تخلیق:مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ : شعری مجموعہ پرواز (تاثرات)
طائرِ تخیل کی پرواز کہاں نہیں، محسوسات وکیفیات کی وسیع وعریض دنیا کی سیاحت میں ہر جگہ راہیں ہموار نہیں ملتیں، شاہراہِ جذب وکیف میں ذراسی غفلت سے ٹھوکریں بھی مل جاتی ہیں۔ لہذا: ع ’’چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا‘‘ [غالب]
انجمن شعر وادب میں زندگی کے ہر رنگ نظر آتے ہیں ، مگر شرط ہے کہ:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہے دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی [ اقبال]
جناب عزیز الرحمن سلفی استاد جامعہ سلفیہ بنارس کا شعری مجموعہ’پرواز‘ زیرِ نظر ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر رنگ میں اپنی چشم کو وا رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ زیرِ نظر مجموعہ میںنظمیں ، غزلیں اور چند رباعیاں ومتفرق اشعار شامل ہیں۔ یہ مجموعہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ:’صدائے دل نواز ودل فروز ‘ کے عنوان سے ہے۔ یہاں اپنی ’پرواز‘ میں سب سے پہلے حمد ونعت کے مقدس دیار کی سیر کرتا ہے۔ یہاں اکثر مقام پر کانوں میں رس گھولتی ہوئی’صدائے دل نواز‘ بھی سنائی دیتی ہے۔ بہت سے مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اپنا دیدۂ دل وا کرکے شاہراہِ حمد ونعت سے گزرا ہے۔ اس کے جذبوں کی صداقت ہر جگہ ضوفشاں ہے۔ شاعر کا دل جوشِ ایمانی کی شرابِ طہور سے سرشار ہے۔ جذب وکیف کی سرمستیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ خالق کائنات کی بارگاہ میںشاعر ہر جگہ دست بہ دعا اور سربسجود ہے۔
چہار سو کائنات اور رموزِ کائنات کی حیرت ناکیاں ہیں، حسنِ ازل کی جلوہ سامانیاں شاعر کی نظر کو خیرہ کیے دیتی ہیں اور نظم ’ ہے اسی کی صناعی‘ وجود میں آجاتی ہے۔ نظم ’ مجھ کوبھی آسرا ہے تری اک نگا ہ کا ‘ کئی مذہبی تلمیحات سے بھری ہوئی ہے۔ نظم ’اللہ اکبر اللہ اکبر‘ سر مستی وسرشاری میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ان نظموں میں ایمان کی حرارت ہے، یقین کی پختگی ہے۔ اس قبیل کی نظمیں ایمان کو تازہ کرتی ہیں اور اعمال کو آئینہ دکھاتی ہیں۔ عزیز صاحب کی حمدیہ اور نعتیہ نظمیں دل کی گہرائیوں سے لکھی گئی ہیں۔
[نظم:تو ہے مطلوب مرا]
سر خمیدہ ہیں ترے سامنے یہ کوہ وفلک
تیری تقدیس کے قائل ہیں ترے جن وملک
ماہ وخورشید کی کرنوں میںنہاں تیری جھلک
عرش سے پھیلی ہے صناعی تری فرش تلک
پڑھتے طائر بھی نشیمن میں ہیں کلمہ تیرا
تو ہے مطلوب مرا، تو ہے مقصود مرا
[نظم : مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات]
اے خدائے دو جہاں لم یزل ، مرے جرم پر نہ عذاب دے
تو غفور ہے تو رحیم ہے، نہ جہنمی کا خطاب دے
بدعات کی آندھی ہے ہر سو، معدوم ہے روحِ ایمانی
الحاد کے خرمن پر نازل، پھر کوئی شرارا ہو جاتا
[نظم حسنِ طلب]
ان حمدیہ اور نعتیہ نظموں میں محض جذبات کا وفور ہی نہیں بلکہ مقصدیت وافادیت بھی ہے۔ یہ نظمیں ان کے دینی ومذہبی تشخص کی آئینہ دار ہیں۔ سب سے بڑے حکیم پیغمبر اسلام کے لیے اپنی نظم ’اندازِ حکیمانہ‘ میں شاعر درود وسلام کا نذرانہ لے کر آتے ہوئے دست بدعا ہے:
قبول میرا درود وسلام ہو یارب
عزیزؔ لایا ہے درپہ حقیر نذرانہ
دوسرا حصہ : ’منظومات(مربوط اور غیر مربوط خیالات) ہے۔ یہاں داخلیت اور خارجیت کے ملے جلے رنگ ہیں۔ اس حصہ میں کل ۳۶ نظمیں ہیں جس میں کچھ سماجی وسیاسی نوعیت کی ہیں، کچھ کسی شخصیت کے سانحۂ ارتحال پر ہیں۔ فرمائشی نظموں میں تہنیتی اور استقبالیہ بھی ہیں۔ دیوالی وہولی پر لکھی گئی نظمیں تصویر کے روشن اور تاریک رخ پیش کرتی ہیں:
[تصویر کا پہلا رخ]
آئی دیوالی گھر گھر چراغاں ہوا
بام ودر دیکھو گلشن بداماں ہوا
ہر محل میںہے خوشیوں کا ساماںہوا
خوب اظہارِ شوقِ فراواں ہوا
کتنی پریاں ہیں مصروفِ رقص وغزل
جگمگا اٹھا ہے نور سے ہر محل
[تصویر کا دوسرا رخ]
کوئی بیوہ دل اپنا دبائے ہوئے
اپنی پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے
بچھڑے پیتم کو دل میں بسائے ہوئے
میلے آنچل میںچہرہ چھپائے ہوئے
رات بھر کروٹیں وہ بدلتی رہی
اور دیوالی ہنستی ہنساتی رہی
اسی طرح ہولی پر بھی دو نظمیں ہیں پہلا رخ شادمانیوں کا مظہر ہے اور دوسرا رخ مذہب سے ہٹ کر کھیلی ہوئی ہولی کی ہولناکیوں کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے عناصر ان کی بہت سی نظموں میںملتے ہیں۔ان کی بعض نظموں سے سماجی اور سیاسی صورتِ حال پر بھی بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ ان کی ان نظموں میں انسان دوستی ، درد مندی ، محبت اور اخوت کا جذبہ ہے۔ شاعر کا حساس دل مساوات، بھائی چارگی اور قومی ہم آہنگی کا آرزو مند ہے۔ ’کاشی (بنارس ) کے فساد کی خبر سن کر‘ نظم کا ایک شعرہے:
عصمت وناموسِ سیتا کا نہ کچھ دل میں خیال
رام اور تلسی کی عزت کردیا ہے پائمال
عزیزؔ سلفی کی کئی نظمیں خارجی عناصر کے ساتھ ساتھ داخلی عناصر سے بھی گہرا واسطہ رکھتی ہیں۔ نظم ’التجا ‘ میں زمینی عشق کی خوشبو ہے۔ نظم ’اے مری اردو زباں‘ رومانوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ’لیلائے وطن‘ سلمائے وطن اور زلیخائے وطن جیسی خوبصورت فارسی تراکیب کے استعمال سے نظم کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نظم خوبصورت تشبیہات واستعارات سے آراستہ ہے۔ تلمیحات کے استعمال نے خیال کے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ نظم کے آخر میں شاعر نے اپنے نام کوخوبصورت انداز سے استعمال کیا ہے۔
ہے فدا تیری لطافت پہ عزیز الرحمان
اے مری اردو زباں اے مری اردو زباں
عزیز الرحمن صاحب نے ایک حمدیہ نظم میں بھی اپنے تخلص کا استعمال فنکارانہ حسن کے ساتھ کیا ہے ، مثلاً ’ میں عزیز ہوںتو عزیز گر‘‘۔
عزیز ؔ صاحب کی شاعری جابجا ان کی قادر الکلامی کا پتہ دیتی ہے۔ بعض بعض مقام پر ان کے یہاں زبان وبیان کے استعمال میںلاپروائی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مثلاً غزل کا درج ذیل شعر ذوقِ سلیم پر بارگذرتا ہے:
پود کیا کیا لگائی کس کس نے
عشق کی پود ہم لگائے ہیں
ان کی نظم ’ترانۂ زائرین بیت اللہ شریف ‘ کا ایک بند ہے:
ادب گہہِ حضور ہے سنبھل سنبھل کے رکھ قدم
طرب گہہِ حضور ہے اچھل اچھل کے رکھ قدم
کرم گہہِ حضور ہے مچل مچل کے رکھ قدم
عزیزؔ چینِ دل، سکونِ ایماں پارہوں میں
تارِ دل کے ساز پر نغمہ گا رہاہوں میں
