تصنیف:مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ:رشحات قلم (مطبوع)
بچپن کی بعض باتیں مجھے اب تک یاد ہیں اور اب ان سے نصیحت ملتی ہے ہمارے دادا مرحوم (متوفی ۱۹۶۷ء ) بڑے سیدھے سادے اور اپنے باپ حاجی محمدشریف کے بڑے لڑکے تھے۔ حاجی محمدشریف خود کئی بھائی تھے ان کے بھائیوں کی اولاد موجود ہے۔ وہ گھر جو اجداد کا تھا گائوں کے موجودہ دوراستوں کے بیچ میں تھا۔ میرا خیال ہے کہ لمبائی کم ازکم سومیٹر ہوگی اور چوڑائی پچاس میٹر۔ گھر کے سامنے ایک بڑا کنواں تھا اور اندرکی طرف گھر سے متصل مشرق کی طرف چھوٹا پتلا کنواں تھا۔ گھر کی لمبائی شمال وجنوب میں اور چوڑائی مشرق ومغرب میں تھی۔ میرے خیال میں یہ مشرق کا چھوٹا کنواں زنان خانے سے متصل رہاہوگا تاکہ اس سے خواتین اپنے گھر کے اندر کام کریں اور گھر کے شمال والا کنواں مردان خانے سے قریب مردوں کے نہانے دھونے کے لیے ہوگا۔ آج ان سب پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ حاجی محمدشریف کے زمانہ تک اسی پرانے گھر میں رہائش تھی۔ دھیرے دھیرے آبادی جس قدر بڑھتی گئی، گھر کے افراد بڑھے تو گھر میں تنگی محسوس ہونے لگی۔ تنگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پرانے بزرگوں نے اپنے بعض غریب رشتہ داروں کو بھی بلاکر اسی عمارت میں ایک ایک کمرہ دیدیاتھا۔ اوران کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ کھیتی باڑی دے دی تھی۔ اب آج اصل خاندان سے انہی کا حصہ زیادہ ہوگیاہے۔ یہ لوگ جو باہر سے آکر گھر میں رکھ لیے گئے تھے آج بھی ان کی اولاد کا چہرہ مہرہ شکل وصورت ہمارے خاندان سے الگ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کو خاندانی افراد کا درجہ حاصل ہے۔
ہمارے اجداد نے اپنے زمانہ میں ایک عیدگاہ بنواکر وقف کی تھی اور اس سے ملحق کافی زمین بھی وقف کی تھی جس پر بعد میں مدرسہ مفتاح العلوم اور اس کا پرائمری شعبہ تعمیرا ہوا۔ وہیں عیدگاہ کے پاس ایک کنواں بنواکر اللہ کی راہ میں وقف کیا۔ جس سے میرے ہوش میں آنے تک سارے لوگ اپنے کھیتوں کی آب پاشی کیا کرتے تھے۔ اب آبادی بڑھ گئی تو عیدگاہ کو منہدم کرکے بڑی عیدگاہ تعمیر ہوئی۔ اور آب پاشی کے دوسرے ذرائع پیداہونے کی وجہ سے کنواں بھی پٹ گیا۔ اسی طرح ایک پوکھرا کھدواکر اللہ کی راہ میں وقف کیاتھا جو تقریباً بارہ بیگھ کی لمبائی چوڑائی میں ہوگا اب بھی وہ پوکھرا موجود ہے اسی زمانہ میں ایک باغ لگوایاتھا جو بائیس بیگھ میں تھا اس کے اندر آم کے درخت اتنے موٹے موٹے جیسے پیپل اور برگد کے درخت ہوتے ہیں۔ ان درختوں کی ایک ایک شاخ اتنی موٹی تھی جتنا آج کل ایک درخت موٹا ہوتاہے۔ اس باغ کے سات آٹھ درخت میں نے بھی دیکھے اور ان کا آم بھی کھایا اب اس وقت اس میں سے ایک درخت بھی نہیں ہے۔
