مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اردو میں تذکرہ نگاری، بیاض نویسی کی ترقی یافتہ شکل ہے یہ غیر افسانوی ادب میں سب سے مقبول صنف ہے، شروع میں تذکرہ کا اطلاق صرف شعراء کے احوال اور نمونہئ کلام پر ہوا کرتا تھا، چنانچہ تذکرہ کی جو تعریف ہے اس میں صرف شعراء کا ذکر ہے، علماء، صوفیاء اور دیگر حضرات پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، لیکن متاخرین کے یہاں تذکرۃ کے معنی میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور کسی بھی شخص کے ذکر کو تذکرہ کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، خاکے، سوانحی خاکے اورحیات وخدمات کے لئے مواد یہیں سے فراہم ہوتا ہے، اس اعتبار سے تذکرہ نگاری کا کام اہم بھی ہے اور قابل قدر بھی۔البتہ بیاض نویسی کے اثرات اب بھی تذکروں میں پائے جاتے ہیں، تذکرہ نگار دوسروں کی تحریروں کو بعینہ اپنے تذکرہ میں جگہ دیدیتا ہے، ”واوین“ نہیں لگاتا، تاکہ پتہ چلے کہ یہ بعینہ نقل ہے، صرف حوالہ دے کر کام چلا لیتا ہے اور کبھی اسے بھی گول کر دیتا ہے۔
تذکرہ میں چند جملے بھی ذکر کیے جاسکتے ہیں، تاریخ ولادت ورحلت اور مختصر احوال وکوائف کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن اگر تلاش بسیار کے باوجودتاریخوں کا پتہ نہ چلے، نہ ملے تو تذکرہ نگار کو معذور سمجھا جاسکتا ہے، تذکرہ نگاری اصلاً تحقیق کا عمل ہے، بعد میں شعراء کے تذکرۃ میں خصوصیت کے ساتھ تنقید کا پہلو بھی داخل ہوگیا، ہمارے یہاں اردو میں شعراء کے جو تذکرے مطبوعہ ہیں، ان سے ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے ۔
تذکرہ نگاری اس اعتبار سے آسان ہے کہ اس میں زندگی کے سارے پہلوؤں کا احاطہ کرنا ضروری نہیں ہوتا اور اس اعتبار سے دشوار ہے کہ یہ سمندر کو کوزے میں بھرنے کا عمل ہے، جن شخصیات پر ضخیم کتابیں لکھی گئی ہوں ان پر دوچار صفحات میں اپنی بات مکمل کرلینا تذکرہ نگاری کا کمال ہوا کرتا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں کہیں تو یہاں اطناب کی گنجائش کم ہوتی ہے اور ایجاز مطلوب ہوتا ہے، مختصر لکھنا مشکل کام ہے؛ کیوں کہ اس میں الفاظ کا انتخاب، جملوں کا دروبست اور تعبیرات سب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، ایک بڑے ادیب سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنا طویل کیوں لکھتے ہیں؟ فرمایا: مختصر لکھنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔
مولانا صدر عالم ندوی بن مولانا عبد القیوم شمسی گورنمنٹ ہائر سکنڈری اسکول بھگوان پوررتی ضلع اسکول ویشالی میں استاذ ہیں، منصبی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد جو وقت بچتا ہے، اس کا ایک حصہ مطالعہئ کتب اور تصنیف وتالیف میں لگاتے ہیں، تذکرہ نگاری اور سوانحی احوال وکوائف پر مضامین اور کتابوں کی تیاری ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے، تذکرہ اور سوانح کے حوالہ سے وہ ضیائے شمس، تذکرہ شعراء ویشالی اور مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی پر مضامین کامجموعہ مرتب کرکے مؤلفین کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں، ضیاء شمس مولانا صدر عالم ندوی کی پہلی تالیف ہے اور مولانا پر لکھے گئے مضامین کا پہلا مجموعہ بھی، جو ان کی زندگی میں چھپ گیا تھا، تذکرہ شعراء ویشالی میں گو حالیہ بیس سال کے شعراء کو ہی جگہ دی گئی ہے، لیکن جس قدر تذکرہ ہے، اچھا ہے اور زندہ شعراء کے احوال اور نمونہئ کلام سے واقفیت کے لئے حوالہ جاتی کتب میں اسے شامل کیا جاسکتا ہے، اس صنف پر مولانا کی تازہ تالیف ”بہارکے ندوی فضلاء“ طباعت کے مرحلے میں ہے، ندوی فضلاء مرحومین پر اچھا کام ہوگیا ہے، گو یہ فہرست تلاش وجستجو سے اور طویل ہوسکتی ہے۔
لیکن جو جمع ہوگئے ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں، مولانانے جہاں سے ان کے احوال لیے ہیں، اس کے حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا ہے، لیکن نصف سے زائد حضرات کے تذکرے میں حوالہ جات مذکور نہیں ہیں، ان میں سے کئی پر میرا مضمون نقیب اور یادوں کے چراغ کی پانچ جلدوں میں چھپ چکا ہے، اسی طرح اگر کسی غیر مطبوعہ کتاب سے مواد اخد کیا گیا ہے تو اس کی نشاندہی مخطوطہ کے طور پر کرنی چاہیے، کیوں کہ جب کتاب کا نام لکھ کر صفحہ نمبر نہیں دیا جاتا تو علمی اعتبار سے حوالہ نا مکمل ہوتاہے، اسی طرح مضامین کسی پر چے سے لیے گیے اس کا ذکر شمارہ اور جلد نمبر کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ قاری مزید تحقیق کرنا چاہے تو اس میں آسانی پیدا ہو۔ حوالوں کے اندراج سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ غلطیاں مرتب کتاب کے بجائے اس دوسرے شخص کو منسوب ہوجاتی ہیں، جس کے مضمون سے اسے لیا گیا ہے، کبھی مرتب کو بھی چھانٹ پھٹک میں کمی کوتاہی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
مولانا نے کتاب کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے رکھی ہے، اس میں مقدم، مؤخر کاہی سوال نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی قاری کو اپنے محبوب شخص کے تذکرہ کو بعد میں دیکھ کر دُکھ پہونچتا ہے، اس لیے کہ یہ ترتیب فطری ہوتی ہے، ان دنوں اس تاریخ وفات کے اعتبار سے ترتیب زیادہ مقبول ہے کیوں کہ اس میں تقدیم وتاخیر کا فیصلہ اللہ کے یہاں سے بلاوے پر موقوف ہوتا ہے اور اللہ کے بلاوے کی ترتیب پر بندہ کو اعتراض کا حق ہی نہیں ہوتا۔
بہار میں گذشتہ پینتیس (35)سالوں میں طلبہ کا جو ندوہ کی طرف رجوع ہوا،اس میں مولانا نظیر عالم ندوی کے بعد مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کا نام آتا ہے۔ یہ وہ پہلا بیچ تھا، جس کو میں نے اپنی نگرانی میں ندوۃ العلماء بھیجا، مولانا قمر عالم ندوی،مولانا ندیم اللہ ندوی، مولانا صدرعالم ندوی، میرے گاؤں کے مولانا آفتاب عالم ندوی اور ان کے بھائی نور عالم ندوی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ندوۃ پہونچتے رہے، ایک زمانہ میں جب جمعیت شباب اسلام قائم ہوا اور میں پہلے ضلع ویشالی کا سکریٹری اور پھر پورے بہار کا جنرل سکریٹری بنا تو میری ندوۃ آمد ورفت بڑھی جس سے بھی بہار کے طلبہ کا ندوۃ کی طرف رجوع بڑھا، میری یہ محنت اس قدر بڑھی کہ میرے خط پر میرے نام کے ساتھ ندوی لکھ کر آنے لگا، کئی بڑے جب ندوۃ کے حوالہ سے کوئی بات کہتے تو یہیں سے شروع کرتے کہ تمہارے ندوۃ کے استاذ نے میر ے خلاف یہ بات کہی، حالاں کہ میں نے ندوۃ میں کبھی نہیں پڑھا، فکری اعتبار سے میں قاسمی اور ندوی دونوں ہوں۔
مولانا کی اس کتاب کو میں نے جستہ جستہ دیکھا ہے، بہار میں ندوی علماء کے ذکر اور ان کی خدمات کے حوالہ سے یہ کتاب مفید ہے اور حوالہ جاتی کتب میں شامل ہونے کے لائق ہے، میں اس کتاب کی تالیف پر مولانا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور اس کے قبول عام وتام کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