Articles مضامین

قرآن مجید کی تلاوت اور ہم فرزندان توحید

ابوسعید محمدھارون انصاری
نائب ایڈیٹر: ماہنامہ قلم اردو نیپالی

قرآن عظیم رب دوجہاں کا وہ معجزانہ کلام ہے جو خاتم الانبیاء جناب محمد رسول ﷺ پر حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے سے نازل کیا گیا،جومصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر کے ساتھ ہمارے پاس چلاآرہا ہے جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے ، جس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے ہوا اور اختتام سورۃ الناس پر ہوتا ہے۔قرآن عظیم کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیاہے(۱)الکتاب(۲)الفرقان(۳)التنزیل(۴)الذکر (۵)النور(۶)الہدی(۷)الرحمۃ(۸)احس الحدیث(۹) الوحی(۱۰)الروح(۱۱)المبین(۱۲)المجید(۱۳)الحق۔یہ وہ اسماء ہیں جن کا تذکرہ قرآن حکیم کے اندر موجود ہے ملاحظہ فرمائیں(حقائق حول القرآن للشیخ محمد رجب ،والتبیان فی اسماء القرآک للشیخ البیہقی)۔
قرآن کریم کے بارے میں امام مالک کے دور میں زبردست اختلاف رونما ہوا تھا لوگ اس کو مخلوق تسلیم کرتے تھے مگر امام مالک اس کو بار بار کہتے تھے کہ یہ خلاق دوعالم کا کلام ہے لیکن بادشاہ وقت ایک نہیں سنتا تھا کیونکہ وہ بھی اُسی مکتب فکر تھا،وہ اُنہیں لوگوں کی بات تسلیم کرتاتھا جو یہ کہتے تھے کہ قرآن’’ مخلوق‘‘ ہے۔لیکن امام مالک نے ہرممکن کوشش کی کہ لوگوں کوباورکرایا جائے کہ قرآن اللہ کا معجزاتی کلام ہے، اُن کوُ اسی پاداش میں قید خانہ کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔حاصل کلام یہ کہ جوشخص قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے اور اسلام سے خارج بھی،کیونکہ قرآن اپنے حروف اور معانی سمیت حقیقت میں اللہ کا کلام ہے۔
دنیا میں منزل من اللہ توریت ،زبور اور انجیل یہ ایسے صحیفے ہیں جن کو اللہ نے لوگوں کی رشدو ہدایت کے لئے انبیاء پر نازل فرمایا مگر اُن کی امتیوں نے اِ س کے اندر تحریف کرڈالے،یہ صحیفے آج اپنی اصلی شکل وصورت میں باقی نہیں ہیں۔ محمد ﷺاللہ کے آخری رسول ہیں اور خاتم الانبیاء بھی اِن پر اللہ جل شانہ نے رمضان المبارک کے متبرک ماہ میں دنیا کی وہ عظیم اور آخری کتاب کو نازل فرمائی جو رہتی انسانیت کے لئے تاقیامت راہ ہدایت ہے،اس کتاب کا معجزہ یہ ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کے چینجنگ اور تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی کی جاسکتا ہے ۔ہاں تجربے بہت ہوئے پر سبھی لوگوں کو راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اندر فرمایا(بیشک قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے)(الحجرات:۹)یہی وجہ ہے ہلاکو خان اور دیگر سفاکوں کے دور میں حفاظ اورعلماء کرا م کا قتل عام کرایا گیاتاکہ قرآن کا خاتمہ ہوجائے دنیا سے اس کا وجود نیست و نابود ہوجائے مگر اللہ رب العالمین نے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے سر لی ہے اس کوبھلا کیسے ختم کرنا ممکن ہوگا۔
دنیا کے اندر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کے قاری لامتناہی ہیں۔اور یہی وہ کتاب ہے جس کو لوگ بغیر سمجھے ہوئے بھی پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وہ کتاب ہے جس کے ۳۰سو پارے ہمارے معصوم بچے کم مدت میں اپنے سینے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حزب اختلاف دین لوگوں نے ا س دور میں بھی قرآن کو صفحہ ہستی سے مسح کرنے کی ناپاک سازشیں کیں مگر وہ اِس سازش میں ناکام رہے۔یہ ایسی کتاب ہے جس کو اللہ اپنی حکمت اور قدرت اور معجزے کے ذریعہ تاقیامت محفوظ رکھے گا۔قرطاس پر طبع شدہ قرآنی آیات کو مسح کیا جاسکتا ہے مگروہ قرآن جس کو اللہ مصلحتا ایک معصوم کے سینے میں بچے کے سینے میں محفوظ کردیاہے اس کو کیسے مٹایا جاسکتا ہے۔(ان اللہ علی کل شئی قدیر)
