Articles مضامین

’’وہ اک نشست جوکہ یاد گار ٹھہری ہے‘‘

11مئی 2024 ہفتے کی شب ہمارے نانا محترم ماسٹر محمد احمد دانش روانوی نے آسمان علم و ادب کے منتخب ستاروں کو خطۂ مردم خیز سر زمین ضلع بجنور کے قصبہ تاجپور میں اپنے دولت کدے کاشانۂ گلزار پر مدعو فرماکر ”اعزازی شعری نشست” کے نام سے شعر و سخن کی ایک خوبصورت کہکشاں سجائی۔ جس کی صدارت کا سہرا سر زمین ضلع بجنور کے نامور اَدیب و اہل قلم، ماہنامہ اچھا ساتھی بجنور کے مدیر، کثیر علمی و اَدبی کتابوں کے مصنف، مولانا ڈاکٹر سراج الدین ندوی کے سر پر باندھا گیا۔ نظامت کے فرائض مشہور و معروف شاعر و ناظم مشاعرہ ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی کے سپرد کئے گئے تھے، لیکن انھیں اپنے بچے کی تیمارداری کے لیے اسپتال میں رہنا پڑا اور وہ نشست میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان کی عدم موجودگی میں نظامت کے فرائض میزبان شاعر جناب قاری محمد راشد حمیدی دھامپوری نے بحسن وخوبی انجام دئے۔
صاحبان اعزاز مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر عبید اللہ چودھری ریٹائرڈٹیچر( گورکھپور) اور ڈاکٹر محمد مستمر صاحب اسسٹنٹ پروفیسر ذاکر حسین کالج دہلی یونیورسٹی دہلی اور ایم اے کنول جعفری صاحب سینئر اَدیب و صحافی کے نامہائے گرامی سرفہرست تھے، مگر افسوس اپنے ضلع کے نامور اَدیب و سینئر صحافی ایم اے کنول جعفری صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ وہ کسی وجہ سے نشست میں شرکت نہیں کرسکے۔ انھیں بارہا روز نامہ راشٹریہ سہارا اُردو میں پڑھنے کا موقع ملا ہے اور بشکل تصویر ان کے نستعلیقی اور کتابی چہرے کا دیدار بھی ہوچکا ہے۔حال ہی میں مجھے نانا محترم کے صدقے ان کے علم سے مستفید ہونے کے لئے ان کا شعری مجموعہ ”سیپیاں ٹوٹی ہوئی” اور افسانوی مجموعہ ”خاموش لب” دستیاب ہوچکا ہے، لیکن ابھی ان کو بالمشافہ سننے کی خواہش باقی ہے۔
نانا محترم کی پر خلوص دعوت اور صاحبان فن سے میری عقیدت مجھے بھی ارض سیوہارہ سے سر زمین تاجپور کھینچ لائی ۔ ڈاکٹر محمد مستمر صاحب سے ملاقات کی دیرینہ قلبی تمنا تھی۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کا علمی تعارف اس وقت ہوا ہے، جب آپ نے مئی2024 کو ہمارے ماما ڈاکٹر غیاث احمد کا سہرا قلم بند کیا تھا اور ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی کی ترتیب کردہ کتاب ”انجنا ایک شخصیت ایک شاعرہ” کے ورق پر معاون مرتب میں آپ کا اسم گرامی رقم تھا۔ معاون کی جگہ اسی شخص کا نام آتا ہے، جس نے اخلاص کے ساتھ تعاون کیا ہو یا وہ اتنی بڑی ہستی ہو ،جس کی وجہ سے کتاب کا معیار بلند ہوتا ہو۔ میں ہمیشہ کتابی چہروں سے ملاقات کا تمنائی رہتا ہوں۔ کیونکہ؛ وہ اپنی بیش بہا معلومات، تجربات و مشاہدات اور وسیع مطالعہ کی روشنی میں بہت سی ایسی باتوں سے روشناس کرا دیتے ہیں جو ہزاروں صفحات کے مطالعے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ نیز علمی لوگوں سے ملاقات و رکھ رکھاؤ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان سے مل کر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتاہے، معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔اتنا ہی نہیں ان کی حوصلہ افزائی اور ان کے ساتھ تعلق داری شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بہر حال مجھے ڈاکٹر مستمر صاحب اور پروفیسر بدر الدین الحافظ کی علمی وراثت کے حقیقی اَمین و جانشین، فراق و مجنوں کی سرزمین کے باشی، اکابر و نامور شعرا و اَدبا کی شاگردی و ہم نشینی کا شرف رکھنے والے، کثیر اَدبی و تنقیدی کتابوں کے مصنف، نقاد و افسانہ نگار، ڈاکٹر عبیداللہ چودھری صاحب سے ملاقات کی دیرینہ قلبی حسرت حقیقت میں تبدیل ہونے جارہی تھی۔
