Articles مضامین

سعودی عرب کایوم تأسیس،یوم وطنی اور ہماری توقعات

ذکی نور عظیم ندوی- لکھنؤ

سعودی عرب کے قیام یعنی پہلی سعودی حکومت کے قیام کے تقریباتین سو سال ہونے والے ہیں۔در اصل 22 /فروری 1727ء کو امام محمد بن سعود (1710-1765) کے ذریعہ اس عظیم ملک کی پہلی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھااور اس کی یاد میں تقریبا دوسال قبل 27 جنوری 2022ء سعودی عرب کے موجودہ فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے شاہی حکم نامہ کے ذریعہ اب آئندہ ہر سال 22 فروری کو سعودی عرب کےیوم تاسیس کے نام سے پہلی سعودی حکومت کے قیام کی سالگرہ پر حکومتی سطح پرجشن منانے کا حکم صادر فرمایا تھا ۔اور اس طرح آج 22 /فروری 2024 ء کو سعودی عرب اپنے قیام اور تأسیس کا تیسرا جشن منا رہا ہے ۔یوم تأسیس کوسعودی عرب کا دوسرا قومی دن بھی کہا جاسکتاہے ،کیونکہ ہر سال 23 ستمبر کو سعودی عرب کا نیشنل ڈے (قومی دن) پہلے سے ہی منایا جاتا ہے کیونکہ 23 ستمبرکو سعودی عرب کےپہلے بادشاہ ، شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود رحمہ اللہ نے 5 شوال 1319ھ بمطابق 15 جنوری 1902ء میں سعودی عرب کے نام سے تیسری بار ایک متحدہ ریاست قائم کیا تھا۔اور 2005 میں سابق سعودی حکمراںشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود مرحوم نے ہر سال 23 ستمبر کو سعودی عرب کانیشنل ڈے (قومی دن) منانے اور اس کے لئے سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک پورے ملک میںاس دن بھی سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوںکے سعودی سفارت خانوں میں یہ دونوں دن بڑے جوش و خروش سے منائے جانے لگے ہیں۔سعودی عرب کےیوم تأسیس اور یوم وطنی کو سمجھنے کے لئے اس کےمختصر تاریخی پس منظر سے کسی قدر واقفیت ضروری ہے اس لئے اس سلسلہ میں چند اہم لیکن مختصر معلومات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔درحقیقت سعودی عرب کے قیام کوتین مرحلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلی سعودی حکومت کا قیام 22 فروری 1727ء : تقریباً تین سو سال قبل یکم رجب 1139ھ بمطابق 22 فروری 1727ء میں امام محمد بن سعود (1710-1765) نے سعودی عرب کی پہلی حکومت کی بنیاد رکھی تھی جس کو تاریخی طور پر پہلی سعودی ریاست و حکومت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس کی راجدھانی موجودہ سعودی راجدھانی شہر ریاض سے کم و بیش بیس پچیس کلو میٹر کی دوری پر واقع الدرعیہ نامی شہر تھی۔ امام محمد بن سعود کے ذریعہ قائم کردہ حکومت 1233ھ بمطابق 1818ء (91 سال) تک قائم رہی جس کا دستور قرآن و حدیث کے مطابق بنایا گیا تھا اور جومکمل طور پر اسلامی ریاست تھی۔ اس پہلی سعودی ریاست میں انھوںنے معاشی وسائل کے انتظام و انصرام اور مستقبل کی مضبوط منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کی کیوں کہ امام محمد بن سعود ایک متدین، دانشوراور مفکر تھے اور منصوبہ بندی اور اس کے نفاذ میں ممتازانسان تھے۔
جہاں تک اس پہلی سعودی حکومت کی راجدھانی کے طور پر الدرعیہ کےانتخاب کی بات ہے تو اس کی بنیاد گورنر مانع بن ربیعہ المرادی (موجودہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز کے بارہویں دادا) نے 850ھ بمطابق 1446ء میں رکھی تھی۔ کیونکہ درعیہ اس وقت تک تہذیب و ثقافت کا مرکز ، اپنے محل وقوع کے اعتبار سے جزیرہ نما عرب کے شمال اور جنوب کے درمیان تجارتی راستوں کا مرکز بن گیا تھا ۔ امام محمد بن سعود اور ان کے بعد دیگر حکمرانوں اور ائمہ کے زمانہ میں بھی درعیہ شہر ایک وسیع و عریض ملک کی راجدھانی اور اقتصادی، سماجی، فکری و ثقافتی اعتبار سے لوگوں کا مرکز رہا۔ اُس زمانہ کے بہت سے علماء نے مختلف دوسرے علاقوں سے منتقلی کے بعدوہاں سکونت بھی اختیار کی تاکہ حکومت کی نگرانی میں وقت کی ضرورت کے مطابق تعلیم و تصنیف کا کام انجام دے سکیں۔