خوش نصیب ہوںکہ آج کعبہ جا رہاں ہوں میں
لفظ کی تکرار کبھی کلام کے حسن میں اضافہ کرتی ہے اور کبھی کلام میں عیب کا سبب بنتی ہے۔ بلاشبہ یہاںتین مصرعوں میں جس طرح تکرار سے کام لیا گیا ہے اس سے حسن وروانی پیدا ہو گئی ہے۔ بعد کے بند میں قافیہ، گانا اور جانا ، کے ساتھ ’نغمہ اور کعبہ کے قافیہ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہاں ’نغمہ گا رہاہوں ‘ کے بجائے اگر ’نغمے گا رہا ہوں ‘ لکھا جاتا تو زبان وبیان کا حسن برھ جاتا ۔ یہاں مجھے مجاز ؔ کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:ع ’ میں آہیں بھر نہیں سکتا میںنغمے گا نہیں سکتا ‘۔
تیسرا اور مختصر حصہ ’فریادِ نے‘کے نام سے غزل پر مشتمل ہے:۔ عزیز الرحمن صاحب کی غزلیں روایتی اور کلاسیکی مزاج کی حامل ہیں، لیکن عصری حسیت سماجی اور سیاسی مسائل کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔ ان کی غزل کو غزل کے بدلتے رجحانات ومیلانات کے پیمانے سے ناپنا شاعر کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ پھربھی ان کی غزلوں میں ایک پر خلوص جذبہ ہے۔ یہاں غزل کا اپنا مخصوص اور جانا پہچانا لب ولہجہ ہے۔ یوں بھی اقبالؔ کی زبان میں:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
عزیزؔصاحب کی’’ فریادِ نے ‘‘ بہر حال تاثیر سے خالی نہیں۔
ہیں جھکی جھکی نگاہیں کوئی سو گوار کیوں ہے
مرا دل مسل کے آخر کوئی شرمسا ر کیوںہے
نذ ر کر دی جو مرے پاس تھی دل کی سوغات
ہائے وہ دل نہ ترے کام کے قابل نکلا
جانے اس زخم پہ اب کون رکھے گا مرہم
یہ مسیحا تو مرے درد سے غافل نکلا
ہزاروں دل میں تمنائیں پالتا ہوں یہاں
تمہارے درپہ نظر بار بار کرتا ہوں
عزیزؔ اک توبہ شکنی معاف کردو
کہ زلفِ مہ جبیں لہرا رہی ہے
ضروری نہیں کہ ہر فکر وخیال کا طائررفعتِ پرواز تک پہنچی ہی جائے۔ یہ سعادت تو غالب کے ہی حصہ میں آئی۔ غالبؔ کے لیے اقبال ؔ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا ـ:
ع:’ محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر ، ۔ زیر نظر مجموعہ ’پرواز‘ کے پرِ پرواز پر نظر کرتے ہوئے اس کی حدِ پرواز کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔
یہ نکتہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ ادبی دنیا سے عزیز الرحمن سلفی صاحب کا براہِ راست واسطہ نہیںہے۔ اس راہ کے باقاعدہ شہسوار نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے جتنی منزلیں سر کی ہیں، ان کو سراہنا چاہئے۔ امید ہے کہ مذہبی اور ادبی حلقوں میںاس مجموعہ کی پذیرائی ہوگی۔ اس لحاظ سے بھی شاعر کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ اس پہلے شعری مجموعہ میں بھر پور شعری امکانات کی چنگاریاں ہیں۔ یہاں ان کی شاعری کا بڑا حصہ مذہبی فضا میں سانس لیتا ہے ۔ ان کا دینی تشخص ان کی فکر پر سایہ فگن ہے۔ یہی ان کا سرمایۂ افتخار بھی ہے اور مقصد ِ حیات بھی۔ اے خالقِ کون ومکاں! شاعر کے نذرانۂ جذبِ دل کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے:’’ اوڑھالے چادرِ رحمت تو ہے رحمان بخشندہ‘ [عزیز]
ڈاکٹر نفیس بانو، پروفیسر ایسو سی ئیٹ
صدر شعبۂ اردو، وسنت کالج
فار ویمن، راج گھاٹ، بنارس