ان حضرات کو بالمشافہ سننے اور ان سے مستفید ہونے کی خواہش و آرزو تھی۔ اسی دیدار شوق میں اور علمی و کتابی چہروں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے میں نماز عصر سے قبل ہی تاجپور آن پہنچا ۔ علیک سلیک کے بعد نانا محترم نے محبت بھرے لہجے میں فرمایا کہ میں آپ ہی کو یاد کر رہا تھا، آپ ہی کا تذکرہ کر رہا تھا کہ سعد ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ آپ تو دوپہر آنے والے تھے! خیر! آپ خیرت سے آگئے۔ اَللہ کا شکر ہے۔ ابھی میں پانی پی رہا تھا، اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ کمرے کے جھروکے سے دیکھا تو دروازے پر ایک کار کھڑی تھی، جس سے چند مہمان بر آمد ہوئے، نگاہ شوق مہمانان کرام کی طرف متوجہ تھی۔ میں دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا اور زبان حال سے فیض احمد فیض کا مندرجہ ذیل شعر گنگنا رہا تھا ؎
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
جب مہمان اندرون خانہ تشریف لائیں تو معلوم ہوا کہ وہ نشست میں مدعو کئے گئے مہمانان ذی اعزاز نہیں ہیں۔ وہ دوسرے مہمان ہیں جو کسی اور غرض سے تشریف لائے ہیں۔ابھی مہمان خصوصی کے انتظار کی لذت سے اور محظوظ ہوناہے۔ کہ وہ آسمان ادب کے ماہ تاباں ہیں اور ماہتاب شام کی وقت ہی طلوع ہوتا ہے۔لہٰذا، ابھی ان کی تشریف آوری کا وقت نہیں ہوا۔ ابھی رہ انتظار سے مزید گزرنا ہے۔
ہم ان کی آمد کے منتظر تھے کہ سورج غروب ہوگیا۔ نماز مغرب کا وقت شروع ہوا۔موذن نے صدا لگائی،’ اَللہ اکبر، حی علیٰ الصلوٰۃ، حی علیٰ الفلاح۔‘ ہم نماز کی ادائیگی کے لیے قریب ہی ایک مسجد میں چلے گئے۔نماز ادا کرنے کے بعد جب گھر آئے، تو چاند نکلے کا وقت ہو گیاتھا۔ باہر تو ہمیں کوئی چاند نظر نہیں آیا، لیکن آسمان علم و اَدب کے دو ماہتاب جناب ڈاکٹر عبید اللہ چودھری صاحب اور جناب ڈاکٹر محمد مستمر صاحب کو نانا محترم کے دولت کدے پر پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی ضیا پاش کرنیں بکھیرتے پایا۔ان کی علمی شان و شوکت اور چمک دمک سے گھر کا گوشہ گوشہ روشن و منور تھا۔ ڈاکٹر محمد مستمر صاحب فریضۂ نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی، جو قریب کے الیکٹرک بورڈ پر چارجنگ کے لئے لگا ہوا تھا،۔ میں نے یہ سوچ کر کہ یہ نانا محترم کا موبائل ہے، اسے دیکھا، تو ڈاکٹر فرقان احمد کی کال آرہی تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب نماز سے فارغ ہوئے اور میں نے ان کا موبائل ان کے حوالہ کیا، تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہ بھی دریافت کرلیا کہ کیا یہ ناظم مشاعرہ ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی کی کال ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر فرمایا،’ آپ جانتے ہیں فرقان صاحب کو؟‘ میں نے عرض کیا،’ جی‘! فرمانے لگے،’ فلیکسی میں نام دیکھ کر پہچانا ہے نا؟‘ میں نے کہا،’ نہیں! بلکہ میں ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی صاحب کو، ”انجنا ایک شخصیت ایک شاعرہ” نامی کتاب کے مرتب کی حیثیت سے پہچانتا ہوں۔ فرقان صاحب کی شخصیت سے روشناس ہونے کا واقعہ یہ ہوا کہ’’’انجنا ایک شخصیت ایک شاعرہ‘‘ نامی کتاب میں نانا محترم کا تبصراتی مضمون شائع ہوا تھا۔ اور نانا محترم نے مطالعہ کے لیے وہ کتاب بشکل پی ڈی ایف میرے وہاٹس ایپ پر ارسال فرمادی تھی ۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے دو مضمون سطر بسطر اور حرف بحرف پڑھے تھے۔ ایک نانا محترم ماسٹر محمد احمد دانش روانوی کا مضمون’’ڈاکٹر انجنا سنگھ سینگر فکر و فن کے آئینے میں‘‘ اور دوسرا مرتب کتاب ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی کا مقدمہ۔ اسی وقت سے مجھے ڈاکٹر فرقان صاحب کا علمی و قلمی تعارف ہوا تھا۔
بہر کیف اس گفتگو اور ملاقات کے دوران مجھے ڈاکٹر محمد مستمر صاحب کی شرافت و مروت، کریم النفسی اور اخلاقی بلندی کا علم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ایک جواں سال مترجم، شاعر، نقاد، مضمون نویس، افسانہ نگار اور فنکار ہونے کے ساتھ صاحب کردار، صاحب اخلاق اور اچھے انسان بھی ہیں۔