جب ہمارے دادا اور ان کے بھائیوں میں بٹوارہ ہوا تو دادا نے پہلے جانوروں کی رہائش کے لیے ایک گھر اسی باغ میں بنوایا جس میں ۴؍۵بھینس او رکھیتی کے بیل رہتے تھے اور دادا ہی وہاں رات کو سوتے تھے۔ میری پیدائش سے پہلے دادا نے اپنے لیے اور اپنے بچوں کی رہائش کے لیے اسی باغ میں اس بنگلے سے تقریباً پچاس میٹر دور ایک رہائشی مکان بنوایا۔یہ یادرہے کہ یہ زمینداری اٹھدمہ راجا کی تھی جو دادا کو بہت مانتے تھے ، اٹھدمہ کے زمیندار نے دادا کو گھر اٹھانے کا تحریر نامہ دیا تھا جو پیلے کاغذ پر چھوٹے سے ٹکڑے پر اردو میں تحریر تھا میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا پڑھا تھا۔ جب چچا لوگوں نے بٹوارہ کیا تو وہ چھوٹا سا کاغذ گم ہوگیا۔ پھینکنے والے نے اس کو ردی کاغذ سمجھا ہو گا۔ بعد میں بہت تلاش کیا مگر وہ پیلا چھوٹا کاغذ نہیں مل سکا ، دادا کے ابا کا چشمہ اس میں رکھا ہوا اور فرشی حقہ جو زمین دار لوگ اپنے اور مہمانوں کے استعمال کے لیے رکھتے تھے، اور بھی بہت سامان اب وہ کچھ نہیں رہ گیا۔دادا کو دیکھ کر کچھ دوسرے لوگ بھی اسی با غ میں منتقل ہو گئے۔ ایک مرتبہ ان گھروں کو ہاتھی کے ذریعہ گروا دیا لیکن دن گذرنے کے بعد لوگوں نے پھر اٹھا لیا اور اب پرانی باغ آبادی سے بھر چکی ہے۔ اس باغ کو بابا والی بغیہ کہاجاتاہے ۔ ماموں ان خاندان کے لوگوں کو اصحاب الجنۃ کہتے تھے۔ اس باغ کے مغربی سمت میں اپنے خاندان کی قبریں ہیں نیز یہاں بھی اور مشرق میں پوکھرے پر بھی سارے گائوں کے لوگوں کو اپنے اپنے مردے دفنانے کی اجازت تھی۔ اسی طرح بطور چراگاہ بھی لوگ استعمال کرتے تھے۔ فصل کے مواقع پر سارے گائوں کے لوگ اسی میں اپنے کھلیان بناتے۔ کسی کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی یہی سب باتیں بزرگوں کی کشادہ قلبی پر دلالت کرتی ہیں۔
ہمارے دادا چوں کہ اپنے والد حاجی محمدشریف کے بڑے لڑکے تھے اس وجہ سے انہوںنے دادا کو اپنے زمانہ پیری میں گھر کا مالک بنادیاتھا دادا نے عروج کا زمانہ بھی کچھ حد تک دیکھا تھا اور اپنے والد نیز بزرگوں سے پہلے کے حالات سنے بھی ہوں گے۔ اورپھر زوال کے دور میں انہی کو گھر کا مالک بھی بنادیا اس لیے ہر طرح کا انتظام انہی کو کرنا پڑتا تھا جس طرح بھی کریں۔
میں بچپن میں دادا ہی کے پاس سویا کرتا تھا اور کبھی ہمارے ایک پھوپھی زاد بھائی جو ہماری ہی عمر کے تھے وہ بھی دادا کے پاس سوتے تھے ہم لوگ کبھی کچھ قصہ کہانی سنانے کا اصرار کرتے تو بجائے اس کے کہ وہ قصہ کہانی سنائیں اپنے گھر کی پرانی داستانیں سنایاکرتے۔ اس وقت تو کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا مگر اب ان بیان کردہ باتوں کی عبرت خیزی معلوم ہوتی ہے۔
دادا جان فرماتے! دیکھو بچو! کبھی غرور او ر گھمنڈ نہ کرنا اور دوسری بات یہ کہ کبھی اللہ کی نعمت کی ناقدری نہ کرنا ہم لوگ پوچھتے اس کا کیا مطلب ہے دادا! تو فرماتے:
۱- دیکھوہمارے اجداد کی جاگیریں دس پندرہ گائوں میں تھیں ۔ رسول پور گائوں کا آدھا حصہ ہمارے اجداد کا تھا جو تقریبا پندرہ سو بیگھہ تھا۔ایک مرتبہ مزدوروہاں سے غلہ لارہے تھے بارش ہوئی تھی اس لیے ایک بیگھ کی لمبائی میں کیچڑپانی او رپھسلن تھی ۔ مزدوروں نے مہتو سے آکر شکایت کی کہ صاحب اتنی دور میں پانی کیچڑاور پھسلن ہے کوئی اگر گرے گا تو ہاتھ پیرٹوٹ جائے گا۔
مہتوجی نے فرمایا کہ ایک کھیوا دھان لاکر اسی میں ڈال دو۔ چنانچہ مزدوروں نے ایسا ہی کیا۔ کتنے مزدور غلہ ڈھونے والے تھے اللہ بہتر جانتاہے مگر ایک مرتبہ ڈال دینے سے کیچڑ نیچے دب گیا او رغلہ آدھا فٹ پانی سے اوپر آگیا۔
یہی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری تھی جس کی وجہ سے زمین داری چھن گئی۔ خاندان کے افراد میں اختلاف ہوگیا سب بیچ کر کھاگئے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ ہوا کہ ایک صاحب رسول پور کی زمین داری بیچ کر گھوڑے پر روپیہ لاد کرلارہے تھے سیدھے گھرآنے کے بجائے جمڑی (ایک قریبی گائوں کا نام ہے) روپیہ لیے دیے چلے گئے۔ اس وقت چاندی کا سکہ چلتا تھا، وہاں ایک رشتہ داری تھی وہاں پہنچے تو لوگوں نے بڑی خاطر مدارات کی ۔ روپیہ کا دونوں طرف کا بورا اٹھاکر گھر میں رکھا۔ اور مہتوجی کی خوب آئو بھگت کی، خوب خدمت تواضع کی۔ اتنا زیادہ روپیہ دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا مہتوجی کو کھلا پلاکر سلادیا وہ ٹھاٹ سے سوگئے۔ ادھر میزبان گھر کا مالک، لالچی اس چکر میں پڑگیا کہ اتنے سارے روپیہ پر کیسے قبضہ کیا جائے اس نے ایک ترکیب سوچ کر عمل بھی کردیا۔ یعنی زہر کھالیا۔اور مرگیا۔ صبح جب مہتوجی اٹھے تو ان کو بدخبری ملی کہ اس گھر کے مالک کا رات میں اچانک انتقال ہوگیا۔ توانہوںنے روپیہ مانگا ہی نہیں بس اپنا گھوڑا لیا اور اپنے گھر ٹکریا چلے آئے۔ اس طرح ہزاروں بیگھ آراضی کی ساری قیمت دوسروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اسی طرح دوسری جگہوں کا حال بھی ہوا۔ جو زمین جنوب کے مواضعات میں تھیں مثلاً بھارت بھاری، پرسا عماد، سون برسا ،چوکنیاں، سکھوئیا توان میں سے بیشتر حصہ رودھولی سڑک میں چلاگیا اور کچھ بک بکاکر ختم ہوگیا۔ اس طرح ساری جاگیروں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تو بچو! یہ حال اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری کی وجہ سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کی توہین کرنے اور ناشکری کے نتیجے میں ہوا۔ اس لیے میرے پیارے بچو! اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کسی بھی نعمت کی کبھی ناقدری نہ کرنا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔ تو اپنی ساری نعمتیں چھین لے گا۔ جیسا کہ ہمارے اوپر کے خاندان میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ اور شکر گزاری کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمین)
