نام کتاب: 15 منٹ پولیس ہٹا دو
مولف : شیخ صالح
سن اشاعت : 2024
تعداد : 200
قیمت : 250 روپئے
15 منٹ پولیس ہٹا دو کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے جو ہندوستان کی ریاست حید آباد سے جاری سیاسی مظالم کی داستان بیان کرتی ہے۔ اس کتاب کے مولف کا نام شیخ صالح ہے جو کہ حیدر آباد سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی کافی متحرک دیکھے جاتے ہیں ۔ اس کتاب سے پہلے مولف نے دیگر چار کتابیں تالیف کی ہیں جن میں غنڈہ گردی اور سیاسی غنڈہ گردی ، تلنگانہ کل اور آج ، سنہرا تلنگانہ ، اس کے علاوہ ایک کتاب (جو کہ تیلگو زبان میں ہے )ہیں ۔ اگر اس کتاب پر کھل کر بات کی جاٸے تو حقیقت میں اس کتاب ان دو سیاسی لیڈروں کے مظالم کا ذکر بڑے بے باکانہ انداز میں کیا گیا ہے جو سابقہ تلنگانہ سرکار میں رہتے ہوئے وہاں کہ عوام پر کرتے رہے ہیں یعنی اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی برادران ۔ اس کتاب کے تین باب بنائے گئے ہیں جس میں 23 الگ الگ مضامین اچھے انداز میں تحریر کئے گئے ہیں ۔
مولف نے اپنے ابتدائیہ میں ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت پر دونوں بھائیوں کے والد کا کردار 2012 کی انتہائی افسوس ناک اشتعال انگیزی دونوں دھوکوں میں اہم ترین اور عظیم ترین دھوکہ کون سا ہوگا کا تعین کرنے میں مجھے کوئی دشواری اور دقت پیش نہیں آئی ۔ میری سوچ اور میرے خیال سے دونوں دھوکوں میں بابری مسجد کی شہادت پر دونوں بھائیوں کے والد کا کردار اہم دھوکہ قرار پاتا ہے کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو بڑے سکھاتے ہیں اور بچے ویسا ہی کرتے ہیں جیسا اپنے والدین سے تربیت پاتے ہیں ۔
اکبر الدین اویسی کا ایک ڈائیلاگ کافی مشہور ہوا کرتا تھا انہوں نے حکومت کو للکار کر کہا کہ 15 منٹ پولیس ہٹا دو تو ہم بتا دیں گے کہ ہندوستان میں کون کس پر بھاری پڑے گا۔ میرا ماننا ہے کہ اس ملک ہندوستان میں اس طرح کی اشتعال انگیز تقریروں کی کوئی جگہ نہیں جہاں بہت سے مذہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ ایسی تقریریں آپسی بھائی چارے کو قتل کر کے بین المذاہب عداوت کی بیج بو دیتی ہیں ۔ مولف نے اس تعلق سے بھی اپنی کتاب میں ایک مضمون رکھا ہوا ہے ۔ مولف کہتے ہیں کہ 1947سے پہلے جو رعب و دبدبہ جناح کو حاصل تھا وہی رعب اور خودساختہ دبدبہ دونوں بھائیوں یعنی اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی کو حاصل ہے ۔ 1947سے پہلے جو بھی جناح کا نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتا وہ فوری اپنی برادری سے کٹ جاتا ، اپنے محلہ میں بیگانہ ہو جاتا اور عام مسلمان اس کی دور اندیشی کی ہمت کرنے کے بجائے اس پر لعنت وملامت کیا کرتے یہی وجہ ہے کہ 1947 سے پہلے بہت سے مسلم قلمکار جناح پر لکھنے اور کھل کر تنقید کرنے سے بچتے تھے ۔ بالکل ایسے آج بہت سے مسلم قلمکار دونوں بھائیوں کے خلاف میدان میں آنے سے اس لئے کتراتے ہیں کیونکہ وہ حضرات نہ اپنی برادری سے کٹنا چاہتے ہیں اور نہ اپنے محلہ میں بیگانوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ مولف نے اپنے ایک اور مضمون میں کہا کہ اسد الدیں اویسی اور اکبر الدین اویسی کی تقریریں ہندوستانی مسلمانوں کو اسی طرف لے جا رہی ہیں جہاں 1947 میں مسلمانوں کو جناح نے چھوڑا تھا ۔ مولف نے ایک اور ادوسرے مضمون میں کہا کہ قیمتی شیروانی کے اوپر گندے بھیجے اور زہریلی زبان لیے گھومنے والے دونوں بھائیوں کو جس طرح کی تربیت زبان کی زنبیل میں عیاری ، مکاری ، لفاظی اور جھوٹ فریب جیسے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے والے والد نے دی ہے ۔ مولف نے کہا کہ دونوں بھائیوں کی حماقتوں ، اشتعال انگزیزیوں اور بلیک میلنگ کو سمجھنے کےلئے ہمیں پھر 1940 کے آس پاس کے واقعات اور جناح کے مطالبات واشتعال انگیزیوں کو سمجھنا ہوگا ۔ مولف نے کہا کہ جو لوگ اپنی قوم اور اپنے ملک سے غداری کرتے ہیں ان کی نسلیں گمنامی کے اندھیروں میں دفن ہو جاتی ہیں ۔ جس طرح تاریخ اور ایمان دو باکل الگ الگ موضوع ہیں اسی طرح موجودہ دور میں مکار بھائیوں و رہنماﺅں کی سیاست اور احکام اسلام میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ان کی تقاریر سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ دونوں بھائیوں کی شر انگیزیوں کا سرا کہیں اور ہے، دونوں بھائی ہندو مسلم تعلقات کو جس طرح ملیامیٹ کرتے جا رہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں مشن ان کا اصل مقصد کسی سے بدلا یا انتقام لینا نہیں بلکہ صرف انتشار پھیلانا ہے ۔ مولف کا کہنا ہے کہ 2014سے بعد کا دور ایک طرف دونوں بھائیوں کی سیاست کے روشن ترین دور کا آغاز کر رہا ہے تو دوسری طرف 2014 کے بعد کا دور مسلم سیاست کے تاریک ترین دور کے ابتداءکا بھی رہا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ میں دھوبی کے گدھے کی مثال بن چکے میر جعفر و میر صافق جیسے لوگ ہر قوم میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے مگر یہ دونوں بھائی تو میر جعفر ومیر صادق کے بھی باپ نکل گئے اور چاہتے ہیں کہ ہر حال میں مسلمانوں پر آفت نازل ہو اور ان کے در د سے اپنی روٹیاں سیکھتے رہیں ۔ مسلمانوں کو اپنے ملک میں خوف و دہشت سے نکل کر امن و سکون کے ساتھ ترقی کرنے اطمینان سے زندگی گزارنے کی پوری گنجائش اور چھوٹ ہے لیکن دونوں بھائیوں کے بے ڈھنگے بیانوں سے ہمیشہ ہم کو کہنا پڑتا ہے کہ ہم ملک کے وفادار ہیں پکے ہندوستانی ہیں ۔ آج تک ہندوستان کے کسی غیر مسلموں نے مسلمانوں کا ویسا نقصان نہیں کیا جس طرح تاتاری ، تیموری اور نادر شاہ نے کیا تھا اور وہی معاملہ آگے چل کر اسد اویسی اور اکبر اویسی نے تھام رکھا ہے ۔
مولف نے دوسرے باب میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہذب آدمی کی طرح بات کرنے والے وحشی جانوروں کی طرح نقصان پہونچانے والے داڑھی اور ٹوپی اور شیروانی پہننے والے کسی مسلم جماعت کے صد ر پر مسلم تنظیم کے صدر پر اور کسی سیاسی پارٹی کے مسلمان لیڈر پر بھروسہ کرنا موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہیں ۔ سیاسی تاریخیں بتاتی ہیں کہ اقتدار کسی ایک کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہتا وہ بدلتا رہتا ہے ۔ کسی بھی ملک کےلئے امن سب سے بڑی برکت ہوتا ہے ، اور اس امن کو برقرار رکھنے کےلئے ایک عام آدمی ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ سب سے بڑی ذمہ داری ان سیاسی لیڈران کی ہے جو عوام کے لیڈر بنے بیٹھے ہیں ۔