اسی دوران ڈاکٹر عبید اللہ چودھری صاحب سے ملاقات اور ہم کلامی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ میں ان کی نیکوکاری، ظرافت طبعی، عالی ظرفی اور روشن خیالی سے بہت متائثر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب علمی وجاہت، دینداری و صالحیت رکھنے والے غیر معمولی تحریری و تخلیقی صلاحیت کے مالک اور عظیم انسان ہیں۔ آپ 900 کلومیٹر کی طویل مسافت طے کرکے سفر کی تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اردو اور ارباب اردو کی محبت میں سر زمین گورکھپور سے تاجپور تشریف لائے تھے۔ آپ کے گوناگوں خصائل اردو سے محبت اور مسافت سفر کی طوالت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد مستمر صاحب نے آپ کو اردو کا ابن بطوطہ بتایا۔ ڈاکٹر صاحب نے صحیح فرمایا،’’آپ واقعی اپنے عہد کے اردو کے ابن بطوطہ ہیں۔ جیسا کہ آپ کا دور دراز علاقوں کا سفر طے کرکے وہاں سے شعرا و اَدبا کے منتخب اشعار محفوظ کر لانا، اپنے دل و دماغ میں وہاں کے تمدن و ثقافت کی تصویر کھینچ کر، ہر علاقے کی خصوصیات بیان کرنا، وہاں کے شعرا و اَدبا کے حالات کا تذکرہ کرنا، اس کی واضح دلیل ہے۔‘‘ آپ کی تحریری خدمات بھی اس کا بین ثبوت ہیں کہ آپ ایسی بلند پایہ علمی و تحقیقی کتب کے مصنف ہیں ،جن کی ترتیب و تالیف میں کتنی لائبریریوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے اور حصول مواد کے لیے کتنے لوگوں سے ملاقاتیں درکار ہوتی ہیں۔ یہ وہی شخص جان سکتا ہے ،جس نے کوئی اچھی کتاب لکھی ہو یا اس کا کسی مصنف سے خصوصی ربط و تعلق ہو۔
خیر۔۔۔ محفل مشاعرہ منعقد ہونے سے قبل ڈاکٹر عبید اللہ چودھری صاحب ڈاکٹر محمد مستمر صاحب اور نانا محترم جناب ماسٹر محمد احمد دانش روانوی صاحب کے درمیان گفتگوہو ہی رہی تھی، تبھی قصبہ نہٹور ضلع بجنور کے مشہور معروف شاعر جناب امیر نہٹوری صاحب بھی تشریف لے آئے۔ اہل علم حضرات کی موجودگی اور ان کی علمی گفتگو سے ہماری نشست گاہ صرف نشست گاہ ہی نہیں رہی، بلکہ میخانہ علم و ادب بن چکی تھی۔اس میں مجھ جیسے نو آموز طالب اردو ادب کی تسکین کے لئے علم و ادب کے میٹھے میٹھے الفاظ و جملوں کے تازہ انگوروں کی شیریں اور پاکیزہ مے تیار ہو رہی تھی۔اس میں ہماری تہذیب و ثقافت کا سرور تھا، صاحبان ذوق کے لیے مذاق سخن کا سامان تھا اور تشنگان علم و فن کے لیے سیرابی تھی۔مغرب تا عشاء یہ میخانہ علم و ادب آباد رہا ۔اس مے کشی کے لیے قرب و جوار اور دور دراز سے یکے بعد دیگرے بادہ خواروں کی آمد ہوتی رہی ۔سب اپنے اپنے ذوق و ذوق کے بقدر شراب سخن سے سیراب ہوتے رہیں۔
اسی دوران جناب یونس نوید صاحب اور ڈاکٹر تہذیب ابرار صاحب تشریف لے آ ئے۔ یہ دونوں حضرات ضلع بجنور کے روشن ستارے ہیں، جو بہت سی شعری نشستوں اور مشاعروں میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ نیز ڈاکٹر تہذیب ابرار کے متعلق قاری راشد حمیدی صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ایسی شخصیت ہیں ،جن کا ایک قطعہ ہر ہفتے بلا ناغہ راشٹریہ سہارا میں شائع ہوتا ہے۔ یہیں سے مجھے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا علم ہوا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو پہلے بحیث ڈاکٹر کے جانتا تھا۔ اب مجھے بحیثیت شاعر بھی ان کا تعارف ہوگیا کہ ہمارے ضلع بجنور میں بھی تہذیب و ادب کے علمبردار ڈاکٹر تہذیب ابرار موجود ہیں۔مزید آپ کے بارے میں پتا چلا کہ ضلع بجنور کے مشہور و نامور صحافی و ادیب مرحوم اقبال راجا کے منتخب اداریوں کو ضخیم کتاب کی شکل میں ترتیب دے رہے ہیں۔
ان حضرات کے بعد سر زمین دھامپور ضلع بجنور سے ہمارے میزبان شعرا جناب قاری راشد حمیدی، جناب قاری نوشاد عالم شاد علیگ دھامپوری وغیرہم تشریف لے آئے۔عشاء کی اذان ہوئی سب لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد تشریف لے گئے۔ نماز کے بعد سب لوگ نشست گاہ واپس آگئے اور شعراء عظام کے درمیان مختلف مسائل پر گفتگو ہونے لگی۔اردو زبان کی ناقدری پر اظہار افسوس کیا گیا، بعض حضرات کی طرف بہت سے اردو زبان ادب کے حوالے عہد حاضر کے المیوں کو بیان کیا گیا اور ان سے نکلنے کی تجویز پیش کی گئی۔ نانا محترم کی جانب سے مہانان کرام کے لئے عشائیہ کا نظم کیا گیا تھا۔ ان کی ضیافت و میزبانی کے لیے مرغ مسلّم و بریانی تیار کی گئی تھی۔ ؎