دوسری سعودی حکومت کا قیام 1240ھ بمطابق 1824ء: پہلی سعودی حکومت کے خاتمہ کے سات سال بعد ہی مسلسل جد و جہد اور مضبوط حکمت عملی کے بعد 1240ھ بمطابق 1824ء میں امام ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود نے جوپہلی سعودی حکومت کے بانی اور روح رواں امام محمد بن سعود کے پوتے تھے نے دوبارہ فتح حاصل کی اور لوگ دوبارہ اس معزز شاہی خاندان کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ امام ترکی بن عبد اللہ نے ان تما اصولوں کی طرف خصوصی توجہ دی جن پر پہلی سعودی ریاست قائم کی گئی تھی اور تفرقہ بازی ، ا ختلاف و انتشار اور نفرت و عداوت کے بجائےپورے ملک میں امن و امان، تعلیمی اداروں کا قیام اور عدل و انصاف کو برقرار رکھنے اور دیگراہم ترین مقاصد کے حصول میں امام ترکی ابن عبد اللہ کامیاب ہوئے اور جزیرہ نمائے عرب کے بیشتر حصوں کو نہایت مختصر عرصے میں متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ریاست 1309ھ بمطابق 1891ء (67 سال) تک چلی۔
تیسری سعودی حکومت کا قیا م 5 شوال 1319ھ 15 جنوری 1902ء: تیسری اور موجودہ سعودی حکومت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود ہیں انھوں نے تقریباً دس سال تک جزیرہ نما عرب میںجاری رہنے والی سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کے ماحول پر کنٹرول کے بعد تیسری سعودی حکومت قائم کی۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے 17 جمادی الاولی 1351ھ بمطابق 23 ستمبر 1932ء کو تقریباً 30 سال کےلگاتار انتھک محنت کوشش کے بعد مملکت حجاز ، نجد اور اس کے مضافات میں واقع علاقوں سے گفت و شنید اور اتفاق کے بعد ایک تاریخی اتحاد کا اعلان کیا اور پھر اس کا نام مملکت سعودی عرب رکھا جو آج کا موجودہ ملک سعودی عرب کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
یعنی یکم رجب 1139ھ بمطابق 22 فروری 1727ء کو امام محمد بن سعود (1710-1765) کے ذریعہ سعودی عرب کی پہلی حکومت کی تأسیس کی یاد میں ہر سال 22 فروری کواب گذشتہ تین سالوں سے سعودی عرب کا یوم تأسیس اور 17جمادی الاولی 1351ھ بمطابق 23 ستمبر 1932ء کو مملکت حجاز ، نجد اور اس کے مضافات میں واقع علاقوں کے ساتھ اتفاق و اتحادکے بعد اس کے تاریخی اعلان کی یاد میں گذشتہ 19 سالوں سےہر سال 23 ستمبر کو سعودی عرب کا یوم وطنی (NationalDay) منایا جاتا ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تووہ میرے لئے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئےانفرادی اور ممتاز مقام کا حامل ہے وہ اسلام کا مرکز ومحور ہے ، وہاں قرآن کریم کا نزول ہوا ، وہ نبی اکرمﷺ کی اولین دعوت اور اسلام کی نشرو اشاعت ہی نہیں بلکہ اس کی حفاظت میں صدیوںسرگرم رہا اور اگر آئندہ بھی ہم سب سے پہلے کسی ملک و حکومت سےاس کی توقع اور حسب ضرورت اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو میری نظر اس کی جانب سب سے پہلے جانا ہی قرین قیاس ہے ۔حالیہ مہینوں میں اہل فلسطین پر جوظلم و جور جاری ہے اور جن شدید حالات سے وہ گزر رہے ہیں اس میں ایک بار پھر ہم سعودی عرب ، اس کے نوجوان اورعالمی، سفارتی و اقتصادی سطح پر نہایت تیزی سے ابھرتے ہوئے کامیاب ترین ولی عہد سے امید کرتے ہیں کہ وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی رہنمائی میں ایک بارپھراپنا وہ تاریخی کردار ضرور ادا کریں گے جس کی صدیوں سے سعودیہ اور اس کے حکمرانوں سے عام و خاص تمام مسلمانوں کو توقع رہی ہے۔

Related posts

ہندوستان کی کثیر آبادی کو درپیش مسائل

Paigam Madre Watan

شرک – ناقابل معافی ظلم 

Paigam Madre Watan

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar