تالیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی
ماخوذ:مشاہیر علماء کرام (زیر طبع)
میر صاحب گورکھپور کے رئیس أعظم ذوالفقار علی خاں کے فرزند ارجمند تھے، سید صاحب سے بیعت کے بعد اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کر دی،آپ کے ساتھ ہجرت کی، چونکہ عالم تھے اس لیے منشی خانے سے وابستہ ہو گئے۔ دوران جہاد میں اتنی مشقتیں اٹھائیںکہ وضع وہیئت بدل گئی، چنانچہ سید جعفرعلی نقوی جہاد کے لیے سرحد پہونچے اور’’ امب‘‘ میں میر فیض علی سے ملاقات ہوئی تو سابقہ معرفت کے باوجود انہیں پہچان نہ سکے، ان کی جفاکشی کا یہ حال تھا کہ’’ امب‘‘ میں فصل کاٹنے کے بعد مجاہدین غلہ ڈھونے لگے، تو میر فیض علی نے زیادہ بوجھ اٹھا لیا اور انہیں بڑی تکلیف ہوئیـ، سید صاحب نے حکم دے دیا کہ جو لوگ منشی خانے سے وابستہ ہیں وہ غلہ نہ ڈھوئیں، میر فیض علی اس کے بعد بھی اپنے کام میں لگے رہے، ان سے کہا گیا کہ معافی کے بعد آپ کو مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا: فرضیت تو ساقط ہو گئی مگر بہ نظر استحباب یہ کام انجام دے رہا ہوں۔
پھولڑہ پر یورش:
شوال ۱۲۴۵ھ کے اواخر یا ذی قعدہ کے اوائل میں پھولڑہ پر یورش کا فیصلہ ہوا، تو سید احمد علی رائے بریلی لشکر کے امیر مقرر ہوئے، انہوں نے چاہا کہ سید جعفر علی نقوی کو بطور منشی اپنے ساتھ لے جائیں جو نئے نئے سرحد پہونچے تھے، میر فیض علی کو اس لیے ساتھ نہ لے جانا چاہتے تھے کہ پرانے منشی ہیں، اور خط وکتابت کے طور طریقوں سے واقف ہونے کی بنا پر مرکز میں ان کی زیادہ ضرورت ہے، یہ معاملہ سید صاحب کے پاس پہونچا تو انہوں نے سید جعفر علی نقوی اور میر فیض علی دونوں کو بلا کر پوچھا کہ کون لشکر کے ساتھ جانا پسند کرتا ہے؟دونوں نے عرض کیا: جسے حکم ہو، سید صاحب نے میر فیض علی سے فرمایا کہ آپ کا یہ بھائی لمبی مسافت طے کر کے یہاں پہنچا ہے، تکان ابھی دور نہیں ہوئی، بہتر یہ ہے کہ آپ چلے جائیں، انہوں نے عرض کیا: بہ سر وچشم، اس طرح میر فیض علی سید علی کے ساتھ پھولڑہ گئے، اور امیر لشکر سے پیشتر پہنچ کر دامن کوہ سے فاصلے پر میدان میں ڈیرے ڈال دیئے، سید احمد علی نے پھولڑہ پہنچ کر فرمایا کہ میدان سے اٹھ کر دامن کوہ میں ٹھہرنا چاہئے، میر فیض علی نے جواب دیا کہ ہم جہاں ٹھہرے ہیں، وہاں مورچے بنا لیے ہیں، اب اس جگہ کو چھوڑنا مناسب نہ ہوگا۔
شہادت:
لڑائی کی مفصل کیفیت ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ میں بیان کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سکھوں نے اچانک صبح کی نماز کے وقت حملہ کیا، وہ سب سوار تھے، میدان میں ادھر اُدھر بکھر گئے، مجاہدین نے مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ان کا پیچھا کیا، وہ ایک دم اکٹھا ہو گئے اور مجاہدین متحدہ حیثیت میں ان کا مقابلہ نہ کر سکے، جا بجا شہید ہو گئے۔ ان میں امیر لشکر اور بہت سے دوسرے اکابر بھی تھے، میر فیض علی نے بھی اسی جنگ میں شہادت پائی، اور پھولڑہ ہی کی خاک میں وہ محو آرام ہیں، وہ بہت بڑے رئیس کے فرزند تھے اور کوئی دنیوی غرض انہیں سرحد نہ لے گئی تھی، صرف ایک آرزو تھی، کہ کلمۂ حق بلند ہو، اور دین کی خدمت انجام پائے۔
(جماعت مجاہدین، ص ۲۴۹-۲۵۰) (سیرت سید احمد شہید-۲،صفحہ:۱۷۷-۱۸۱)