بنا کے مرغ مسلّم و بریانی
سبھی کی کی گئی قلب و جگر سے مہمانی
عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد ہی مہمانوں کو عشائیہ کے لیے دسترخوان پر مدعو کیا گیا۔ مجھے، میرے ماما عبد اللہ اور شانو بھائی کو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا شرف حاصل ہوا۔ سب لوگوں نے کھانا تناول فرمایا۔ دوران طعام بھی اردو کے بہت سے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ زمانہ حال میں اردو زبان اور اردو رسم الخط سے نا آشنائی اور صحت املا سے غفلت و لا پرواہی برتے جانے پر رنج و غم کا اظہار کیا جاتارہا۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ دل درد مند رکھنے والے لوگوں کے درد کا بے ساختہ بیان ہے اور ان کے کرب کی انتہا کا اظہار ہے ،جس کی تلخیوں نے لذیذ و ذائقہ دار کھانے کا لطف اٹھا لیا ہو۔ شاید اسی درد و کرب کی وجہ سے مہمانوں نے سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا۔ سب کے کھانے کے بعد بھی وافر مقدار میں کھانابچ گیا۔
بالآخر سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے اور وہ وقت آن پہنچا ،جس کی خاطر یہ خوبصورت محفل سجائی گئی تھی۔ نانا محترم کے پر وقیع خطبہ اور اچھوتی تمہید سے اس محفل کا آغاز ہوا۔اس میں انھوں نے اردو کی اہمیت و عظمت پر مشتمل کلام کیا اور اردو کے تعلق سے بہت قیمتی اشعار سے سامعین کو محظوظ فرمایا۔ خطبہ کے اختتام پر صدرِ محترم مولانا سراج الدین ندوی صاحب اور مہمانان ذی اعزاز ڈاکٹر عبید اللہ چودھری اور ڈاکٹر محمد مستمر صاحب اور ان کی ادبی خدمات کا تفصیلی تعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد فرائض نظامت سر انجام دینے کے لئے قاری راشد حمیدی صاحب کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ جب نظامت کے لیے قاری صاحب کو مدعو کیا گیا، تو میں سوچتا ہی رہ گیا کہ نظامت کے لئے تو ڈاکٹر فرقان احمد سردھنوی کو بطورِ خاص مدعو کیا گیا تھا، تو پھر فرائض نظامت قاری صاحب کے ذمے کیوں لگائے گئے؟ فرقان صاحب کیوں تشریف نہیں لائے؟ خیر! ان کے نہ آنے کی کوئی تو معقول وجہ رہی ہوگی… بقول ڈاکٹر بشیر بدر ؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
فرقان صاحب ڈاکٹر مستمر صاحب کے دوست ہیں اور نانا محترم سے بھی ان کے اچھے مراسم ہیں۔ اگر کوئی معقول عذر نہیں ہوتا، تو وہ دوستی نبھانے، آپسی تعلقات برقرار رکھنے اور نانا محترم سے کئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے ضرور تشریف لے آتے۔۔۔۔
صبح مجھے ان کے نہ آنے کی وجہ معلوم ہوئی۔ ڈاکٹر مستمر صاحب نے فرقان صاحب کے نہ آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بچے کی طبیعت ناساز ہے۔ وہ کل اس کے ساتھ اسپتال میں تھے۔ اسی وجہ سے وہ اس نشست میں شرکت نہیں کر سکے۔بہر کیف! فرقان صاحب کی عدم موجودگی میں فرائض نظامت قاری راشد حمیدی صاحب نے بحسن و خوبی انجام دیے۔ قاری صاحب کی ایک خوبی یہ رہی کہ ہر شاعر کو دعوت سخن دیتے وقت اس کا مختصر و موجز تعارف بھی کراتے رہے اور دوران نظامت منتخب اشعار بھی سناتے رہے۔ ڈاکٹر مستمر صاحب نے آپ کی نظامت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ بہت اچھی نظامت فرما رہے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ ہر شاعر کا جو تعارفی حق ہے آپ اسے وہ عنایت کر رہے ہیں۔ نانا محترم کی درج ذیل نعت پاک سے باقاعدہ مشاعرہ کا افتتاح ہوا، جو آپ نے عشق نبوی سے سرشار ہوکر اپنے مترنم انداز میں پڑھی ۔
ہے جن کی سیرتِ اقدس بھی تفسیر کلام حق
بھلا کیوں کر نہ ان کی ذات پر حق کا سلام آئے
بعد ازاں یکے بعد دیگرے شعرائے عظام اپنے اپنے کلام سے محظوظ فرماتے رہے۔ڈاکٹر تہذیب ابرار صاحب، امیر نہٹوری صاحب، یونس نوید صاحب، قاری راشد حمیدی صاحب، قاری نوشاد شاد علیگ صاحب، قمر الدین قمر روانوی صاحب اور تائب زکی صاحب وغیرہ نے بہت اچھے اور دلوں پر چھاجانے والے اشعار سنائے۔عبد الحفیظ معصوم نیندڑوی نے اپنے شیریں لہجے اور ترنم کی جاذبیت سے سامعین کے قلوب کو مسحور کیا اور گوہر بجنوری نے اپنے مزاحیہ قطعات و تضمیمات سے حاضرین کو خوب گدگدایا۔ گوہر بجنوری نے اپنے مزاحیہ کلام سے طنز و مزاح کے عظیم شاعر اکبر الہ آ بادی اور سر زمین ضلع بجنور سے تعلق رکھنے والے ہلال سیوہاروی کی یادیں تازہ کردیں۔نشست میں مدعو شعرا کے کلام میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی اور احمد فراز جیسے اساتذہ فن کا رنگ دیکھا گیا، جو بغیر کسی تتبع و تکلف کے ان کے کلام میں جھلک رہا تھا۔
اثنائے مشاعرہ کچھ وقت کے لیے مائک نے کام کرنا بند کردیا۔ اس کے سیل ڈاؤن ہوچکے تھے۔ ان میں کرنٹ باقی نہیں رہا تھا ۔ گھر میں سیل موجود نہیں تھے۔ انھیں خریدنے کے لیے مارکیٹ جانا پڑا۔ ضرورت کے وقت چیزیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ انھیں حاصل کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت وقت صرف ہوجاتا ہے۔ لیکن خدا کے فضل سے ہماری قسمت اچھی تھی کہ جلد ہی سیل دستیاب ہوگئے۔ مائک نے پھر سے کام کرنا شروع کردیا اور نشست پھر سے پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہو گئی۔ تاہم پھر بھی بہت ممکن تھا کہ کچھ لمحوں کے لئے مشاعرہ موقوف ہوجاتا یا کم از کم اس میں وہ رونق نہیں رہتی، جو مائک کے ساتھ رہتی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں ڈاکٹر عبیداللہ چودھری صاحب کے کہ انھوں نے اپنی فراست و متانت سے محفل کو گرم رکھتے ہوئے اساتذہ کے منتخب اشعار مع تشریح سنانے شروع کئے اور مائک درست ہونے پر پورے جوش و ولولے کے ساتھ سناتے رہے۔ آپ کا ایک ایک جملہ گویا در فرید تھا، جس سے محظوظ و مستفید ہونے کے لئے سامعین کی طرف سے ھل من مزید کی صدائیں آرہی تھیں۔
کیا بتاؤں آپ کے جملے تھے یا در فرید
دل زبان حال سے کہتا رہا؛ ھل من مزید

آپ نے پہلے مجھ سے میرا وہ شعر سنا ،جو میں نے والدین کی محبت میں کہا تھا۔۔۔ مجھے آپ کو اپنا شعر سنانے سے جو خوشی ملی اور جو حوصلہ افزائی ہوئی، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔پھر آپ نے’’’ماں کے قدموں میں جنت ہے‘‘ اس حوالے سے بہت ہی خوبصورت اور عمدہ ترین اشعار سنائے۔
یوں تو رب نے سجا کے رکھ دی ہے
ہم کو تم کو بتا کے رکھ دی ہے
آسماں سے اُتار کر جنت
ماں کے قدموں میں لاکے رکھ دی ہے
میزبان شعرا کے کلام سے محظوظ ہونے کے بعد وہ وقت بھی آن پہنچا کہ مہمان شاعر کو زحمت سخن دی جاتی۔ چنانچہ ناظم صاحب نے مہمان ذی اعزاز ڈاکٹر محمد مستمر صاحب اسسٹنٹ پروفیسر ذاکر حسین کالج، دہلی یونیورسٹی دہلی ،کو ان کا مختصر تعارف کراتے ہوئے دعوت سخن دی۔ اس سے قبل کہ ڈاکٹر مستمر صاحب سامعین کو اپنے کلام بلاغت سے نوازتے، دوسرے صاحب اعزاز مہمان خصوصی ڈاکٹر عبیداللہ چودھری صاحب نے ناظم صاحب سے مائک لے کر ڈاکٹر مستمر کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ مستمر صاحب کو آپ لوگ کس حیثیت سے جانتے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم!دو تین سال پہلے میری ان سے دہلی میں ایم اے کنول جعفری کے توسط سے ملاقات ہوئی۔ جعفری نے ہی مستمر صاحب کو مجھ سے ملاقات کے ہوٹل بھیجا ، جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انھیں ایک ایسا شاعر پایا کہ پورے ہندوستان میں مجھے ان کے مقابلے کا دوسرا شاعرنہیں ملا ۔ مجھے کہہ لینے دیجیئے! کہ یہ شاعر جو حمد بھی کہتا ہے، نعت بھی کہتا ہے، غزل بھی کہتا ہے، نظم بھی کہتا ہے اور جتنی بھی صنف ہے شاعری کی، ہر ایک میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ اور ایک بات اور کہتا ہوں شاید کچھ لوگوں کو اچھا لگے یا نہ لگے، یہ چلتے پھرتے شاعری کرتے ہیں ۔بات کرتے ہوئے شاعری کرتے ہیں۔ ہر طرف جو ہے تین شعر ساتھ لئے چلتے ہیں۔ تین غزلیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مجھے ابھی ان کے بدل کا شاعر تلاش کرنا ہے۔ اب دیکھئے میری کھوج کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔اب لیجئے !آپ ان سے محظوظ ہوئیے! !
