از: جاوید اختر بھارتی
رمضان کے تیس روزے رکھنے کے بعد امت مسلمہ نے عید الفطر کا تہوار منایا مسجدیں ویران ہونا شروع ہوگئیں یعنی نمازیوں کی تعداد گھٹنے لگی جبکہ اذانیں آج بھی ہورہی ہیں اقامت آج بھی کہی جارہی ہیں کم تعدد میں ہی مگر جماعت آج بھی قائم ہورہی ہے ائمہ مساجد آج بھی مصلے پر کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہتے ہیں حمد وثنا پڑھتے ہیں سورہ فاتحہ اور قرآن مقدس کی آیات تلاوت کرتے ہیں مگر اب مائک نہیں لگانا پڑتا آخر کیوں؟ کل تک اذان ہونے کے بعد تھوڑا تاخیر ہوجانے پر وضو خانے کے قریب جگہ ملتی تھی اور آج جماعت کے دوران مسجد میں پہنچنے پر پہلی صف میں جگہ مل جاتی ہے اس موضوع پر زید و بکر نے مکالمہ کیا ، بحث و مباحثہ کیا یعنی زید نے بکر سے پوچھا کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی مسجد آباد اور شوال کا چاند نظر آتے ہی مسجدیں ویران آخر کیوں؟ بکر نے کہا کہ اصل میں رمضان کا چاند نظر آتے ہی اجر و ثواب میں اضافہ ہوگیا سنن و نوافل کا درجہ فرض کے برابر ہوگیا اور ایک فرض ستر فرض کے برابر ہوگیا اس لئے لوگوں نے جب یہ آفر سنا تو مسجدیں آباد ہوگئیں نمازیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئ اور جب شوال کا چاند نظر آیا تو پھر گیارہ مہینے والا حساب شروع ہوگیا اس لئے نمازیوں کی تعداد کم ہو گئیں اور مسجدیں ویران ہونے لگیں-زید نے کہا کہ اس کا مطلب کہ تم صرف آفر کا فائدہ اٹھانے کے لئے مسجدوں میں جایا کرتے تھے اور نمازیں پڑھا کرتے تھے اور آفر ختم ہوتے ہی پہلے والی حالت اور عادت پر برقرار ہوگئے تو بکر نے کہا کہ کچھ ایسا ہی سمجھ لیں-زید نے کہا کہ رمضان میں تم دو وقت کھانا کھاتے تھے اور شوال کا چاند نظر آتے ہی تین وقت کھانا شروع کردئیے،، بیچ بیچ میں ناشتہ پانی کرنے لگے اس پر نظر نہیں جاتی اگر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلسل گیارہ مہینے تک ایک وقت کا کھانا ختم کردے تب تم کیا کروگے تو زید نے کہا کہ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے وہ ایسا کیوں کرے گا وہ رحیم وکریم ہے رحمٰن و مہربان ہے تو زید نے کہا کہ وہ قہار و جبار بھی ہے تم اسے رحمٰن و رحیم مانتے ہو تو اس کی قہاریت و جباریت کو کیوں بھول جاتے ہو ؟زید نے بکر سے کہا کہ تم اسے یہ بھی مانتے ہو کہ وہ بے حساب دینے والا ہے تو پھر اتنی جلدی اپنا طرز عمل کیوں تبدیل کردیا تو زید کی بات سن کر بکر خاموش رہ گیا اور وہ کوئی جواب نہیں دے سکا-عید الفطر کے دوسرے ہی دن جمعہ پڑ گیا اور پہلے کی طرح دو رکعت فرض ادا کرنے کے بعد لوگوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا گیا سوال یہ پیداہوتاہے کہ کب تک دورکعت پڑھ کر ہم بھاگتے رہیں گے دنیا میں کون ہمارا مددگار ہے کون خلاق کائنات ہے کون رزاق ہے ؟؟؟خود اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو اپنے کاروبار بند کردو اور جب فارغ ہو جاؤ تو زمین پر پھیل جاؤ اور روزی تلاش کرو ،، تو پھر اتنی جلد بازی کہ ادھوری نماز پڑھ کر ہی زمین پر پھیلنے لگے خدارا روزی کی تلاش کرو مگر روزی دینے والے کو بھلا کر نہیں ، اس کی نافرمانی کرکے نہیں ، اس کی آدھی ادھوری عبادت کرکے نہیں بلکہ مکمل کرکے دوسرا کام کرو ،، کل تک تم اذان مغرب کا انتظار کرتے تھے اور آج خود مسجد تمہارا انتظار کرنے لگی ،، اللہ سے ہمیں ڈرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مساجد اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرنے لگیں،، یاد رکھیں جو نعمتیں دینا جانتا ہے تو وہ نعمتوں سے محروم کرنا بھی جانتاہے-یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ابھی چند دنوں قبل پوری آبادی میں رمضان مبارک کی چہل پہل ، سروں پر ٹوپی، افطار و سحر کے سامانوں کی دکان مساجد میں وضو خانے سے لے کر محراب و منبر تک نمازیوں کی بھیڑ ، چوبیس گھنٹے میں پانچ وقت جوق درجوق مساجد میں داخل ہونا اور باہر نکلنا ایسا عظیم الشان ماحول اور ایسا پاکیزہ معاشرہ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر غور کریں کہ یہ سلسلہ بارہ مہینوں تک برقرار رہتا تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ سب کچھ بدل گیا اور اتنا بدل گیا کہ بڑی تعداد میں مسلمان جمعہ جمعہ مسجد میں جانے لگا اور پتہ نہیں خوف خدا وندی کی بنیاد پر یا سماج و معاشرے کے لعن و طعن سے بچنے کی بنیاد پر نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن جمعہ میں خطبہ دیتے ہوئے ( زید/ امام)کی نگاہ بکر پر پڑ ہی گئی جو کاندھے پر رومال بھی ڈالے ہوئے تھا اچھے اچھے کپڑے بھی پہنے ہوئے تھا اور خوب عطر بھی لگائے ہوئے تھا ہاتھوں میں تسبیح بھی تھی اور اگلی صف میں بیٹھا ہوا تھا بالآخر نماز جمعہ کے زید نے بکر سے سوال کرہی دیا کہ جناب گذشتہ جمعہ کے بعد سنیچر سے لے کر جمعہ کے دن فجر تک یعنی ایک ہفتہ تک مسجد میں نظر نہیں آئے آج کیا بات ہے کہ برق دم اور تروتازہ ہوکر اگلی صف میں بیٹھ گئے تو بکر کہتا ہے کہ بات یہ ہے امام صاحب کہ آج جمعہ کا دن ہے تو زید نے کہا کہ کیا سنیچر سے لے کر جمعہ کی فجر تک نماز معاف تھی کہ نظر نہیں آئے ؟ تب بکر کہتا ہے کہ امام صاحب آپ بات سمجھ نہیں رہے ہیں ارے آج جمعہ کا دن ہے تب امام نے پھر کہا کہ وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آج جمعہ کا دن ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ چاہے جنگ میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز معاف نہیں ، حالت بیماری میں ہیں پانی نقصان کرسکتاہے تو تیمم کیا جاسکتا ہے ، کھڑے ہو کر طاقت نہیں تو بیٹھ کر پڑھا جاسکتا ہے بیٹھ کر پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹ کر پڑھا جاسکتا ہے ، اشارے سے پڑھا جاسکتا ہے مگر نماز معاف نہیں پھر ایک ہفتہ نماز کے لئے نہیں آئے تو پھر آج جمعہ کے دن کیوں آئے کیا باقی دنوں میں تمہارے لئے چھوٹ تھی؟ تب بکر بولتا ہے امام صاحب آپ سمجھنے کی کوشش کریں آج جمعہ کا دن ہے ارے آج بھی جمعہ پڑھنے نہیں آتا تو گاؤں محلے والے کیا کہتے کہ یہ کیسا شخص ہے جو جمعہ پڑھنے بھی نہیں جاتا اب زید کہتاہے کہ اوہ! یہ بات ہے یعنی ایک ہفتہ بعد آج جمعہ پڑھنے بھی آئے ہوتو نماز قائم کرنے کی نیت سے نہیں، احکام خداوندی اور خوف خدا کی بنیاد پر نہیں بلکہ گاؤں محلے والوں کی نظروں سے بچنے کے لئے آئے ہو ارے نادان کم از کم اتنا تو سوچ کہ جب تو ہفتے میں جمعہ پڑھنے آتا ہے تو وہ پروردگار تجہکو عوام کی نظروں میں رسوا ہونے سے بچا لیتا ہے تو وہ کتنا مہربان ہے اگر تو روزانہ پنج وقتہ نماز کے لئے مسجد میں آئے گا تو وہ تجھے کتنی عزت عطا فرمائے گا خود اپنی ہی باتوں پر غور وفکر کر اور فیصلہ لے کہ آگے کی زندگی کیسے گزارنا ہے –