتابوں میں کہانی انکل،کینچلی،مم، وش منتھن، مثنوی کرب جان، مانجھی، دویہ بانی،روئے خوش رنگ اور پارکنگ ایریا وغیرہ جن میں کچھ ناول اور افسانے قابل ذکر ہیں۔ ان کی گفتگو فنون لطیفہ سے شروع ہوئی اور اس کی شاخ ادب پر سیر حاصل کلام کیا۔ ان کی کچھ باتیں: "زبان ادب کے اظہار کا وسیلہ ہے” "ادب کا اصل مقصد انسانی قدروں کو اجاگرکرنا۔ انھوں نے کتھارسس یعنی تزکیہ نفس کو افسانے کےپیراے میں بیان کیا۔ انھوں نے پریم چند اور معاصرین پریم چند،ترقی پسندی سے وابستہ افسانہ نگار اور آزادی کے بعد افسانہ نگاروں میں ذہنی و فکری جو تبدیلیاں ہوئیں ان کی وضاحت کی صدارتی خطبہ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب نے دیا۔ اردو کے حوالے سے کم وقت میں زیادہ باتیں سمیٹنے کی کوشش کی۔انھوں نے پورے سینٹرل ایشیا کی زبانوں کا محاسبہ کرکے اردو کی بقا پر سنجیدہ گفتگو کی۔ ساتھ ہی انھوں پروفیسر غضنفر کی تخلیقی جہات پر سیر حاصل گفتگو کی اور ان کے افسانوں اور ناولوں کو عہد حاضر کے مسائل سے جوڑ کر اس کی اہمیت و افادیت کو پیش کیا۔ اختتامیہ ڈاکٹر پرویز اعظمی کے ایما پر جے این یو کے طالب علم جناب مجتبیٰ نے دیا۔ اس توسیعی گفتگو نے طلبہ و طالبات کی دل جوئی میں ایک اہم کردار انجام دیا جس سے طلبہ کے مستقبل کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں۔
لیکچر کے آخر میں طلبہ و طالبات نے فکشن اور اردو کی موجودہ صورت حال کے متعلق متعدد سوال کیے جن کے تشفی بخش جوابات مہمانی خصوصی پروفیسر غضنفر صاحب کی طرف سے دیے گئے۔