ڈاکٹر عبید اللہ صاحب کے ذریعہ مستمر صاحب کا تعارف کرانے سے مستمر صاحب کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں کا علم ہوا اگر ڈاکٹر عبیداللہ صاحب، ڈاکٹر مستمر صاحب کی شخصیت سے روشناس نہیں کراتے، تو شاید ہمیں صحیح معنی میں ان کی شخصیت سے واقفیت و آگاہی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ حاضرین میں سب سے زیادہ مستمر صاحب کو جاننے والے عبیداللہ صاحب ہی تھے۔ آپ مستمر صاحب کی بود و باش بلکہ نشست و برخاست سے واقف ہیں۔ ہم ڈاکٹر عبیداللہ صاحب کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اپنی نگاہ جوہر شناس سے مستمر صاحب کی شخصیت میں چھپے جوہر کو پہچان کر اس سے آگاہ فرمایا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔؎
قدر زر زرگر شناسد قدر جوہر جوہری
قدر گل بلبل شنا سد قدر عمبر عمبری
خیر۔۔۔ مستمر صاحب نے نانا محترم کو نشست کے منعقد کرنے اور شعرا اور مذاق سخن رکھنے والے اصحاب کو اپنا قیمتی وقت صرف کرکے اردو کی محبت میں اس محفل میں حاضر ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا بطورِ یادگار ان کے تمہیدی جملے سپرد قلم کئے جاتے ہیں۔
دیکھئے اس خوبصورت محفل کے لئے میں سب سے پہلے اپنے مخلص دوست جناب ماسٹر محمد احمد دانش روانوی صاحب ،جو اس محفل کے روحِ رواں ہیں کو مبارک بادی پیش کرتا ہوں۔ میں ان کا شکر گزار ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کو مبارک باد دیتاہوں۔ بجنور کی سر زمین سے وابستہ تمام شعرا و ادبا اور مذاق سخن رکھنے والے جو اس محفل میں تشریف لائے ،میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔ہدیہ تشکر و امتنان پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سرزمین ضلع بجنور کی زرخیزی کا اعتراف کرتے ہوئے باشندگان ضلع بجنور شعرا و ادبا سجاد حیدر یلدرم، نذر سجاد حیدر،قرۃ العین حیدر، قائم چاندپوری، کوثر چاند پوری وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے دہلی سے تاجپور بجنور کے اس سفر میں (جو نشست میں شرکت کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا) بجنور کے تعلق کہی گئی درج ذیل تازہ نظم سنائی۔؎
شہروں میں ہے اک شہر یہ بجنور تمہارا
ہر بات انوکھی ہے کہ ہر پھول نرالا
گوہر ادب و فن یہاں پیدا ہوئے ہیں
فنکار نگہ میں مری ہر ایک ہے تارہ
بجنور کی دھرتی میں کشش ایک عجب ہے
ملتا ہے اندھیرے میں یہاں ایک اجالا
رکھتا ہوں دل ناز میں اک خوابِ تمنا
ہو کاش کہ کچھ روز یہاں میرا بسیرا
پیمانے جھلکتے ہیں کہ صہبائے وفا کے
بجنور میں آکر ہوئے ہر ایک دیوانہ
بجنور ہے گلزار محبت مرے یارو!
گلشن بھی ہے بلبل ہے یہاں شاہد رعنا
پھر آپ نے اپنے قلم گوہر بار سے تحریر فرمائی ہوئی آقائے دو جہاں رسول خدا افصح العرب والعجم کی شان میں ایک شاہکار نعت پاک ”محمد کے صدقے یقیناً یقیناً ” سے محظوظ فرمایا، جس سے آپ کے علم و فن اور مذاق سخن کی گیرائی و گہرائی کا پتا چل رہا تھا۔ آپ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت اور آپ کی شاعرانہ فنکاری اور آپ کے دامن علم میں ذخیرہ الفاظ کی کثرت اور ان کے بر محل استعمال کی قابلیت و صلاحیت کا انکشاف ہو رہا تھا۔آپ کی نعت سن کر سامعین جن میں اکثر اچھے شعرا تھے، جھوم اٹھے تھے۔ نانا محترم نے داد سخن دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’بہت خوب۔۔۔ بڑی مرصع نعت ہے، بڑی اچھی منظر کشی ہے، بڑی جامع اور خوبصورت بندشیں ہیں۔‘
صدر مشاعرہ جناب مولانا ڈاکٹر سراج الدین ندوی صاحب نے فرمایا کہ’’جوش ملیح آبادی جو لفظیات کے لئے مشہور ہیں، ہم نے مستمر صاحب سے وہ لفظیات سنی کہ جوش ملیح آبادی بھی ہمیں ان سے فروتر نظر آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ جوش ملیح آبادی کے سامنے جیسے الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے تھے، ٹھیک ویسے ہی ان کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں۔ تو ہمیں گویا کہ اس محفل میں جوش ملیح آبادی کو بھی سننے کو ملا ہے۔‘‘
ڈاکٹرمستمر صاحب کے بعد دوسرے صاحب اعزاز مہمان خصوصی ڈاکٹر عبیداللہ چودھری صاحب کا اسم گرامی پکارا گیا، جو ایک محقق، ناقد، عہد حاضر کے کامیاب افسانہ نگار اور کتب کثیرہ کے مصنف و مؤلف ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ آپ کو ڈاکٹر مستمر صاحب نے اردو کا ابن بطوطہ بتایا ہے اور اس سے نانا محترم نے بھی اتفاق کیا ہے۔ مستمر صاحب نے بتایا تھا کہ جتنے بھی لوگ یہاں تشریف فرما ہیں، میں ان میں سب سے زیادہ عبیداللہ صاحب کو جانتاہوں میں ان کی شخصیت کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میں عنقریب ان پر ایک خاکہ بھی رقم کروں گا۔ہم ڈاکٹر عبیداللہ صاحب کی حیات مستعار کے پوشیدہ پہلوؤں سے حصول آگاہی اور ان کی علمی زندگی سے استفادہ کرنے کے لیے مستمر صاحب کے خاکہ رقم فرمانے کے منتظر ہیں۔
ڈاکٹر عبیداللہ صاحب نے اپنے اشعار سنانے سے قبل بہت قیمتی اور کار آمد باتیں بتائیں۔ اساتذہ کے منتخب و پسندیدہ اشعار سنائے۔ اپنے استاد، مشہور و معروف شاعر و نقاد ڈاکٹر سلام سندیلوی کا مختصر تعارف کراتے ہوئے ان کا ایک شعر سنایا، جو انہوں نے18سال کی عمر میں کہا تھا ۔ ؎
بات کرنے سے جانے کیا ہوگا؟
نام لینے سے دل دھڑکتا ہے
انھوں نے اس شعر کی تشریح فرمائی۔رئیس المتغزلین استاد جگر مرادآبادی اور دنیائے مشاعرہ کے مشہور و مقبول شاعر پروفیسر ڈاکٹر وسیم بریلوی کا ایک ایک شعر سنایا اور اس کی تشریح بھی بیان کی۔شاعری کی عظمت و اہمیت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا،’’ شاعر پوری کائنات کو اپنی مٹھی میں سمانے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایک اچھا شاعر ایک ہی مصرع میں اتنی بڑی اور قیمتی باتیں کہ دیتا ہے، جو بڑے بڑے فلاسفر اور نکتہ ور حضرات جملوں، صفحوں اور کتابوں میں نہیں کہہ پاتے۔ ایک اچھا شعر شاعر کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنا دیتا ہے۔‘‘
اچھی شاعری کرنے اور شاعری کی خوبیوںو محاسن سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے شاعر حضرات کو اساتذہ کا کلام پڑھنے کے قیمتی مشورے سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ اساتذہ کے کلام میں بڑی قیمتی باتیں اور بہت سے گوہر نایاب پوشیدہ ہوتے ہیں۔لہٰذا نظر عمیق کے ساتھ دواوین اساتذہ کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔ تاکہ ہمیں اچھے شعر کہنے کا سلیقہ آجائے۔نیز اکثر و بیشتر شعرا و ادبا میں پائی جانے والی ایک فطری بیماری کی طرف اشارہ کرکے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا، ’’ہم لوگ رعونت کا شکار ہیں۔ ہر ایک کے اندر حسد (Jealousy) کا مادہ پایا جاتاہے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے ۔ چاہے وہ بڑا ہو یا نہ ہو۔ہمیں کسی سے حسد نہیں کرنا ہے ۔ہر اچھی شاعری کی تعریف کرنی ہے۔ ایک شاعر دوسرے شاعر کی مدد کرے اور اس کی اچھی شاعری کو سراہے۔ ہر شاعر دوسرے شاعر کو اچھا کہے۔ اس سے ہم سب بڑے ہو جائیں گے۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔میں پورے ہندوستان میں جہاں بھی جاتا ہوں کہتا ہوں کہ سب شاعر بڑے ہیں۔ ‘‘
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
(جگر مرادآبادی)
علامہ اقبال نے کہا تھا۔ ؎
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
(علامہ اقبال)
مومن خاں مومن نے جب یہ شعر کہا،تومرزا غالب جیسا بڑا شاعر اپنا پورا دیوان لے کرمومن کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میرا پورا دیوان لے لیں اور بدلے میں اپنا یہ شعر عنایت کردیں۔ ؎
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
(مومن)
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں اچھی صفت اور قابلیت رکھی ہے۔ انسان اپنے مرتبہ کو پہچانے، احساس برتری اور احساس کمتری سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ پھر آپ نے بوقت تحریر اپنا معمول بیان کرتے ہوئے فرمایا ،’’ جب میں لکھتا ہوں، تو اللہ سے دعا کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یا اللہ میرے اندر طاقت نہیں ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ آپ کرا دیجیے۔۔۔ فرمایا: اَللہ لکھوا دیتے ہیں اور ایسا لکھوا دیتے ہیں کہ اہل علم پسند بھی کرتے ہیں۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں تو ہم برداشت کرتے ہیں۔۔۔ہم کیا بڑے بڑے لوگوں نے برداشت کیا ہے۔یہ تمام قیمتی اور کار آمد باتیں بیان کرنے کے بعد اپنے اشعار سے بھی محضوظ فرمایا۔ آپ کا اسلوبِ بیان خطیبانہ،انداز تکلم واعظانہ و والہانہ اور آپ کی زبان فیض سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ عالمانہ تھا۔ زبان کی شستگی و سنجیدگی، لہجے کی دلکشی، اشعار کی شگفتگی اور فن کی پختگی آپ کی شخصیت کی طرف مائل کرنے والی اور آپ کا دیوانہ بنانے والی تھی۔