تعجب کی بات ہے کہ قرآن مجید کو جبریل امیں نے جس حالت میں سونپی تھی آج تک اللہ کے فضل وکرم سے اسی حالت میں موجود ہے۔اگر کوئی شخص قرآن مجید میں کمی اور زیادتی کا عقیدہ رکھے تو دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ذکر قرآن مجید کی چل رہی ہے اس لئے ضرری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے بارے میں کچھ اورمعلومات ثبت قرطاس کردی جائیں تاکہ قاری کے معلومات میں اضافہ ہو۔قرآن مجید اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا نازل کردہ وہ معجزاتی کلام ہے جس کواللہ کے حکم سے بیت العزت سے سماء دنیا پر ایک ساتھ رکھ دیا گیا اب وہاں سے حسب ضرورت ۲۳ سالوں تک اللہ کے رسولﷺ پر جبریل امیں قرآن کولاتے رہے۔ہررمضان میں جبریل امیںآتے اورقرآن (۱۱۴ سورتوں)کادورہ کرایا کرتے تھے۔قرآن کل تیس پاروں پر محیط ہے جس میں ۵۴۰ رکوع ،۶۲۳۶ آیات،۷۷۴۳۹ کلمات ہیں (حقائق حول القرآن للشیخ رجب)حروف کی تعداد ۳۴۰۷۴۰ اور سجدے پندرہ ہیں (سنن ابی داؤد کتاب سجودالقرآن)
تلاوتِ قرآن:۔
تلاوت قرآن کی ایک قسم تلاوتِ لفظی اور دوسری تلاوتِ حکمی ہے ،جورسولﷺ کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور احکام شرعیہ کی اتباع بلکہ تمام مامورات کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کا نام ہے۔دراصل نزول قرآن کا مقصد یہی تلاوت حکمی ہی ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے (ہم نے آپ پر یک بابرکت کتاب نازل کی ہے چاہئے کہ اہل خرد اس کی آیتوں پر غور کریں اور عبرت حاصل کریں(ص:۲۹)
قرآن مجید کو اللہ رب العالمین نے قیامت تک پیداہونے والے لوگوں کے لئے درس عبرت بنایا جو راہ ہدایت دکھاتا ہے ،سچے راستے پر چلنے اور اسلامی اصول مبادئی کی پیروی کا حکم دیتا ہے،صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرتا ہے۔قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہئے ۔نہ صر ف تلاوت بلکہ عمل بھی کرنا واجب ہے۔
حضرت سمرہ بن جندبؓ کی لمبی روایت آتی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک روز نماز فجر کے بعد بیان فرمایا :رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جو چت لیٹا ہوا تھا اس کے پاس دوسرا شخص پتھر لئے کھڑا تھا وہ سوئے ہوئے شخص کے سر پر جو نہی پتھر مارتا سر چور چور ہوجاتا اور پتھر دور جاگرتا آدمی پتھر لے کر جب تک واپس آتا اس کا سر پہلے کی طرح درست ہوجاتا اس طرح اس کے ساتھ برابر ہوتا رہتا آپ ﷺ نے جبریل امیں سے پوچھا یہ کون ہے انہوں نے کہا آگے بڑھئے پھر جبریل نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے قرآن پڑھا پھر اس کو چھوڑ دیا اور پنجوقتہ نماز سے لاپرواہی کرتا رہا(البخاری الجنائز(۱۳۲۰؍احمد۵؍۹ صحیح بخاری)
عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال:قال رسولﷺ یُمثّل القرآن یوم القیامۃ رجلاً فیُؤتی بالرجل قد حملہ فخالف أمرہ فیُمثّل لہ خصما فیقول: یا رب حَمّلتہ ایاي فبئس الحامل تعدّی حدودي وضیع فرائضي ورکب معصیتي وترک طاعتي فما یزال یقذف علیہ بالحجج حتی یقال: شانک بہ فیأخذ بیدہ فمایرسلہ حتی یکبہ علی منخرہ فی النار(عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعا مروی ہے کہ قرآن قیامت کے روز ایک انسان کی شکل میں لایا جائے گا پھر قرآن کوایسے شخص پر پیش کیا جائے گا جس نے قرآن سیکھا لیکن اوامر کی مخالفت کرتارہا پھر قرآن کو اس کا فریق مخالف قرار دیا جائے گا پھر یہ اللہ تعالی سے کہے گا کہ اے میرے رب!مجھے ایک بدترین شخص ملا جس نے میرے حدودکوپامال کیا فرائض کو ضائع کیا معصیت کا ارتکاب کیا اور طاعت سے اجتناب کیا یہ شخص برابر اس پر حجت قائم کرتا رہے گا،یہاں تک کہ حکم الہی ہوگا کہ اسکے معاملہ کو تم خود حل کروقرآن اس شخص کا ہاتھ پکڑلے گا او رچہرے کے بل جہنم میں پھینک دے گا۔