۲- دادا جان یہاں تک پہنچ کر رک جاتے ہم لوگ پوچھتے کہ وہ جو دوسری بات آپ کہہ رہے تھے وہ کیاہے تو وہ کہتے: وہ ہے غرور اور گھمنڈ، اللہ کے بندوں کی تحقیر۔ تو اس کا واقعہ بھی سنو: ہمارے جدامجدرجواڑے تھے اور راجہ کے خاندان سے تھے بھی۔ ان کا عمل یہ تھا کہ ان کو جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا تو گھوڑے پر سوار ہوکر نکلتے باہر آکر اپنے بائیس بیگھ باغ کی سیر کرتے لیکن گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے ایک کارندہ کو اس راستہ پر بھیج دیتے جس سے نکلنا ہوتا وہ آگے آگے جاکر یہ آواز لگاتا۔ خبردار ہوجائو خبردارہوجائو۔ مہتو صاحب نکل رہے ہیں سب عورتیں پردہ کرلیں۔ اور مرد لوگ متنبہ رہیں۔ مہتو جی آرہے ہیں۔ اس طرح مہتو صاحب گھر کے باہر نکلتے کہ کوئی آدمی چارپائی پر بیٹھا نہ رہ جائے اور کوئی بھی کسی بھی طبقہ کی عورت نظر نہ آئے۔ اس طرح مہتو صاحب غرور وتمکنت کے ساتھ گھر سے باہر نکلتے اور اللہ کی مخلوق کو حقیر سمجھتے۔
ادھر شام کو رانی صاحبہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کو نکلتیں۔ اس وقت بھی ایک کارندہ آگے بھیج دیا جاتا جو اس وقت پکار پکار کہتا سب مرد لوگ پردہ کرلیں۔ صرف عورتیں باہررہیں۔ اب رانی صاحبہ بھی باغ کی سیر کو جارہی ہیں۔ ان کے پیچھے ان کی سہیلیوں کا جمگھٹا ہے۔ اپنے باغ میں آکر سیر کرتیں۔ عورتیں اپنے اپنے گھروں کے برآمدے میں ہوتیں اور رانی صاحبہ کا دیدار کرتیںاور ان کو سلام کرتیں۔ رانی صاحبہ بھی پورے باغ کی تفریح کرنے کے بعد واپس ہوتیں اس وقت تک ان کے راستہ میں پڑنے والے سارے گھروں کے مرد پردہ میں ہی ہوتے۔ اور عورتیں جی حضوری کے لیے برآمدہ میں جمع رہتیں۔
توبچو! یہی ہے تکبر وغرور جس کے ناطے اللہ تعالیٰ نے ساری نعمتیں چھین لیں۔ اور سارا کبروغرور فخرومباہات خاک میں ملاکر رکھ دیا ۔اس لیے بچو! نہ تو اللہ تعالیٰ کے نعمت کی ناقدری اور ناشکری نہ کرنا خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو او راپنے دل میں کبھی فخر، گھمنڈ، ریا، نمود انسان کی تحقیر وتذلیل ، نعمت کی ناشکری وتحقیر کا ذرہ برابراحساس نہ آنے دینا۔ یہ بڑی خطرناک چیزیں ہیں۔ انسان کو کہیں کا رہنے نہیں دیتیں۔
دادا کی ان بیان کردہ باتوں کا معنی ومفہوم تو اس وقت کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا لیکن اب شعور واحساس آنے کے بعد اس کی عظمت کااحساس ہوتاہے۔ اب دادا جان کا خیال آتاہے تو لازما ان کہی ہوئی باتوں کا بھی خیال آتاہے۔ اور یہ تاثر پیداہوتاہے کہ دادا جان ان باتوں کو کتنے درد وکرب سے بیان کرتے رہے ہوں گے۔
اللّٰہم اغفرلہ وأرحمہ وأکرم نزلہ واغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد، ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقناعذاب النار۔ آمین