تصنیف:مولانا عزیزالرحمن سلفی
ماخوذ: مشاہیرعلماء کرام (زیر طبع)
سید قطب علی کا وطن مجھوامیر ضلع بستی یوپی (پرانا گورکھپور) تھا، متوسط درجے کے زمیندار تھے۔ شیخ محمد اسحاق گورکھپوری کے بیان کے مطابق علم وفضل اور زہد وتقوی میں ان کا پایہ بہت بلند تھا، سید صاحب نے شیخ اسحاق کو خلافت دینی چاہی تو انہوں نے قلت علم کے عذر کی بنا پر سید قطب علی ہی کا نام لیا تھا، اس دریائے فیض نے بے تکلف فرمایا کہ سید موصوف کو بھی لے آیئے۔
سید قطب علی سترہ آدمیوں کو لے کر سید صاحب کے پاس اس زمانے میں’’ تکیہ شریف‘‘ پہونچے، جب آپ حج سے واپس آئے تھے، اس قافلے میں ان کے چھوٹے بیٹے حسن علی بھی شامل تھے، بڑے بیٹے سید جعفر علی ’’صاحب منظورۃ السعداء‘‘ اس وقت لکھنؤمیں تعلیم پا رہے تھے، وہ علالت کے باعث ساتھ نہ جا سکے۔
سید قطب علی بہت کبیر السن تھے، رائے بریلی سے ایک کوس کے فاصلے پر زحمت سفر کے باعث بیمار پڑ گئے، تکیہ شریف پہنچے تو ان کی مہمانداری سید صاحب کے بھتیجے سید محمد یعقوب کے سپرد ہوئی، ایک مہینہ ٹھہرے پھر سید صاحب نے مولانا عبد الحی سے خلافت کی سند لکھوا دی۔
سید صاحب کی شہادت کا غم:
قصد ہجرت کی شہرت ہوئی تو سید قطب علی بھی معیت کے لیے تیار ہو گئے۔ سید صاحب نے ضعیفی کے پیش نظر انہیں روک دیا اور فرمایا کہ دعا کرتے رہیے اورہمارے بلاوے کا انتظار کیجئے، امتثال امر میں وہ رک گئے۔سید صاحب کی شہادت کی خبر سن کر بہت روئے، مولوی جعفر علی نقوی کا بیان ہے کہ بار بار فرماتے تھے:’’ کاش میرا بیٹا (سید جعفر علی) مر جاتا اور سید صاحب زندہ رہتے‘‘۔نیز فرماتے تھے کہ’’سید صاحب کے ہاتھوں غلبۂ اسلام دیکھنے کی آرزو تھی اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا‘‘۔
مولوی سید جعفر علی کے بیان کے مطابق انہوں نے فرمایا:
تمنا بود کہ اللہ تعالی از دست حضرت امیر المؤمنین کفار نگو نسار را ازیں دیار پاک کردہ شوکت اسلام معائنہ نماید چوں جناب ممدوح در دنیا نہ ماند ند، ماہم اگر مردیم، چہ غم است
آرزو تھی کہ اللہ تعالی حضرت امیر المؤمنین کے ہاتھوں اس سر زمین کو کافروں سے پاک کرے اور اسلام کا غلبہ دکھائے، امیر المؤمنین زندہ نہ رہے، مجھے بھی موت آ جائے تو کیا غم ہے۔
وفات:
غالباً ۱۲۴۸ھ بمطابق۱۸۳۳ء میں وفات پائی، آخری وقت میں متعلقین کو جو وصیتیں کیں ان میں چند یہ ہیں:
۱- توحید پر قائم رہو، اور سنت کا اتباع کبھی نہ چھوڑو۔
۲- میرے بعد کسی بدعت کا ارتکاب نہ ہونے پائے، ورنہ قیامت کے دن تم سے مؤاخذہ کروں گا۔
۳- میرے مرنے پر نہ نوحہ کیا جائے، نہ سوم یا کوئی دوسری رسم منائی جائے۔
(جماعت مجاہدین، صفحہ:۱۹۱- ۱۹۲)