قرآن وہ آسمانی کتاب ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل کردیا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ،قرآن اتنا بھاری اور بھرکم وزن کے اعتبار سے نہیں ہے مگر اہمیت ،فضیلت،رشدوہدایت ،امرونواہی،احکام الہیہ کے اعتبار سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے مگر انسان اس کی عظمت کو نہ ہی سمجھتا ہے اور اور نہ اس کے کان اس کو سننے کے لئے روادار ہوتے ہیں،نہ ہی دل میں خشیت ،آنکھوں میں نمی کے نشان پائے جاتے ہیں۔
جب ہم قرآن کی تلاوت احکام کی پابندی ،امرونواہی کا پاس ولحاظ نہیں کرتے تو پھر ہم کیسے اور کیونکر قرآن (اپنے فریق )سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں۔
تلاو ت قرآ ن اور ہم:۔
چونکہ قرآن مجید کو اللہ عزوجل نے رمضان المبارک کے متبرک ماہ میں نازل فرمایا اس لئے اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا اجر سترگناہے۔لیکن عقل و فہم سے عاری قوم اس مہینہ کی اہمیت کو نہیں سمجھتی ہے اس مہینہ میں بکثرت تلاوت کرنا چاہئے اور قرآن کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔لہو ولعب سے دور قیمتی لمحات میں اللہ شانہ کی رضاجوئی کے لئے عبادت وریاضت کرنی چاہئے۔آج کے پُر فتن دور میں مغربی تہذیب وتمدن نے فرزندان توحید کو اسلامی تہذیب ثقافت سے بہت دور اُٹھاکر پھینک دیا ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں آیا ہے کہ ان کے پاس ہے آنکھ ہے مگر دیکھتے نہیں، کان ہے مگر سنتے نہیں عقل ہے مگر سمجھتے نہیں۔۔۔۔۔۔سستی اور تغافلی انسانی زندگی کا جزء لاینفک امور بن گیا ہے عقل و خرد سے پیدل قوم نہ تو اپنے مقصد خلقت کو سمجھتی ہے اور نہ ہی عالم ارواح میں کئے گئے وعدہ کو یادکرتی ہے ۔انسان کے اذہان وقلوب جب زنگ آلود ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی سلیم الفطری کو کھوبیٹھتا ہے ایسے میں حلت وحرمت نفع اور نقصان کے مابین تمیز بھی نہیں کرپاتا جس کی سب سے بری وجہ کلام الہی سے روگردانی ہے ۔قرآن انسان کے دلوں کی آبیاری کرتا ہے اور اس کے عزم وحوصلہ کو صیقل کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے زندگی کے اندر پیدا شدہ اضطرابیت کو مسح کرتا ہے اور دلوں کے اندر طمانیت پیداکرتاہے ۔یہی وجہ کہ انسان جب دل کا مریض ہوجاتاہے تو اسے قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد سکون محسوس کرتاہے۔
تلاوت کیسے کریں:۔
تلاوت کرنے کا آسان سا طریقہ ہے کہ ہم باوضوہوکر قرآن کو سمجھ سمجھ کر پڑھیں اور اگر پڑھنے کا ہنر نہیں ہے تو کم ازکم پڑھنے والے کے پاس بیٹھ کر قاری کو سنے کیونکہ سننے میں بھی فائدہ ہے۔اگر قرآن روانی کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا تو اس میں ذرا بھی سوچنے کی بات نہیں کیونکہ جو لوگ رک رک کر پڑھتے ہیں اٹک اٹک کر پرھتے ہیں ان کو اس کا دوگنا اجر ملتاہے۔
ہم تلاوت کیسے کرتے ہیں:۔
رمضان المبارک کا ماہ سایہ فگن ہوتے ہیں سالوں سے جزدان میں بند قرآن مجید کوباہر لے آتے ہیں اور مصلیٰ بچھا کر پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،لیکن یہ تلاوت دوچند ہی روز کا مہمان ہوتا ہے رفتہ رفتہ دلوں سے قرآن کی عظمت اہمیت ختم ہوتی نظر آتی ہے،اور پندرہ رمضان ہوتے ہوتے نہ مسجدوں میں نمازی باقی رہتے ہیں او ر نہ ہی قرآن پڑھنے والے،ویسے ابتدائے رمضان میں ہر فرض نماز کے بعد لوگ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،یہ بہت بڑا المیہ بن گیا ہے کہ لوگ ریاء اور نمود کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ لوگ دکھاوے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں بھول جاتے ہیں کہ وہ دنیا کی وہ معظم کتاب پڑھ رہے ہیں جس کے پڑھنے سے دل کو سکون اور دوجہان میں کامیابی ملتی ہے ۔ایسے قاری قرآن کی اللہ قطعی ضرورت نہیں قرآن کو ترتیل اور سمجھ سمجھ کر پڑھا جائے یہی قرآن کا تقاضہ بھی ہے ۔

Related posts

شيخ الحديث علامه علي حسين علي سلفي رحمه الله

Paigam Madre Watan

تربیتی اجتماع خطابات،پیغامات،تاثرات

Paigam Madre Watan

علامہ اقبال : ایک ہمہ گیر شخصیت

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar