اس کارگاہِ ہستی میں لوگ آتے ہیں اور وقت مقر رہ تک اپنی زندگی گذارنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا حافظہ انہی لوگوں کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے جن کی زندگیاں ایک معین اور متعین نصب العین کے تحت گذرتی ہیں جو دنیا میں دینے کے لئے آتے ہیں لینے کیلئے نہیں۔ اور اسلامی تناظر میں بقول علامہ اقبالؒ کے
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی
جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ دو روز قبل یہ اندوہناک و المناک خبر پڑھ کر کلیجہ منہ کو آگیا، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور سینہ پھٹ کر رہ گیا، ذہن و دماغ میں لرزہ طاری ہوگیا ، یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ ہم سب کے مخدوم و مربی، استاذ الاساتذہ *حضرت مولانا عبد العزیز صدیقی صاحب سابق صدر جمعیت علمائے نیپال* ہم سب کو الوداع کہہ گئے ۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
لله ما أخذ وله ما اعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى۔
اسی نسبت سے *آج مورخہ ٢٢ ذوالحجة ١٤٤٥ مطابق 29 جون 2024 بروز سنیچر* فاضل گرامی قدر حضرت *مولانا مفتی شمیم اختر قاسمی صاحب* کے گھر پر ایک تعزیتی اور دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت گجرات کے ایک مایہ ناز عالم دین ،بیسیوں کتابوں کے مصنف، مقبول و محبوب استاذ حضرت مولانا *مفتی انعام الحق قاسمی نقشبندی* صاحب دامت برکاتہم نے فرمائی ۔ پروگرام کا آغاز عزیزم *حافظ یاسر کلیم* کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ تعارفی گفتگو کے دوران مولانا *نظام الدين قاسمی مکی* نے کہا کہ حضرت مولانا عبد العزیز صدیقی رحمہ اللہ اپنے علاقے میں امت مسلمہ کے عظیم سپوت ہونے کے ناطے علومِ ولی اللہی، فکرِ نانوتوی کے امین و پاسباں تھے ، ترجمانِ فکر دیو بند تھے ، نمونہ اسلاف ، فرشتہ صفت اور اس دور پرفتن میں بزرگوں کی نشانی تھے ، علم میں پختگی ، گہرائی و گیرائی تھی ، خالص علمی شخصیت کے مالک تھے ، صلاحیت و صالحیت کا حسین امتزاج تھے ، چہرے مہرے پر عبادت و ریاضت، رب کریم کے حضور سربسجود ہونے کی نشان یہ ظاہر کرتی تھی کہ خشوع و خضوع، اخلاص و للہیت، تقوی و پرہیزگاری، زہد و ورع ، خوف و خشیتِ الہی جیسی صفات و کمالات سے متصف تھے ۔ *مفتی شمیم اختر قاسمی مکی* نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مولانا مرحوم کو اللہ پاک نے علم کے ساتھ حلم و تدبر سے بھی نوازا تھا ،صبر و تحمل میں اپنی مثال آپ تھے ،آپ کی مجلس میں دوست و دشمن سب برابر تھے ،جمعیت و جماعت کی قیادت و سیادت کا خوب ملکہ اللہ پاک نے عطا فرمایا تھا ، ساتھ ہی حضرت رحمہ اللہ اخلاص کے پیکر تھے، محبت و عنایت کے چشمہ صافی تھے، بے لوث جد وجہد کی مجسم تصویر تھے ، قوم و ملت کے بہی خواہ تھے ، امت مسلمہ کے لئے محسن تھے ، سادگی، خلوص، شیریں مزاج اور نرم خو تھے ، انکا جانا قوم و ملت کا بڑا نقصان ہے۔ ڈاکٹر مولانا محمد نعمت اللہ صاحب قاسمی مکی* نے اپنی تعزیتی گفتگو کے دوران فرمایا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ اتحاد ملت کے داعی تھے ،اس پرفتن دور میں جہاں ہر طرف افتراق و انتشار کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں، مولانا مرحوم وحدت امت اور اختلاف سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ مفتی کلیم اختر قاسمی مکی صاحب* نے فرمایا کہ حضرت رحمہ اللہ عرصے تک اپنی علمی بصیرت اور غیر معمولی قیادت کی وجہ سے جمعیت علماء نیپال کے باوقار منصب پر فائز تھے ، بڑے ہی خوش اسلوبی سے پورے علاقے کے عائلی، معاشرتی اور سماجی مسائل کی تصفیہ اور حل فرماتے تھے، انکی شخصیت پورے علاقے کے لئے زینت تھی، پورے علاقے میں اپنے سیرت و کردار ، علم و عمل اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے سب کے منظور نظر اور ہر طبقہ میں مقبول و محبوب تھے ، دینی، ملی سماجی خدمات کے لئے فعال و متحرک رہتے تھے، دینی و اصلاحی اجتماعات، تعلیمی و ثقافتی کانفرنسوں کی زینت ہوا کرتے تھے، اخیر میں صدر محترم حضرت *مولانا مفتی انعام الحق قاسمی نقشبندی* صاحب دامت برکاتہم نے اپنی قدرے طویل صدارتی گفتگو کے دوران مولانا مرحوم کی چند انفرادی خصوصیات کی طرف توجہ دلائی۔مولانا رحمہ اللہ کی مقبولیت و محبوبیت کی دلیل ہے کہ آج ہم سب انکی نسبت سے جمع ہیں،
جو اللہ کی نظر میں محبوب ہوتا ہے، اللہ پاک بندوں کے دلوں میں انکی محبت ڈال دیتے ہیں، اللہ پاک حضرت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ پروگرام میں شریک ہونے والوں میں ہندو پاک اور نیپال سے حج پر تشریف لائے ہوئے علمائے کرام، مفتیان عظام اور دیگر مہمانوں کی ایک بڑی تعداد نے پروگرام کے حسن کو دوبالا کردیا ۔ ان مہمانوں کے علاوہ فاضل گرامی قدر مفتی کلیم اختر قاسمی مکی ،مولانا امروز صاحب، مولانا نعمان صاحب، مولانا فیروز صاحب قاسمی نے شرکت فرمائی ۔