مغرب سے چاشت تک مہمانان خصوصی کے ساتھ رہنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان کے علوم و فنون سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس قلیل مدت میں ان کی زندگی کے بہت سے کمالات و خوبیوں کا انکشاف ہوا۔ ڈاکٹر مستمر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ ایک اچھے مترجم مصنف، نقاد، شاعر، افسانہ نگار، انشائیہ نویس اور ذاکر حسین کالج ،دہلی یونیورسٹی دہلی، میں اسسٹنٹ پروفیسر، ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش اخلاق شوہر، مثالی باپ، اور بہترین مربی بھی ہیں۔ آپ کو اپنی بیوی کی سخاوت و دریا دلی اور مہمان نوازی جیسے قابل تعریف اوصاف پر حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے ہوئے سنااور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے دیکھا۔
بحیثیت باپ اور مربی بھی آپ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلاکر اور ان کی بہترین تربیت فرما کر انھیں اپنی علمی وراثت کے حقیقی امین اور اپنے سچے جانشین بنا رہے ہیں۔ آپ ان کی کشت جاں میں علم و ادب کی تخم ریزی کرکے ہمیشہ اس کی آبیاری کے لیے فکر مند اور کوشاں ہیں۔ انھیں اردو پڑھائی، مولانا اسماعیل میرٹھی کی نظمیں یاد کرائی، علوم عصریہ پڑھا رہے ہیں۔ کلام اللہ حفظ کرا رہے ہیں اور مولانا ڈاکٹر ثمریاب سے انھیں عربی زبان و ادب کی تعلیم بھی دلا رہے ہیں۔ نانا محترم کی روایت سے ڈاکٹر عبیداللہ صاحب کے بارے میں علم ہوا کہ زمانہ طفولیت ہی سے آپ بہت ذہین تھے۔ دور طالب علمی میں آپکا شمار ذہین و ہونہار طلبہ میں ہوتا تھا۔ جب آپ ابتدائی درجے کے طالب علم تھے ،ایک دن آپ سے آپ کے استاد محترم پروفیسر بدر الدین الحافظ نے دریافت کیا،’’ آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں؟ ‘‘آپ نے جواب دیا،’’ میں آپ بننا چاہتا ہوں۔۔۔ یعنی آپ کی عادات و خصائل اور کمالات و شمائل کو اپنے اندر اتارنا چاہتا ہوں۔‘‘ دیکھئے کتنا اچھا جواب دیا تھا آپ نے؟ آپ کے دل میں استاد کی کتنی محبت تھی؟ آپ کو اپنے استاذ سے کس درجہ عقیدت و محبت تھی؟ ان کے ذات سے کس قدر عشق تھا؟
بہر حال مہمانان خصوصی سے مل کر اور انھیں سن کر محسوس ہوا کہ یہ دونوں حضرات ایک بہترین قلمکار و فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق و صاحب کردار اچھے انسان بھی ہیں۔ سرور بارہ بنکوی کے اس شعر کے حقیقی مصداق ہیں۔ ؎
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
آخر میں صدرِ مشاعرہ مولانا ڈاکٹر سراج الدین ندوی صاحب نے بر خلاف توقع نشست کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا،’’ہماری آج کی یہ نشست بڑے بڑے مشاعروں پہ بھاری ہے۔ میں قطر، بحرین جیسے ملکوں کے مشاعروں میں شریک ہوا ہوں۔ بڑے مشاعروں میں شور و غل اور ہنگامہ زیادہ ہوتا ہے۔بعض نگاہیں تو ہمیشہ حسیناؤں کی منتظر رہتی ہیں۔ اس طرح پورا مشاعرہ انھیں کی نذر ہوجاتا ہے، لیکن یہاں شعرا کے جو عمدہ اشعار تھے ہمارا دل، ہمارا دماغ، انھیں کی طرف مرکوز رہا اور ہم بہت محظوظ ہوئے۔ بڑے بڑے مشاعرے بھی دو تین بجے تک چلتے ہیں اور ہماری یہ نشست بھی تین بجے تک چلی۔ یہاں مجھے ایک بہت بڑا راز ملا۔ وہ راز جو نہاں تھا عیاں ہوگیا کہ روانہ ایک ایسی بستی ہے، جو علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں ایسے ایسے شعرا اور ہیرے موجود ہیں۔

Related posts

نئے سال 2024ء کے آغاز پر علمائے نیپال کے سنہرے پیغامات 

Paigam Madre Watan

موجودہ دور میں ہمارا اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے

Paigam Madre Watan

लक्षद्वीप की प्रधानमंत्री की तस्वीरों ने यूं ही नहीं मचाई हलचल

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar