مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
15/ اگست1947ء رات کے بارہ بجے، ہندوستان کے گلے سے برطانیہ کی غلامی کا طوق اتر گیا، جبر واستبداد کی بیٹریاں کٹ گئیں، پوراملک آزادی کی خوشی منا رہا تھا، کیا شہر، کیا دیہات، کیا بنگلہ کیا چوراہا؛ بلکہ کھیت کھلیان تک پر آزادی کا جشن منایا گیا، سہتر(77)سال بیت گئے اس دن وتاریخ کو، آزادہندوستان کے سہتر(77)سال، کیا کھویا، کیاپایا یہ ایک الگ کہانی ہے، طویل داستان ہے، سترسال کی بھی اور اس سے قبل جد وجہد آزادی کے پورے دو سوسال، 1757ء سے 1947ء کی بھی ان دو سو سالوں میں سے پورے ایک سو سال ہم تنہا لڑ رہے تھے، انگریزوں سے نبرد آزما تھے، دوسرے مذاہب کے لوگ انگریزوں کے ہم نوا تھے، کئی ان کے تلوے چاٹ رہے تھے،مسلمانوں کی جانب سے چلائی جا رہی آزادی کی تحریک کو سبوتاز کرنے میں لگے تھے، ان میں اپنے بھی تھے اور غیر بھی، اسی سازش کا نتیجہ تھا کہ سراج الدولہ کو پلاسی کی جنگ میں نہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا؛بلکہ تین ہزار انگریزی فوج کے مقابلے سراج الدولہ کی ستر ہزارفوج کومنہہ کی کھانی پڑی، 22/ جون 1957ء کی تاریخ کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے جب سراج الدولہ کے جسد خاکی کو سڑکوں پر گھمایاجا رہا تھا، ایک مجاہد کی لاش،جس نے شہادت قبول کی؛ لیکن انگریزوں کی غلامی نہیں، غداروں میں سر فہرست میر جعفر تھا، غداری کا صلہ بنگال کی نوابی کی شکل میں ملا، لیکن غداری الگ چیزہے اور نوابی الگ چیز ہے، اس کی نا اہلی نے پہلے اسے معزول کرایا، پھر محمد قاسم منتخب ہوا، لیکن شجاع الدولہ کی بے وفائی نے بکسر میں ہونے والے معرکہ کا رخ بدل دیا، اور شاہ عالم جو شجاع الدولہ کا اس جنگ میں حلیف تھا،اسے بھی ہزیمت اٹھانی پڑی، یہ معمولی لڑائی نہیں تھی، اس شکست نے انگریزوں کی غلامی کا پرچم اودھ سے لے کر بنگال تک لہرا دیا، تاریخ 22/ اکتوبر 1765ء کی تھی۔
1761ء میں حیدر علی نے میسور کا اقتدار سنبھالا اور ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے مقابل اتارا، اس وقت ٹیپو سلطان کی عمر صرف سترہ سال تھی کئی معرکوں میں انگریزوں کو پسپائی ہوئی، دب کر اسے صلح کرنی پڑی، حیدر علی کی وفات کے بعدحکمرانی شیر میسور ٹیپو سلطان کے حصہ میں آئی 1784ء میں جب ان کی حکومت کو صرف دو سال ہوئے تھے، انہوں نے انگریزوں کے خلاف تحریک چھیڑ دی، 3/ مئی 1786ء کو اس مہم کو انہوں نے جہاد کا نام دیا اور عوام میں ایسا جوش بھر دیاکہ ہر خاص وعام انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ا، ٹیپو سلطان کا یہ قول تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“ شیرمیسور نے اس کو عملًا برت کر دکھایا اور جب یہ شیر غداروں کی وجہ سے 1799ء مطابق 1213ھ کو شہید ہوا تو انگریزوں نے اعلان کر دیا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے، لیکن اس ملک کے علماء نے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا، ان کا زور تھا کہ ہندوستان غیر ملکیوں کا نہیں، ہندوستانیوں کا ہے۔
1789ء، 1803ءاور 1806ء میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے کئی فتاوے آئے جن میں اعلان کیا گیا تھا کہ ہندوستان دار الحرب ہے، اس فتوے نے حضرت سید احمد شہیدؒ،مولانا اسماعیل شہید ؒ، حضرت شاہ رفیع الدینؒ، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ وغیرہ کو انگریزوں کے خلاف کھڑا کر دیا، بہار کی سر زمین سے خانوادہ صادق پور کے علماء بھی اس میں پیش پیش رہے اور ان میں سے کئی نے پھانسی کے پھندے کو چوما، کئی لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور کئی کو کالا پانی بعبور دریا ئے شور کی سزا ملی، اس جلا وطنی میں کئی لوگ انڈمان نکوبار میں ہی سپرد خاک ہوئے، ابتلاء وآزمائش اور سزاؤں کے اس دور میں بھی مسلمان تنہا ہی تھے، 1818ءتک یہ تحریک اس قدر مقبول ہو چکی تھی کہ جنگ آزادی میں یہ ایک نئے عہد اور نئی تاریخ کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی تحریک کے جاں بازوں میں ایک حاجی شریعت اللہ تھے، جن کی تحریک تو فرائضی تحریک کہی جا تی ہے،لیکن یہ ایک نقاب تھا جوا س تحریک پر ڈالا گیا تھا ورنہ مغربی بنگال میں حاجی محسن عرف دودھو میاں کی رفاقت میں اس تحریک نے انگریزوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا، مولوی نثار علی عرف تیتو میاں نے 23/ اکتوبر 1830کو انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا، 19/ نومبر 1831ء کو اس کا رواں کے افراد انگریزوں کی توپ کا مقابلہ نہ کر سکے اور کچھ نے شہادت پائی اور کچھ نے ہتھیار ڈال دیے، حیدر آباد دکن میں مولانا سید محمد علی رام پوری، کیرالہ میں مولانا شیخ محسن کرکلی، قاضی عمر بلنکوٹی، سید علوی منفری، سید فضل وغیرہ بھی پیش پیش رہے اور ان حضرات کی کوششوں سے ہندومسلمانوں کو لڑانے کی موبلاشورش ناکام ہو ئی۔ 1857ء میں مشہور جنگ آزادی لڑی گئی، جسے ناکام ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ اس کا آغاز تو میرٹھ سے ہوا تھا اورا س کی منصوبہ بندی میں نانا صاحب اور عظیم اللہ خان کا اہم کردار تھا، لیکن اس تحریک کو ملک گیر بنانے کا سہرا مولانا احمد اللہ شاہ مدراسیؒ کے سر جاتا ہے، جنہوں نے آگرہ، دہلی میرٹھ، پٹنہ اور کلکتہ کا سفر کرکے عوام کے اندر جذبہئ جہاد پیدا کیا اور جنوبی ہندوستان راجستھان اور پنجاب کو چھوڑ کر پورا ملک اس تحریک میں شریک ہو گیا، یہ وہ موقع تھاجب جدوجہد آزادی میں برادران وطن بھی شریک ہوئے، منگل پانڈے، جھانسی کی رانی، نانا صاحب، بیگم حضرت محل، تانیاٹوپے،بہادر شاہ ظفر اس تحریک آزادی کے بڑے سورما تھے، جن کو ہندوستان کی تاریخ میں یاد رکھا گیا ہے، لیکن اسی تحریک میں شامل، شاملی کے میدان میں جیالے حافظ ضامن شہیدؒ،مولانا محمد قاسم نانوتویؒ(متوفی1880ء)،مولانا رشید احمد گنگوہی(متوفی 1905ء) حاجی امداد اللہ مہاجرمکی (متوفی 1899ء)کو کم یاد کیا جاتا ہے،حالانکہ ان جیالوں نے جس طرح انگریزی حکومت سے لوہا لیا اور بے سروسامانی کی حالت میں قربانی دی، وہ تاریخ کا زریں باب ہے اور شاملی کا میدان آج بھی اس کا گواہ ہے۔
اس تحریک کی ناکامی کے بعد علماء دیو بند کو غلام ہندوستان میں اسلامی علوم، تہذیب وثقافت کے تحفظ کا خیال زور پکڑنے لگا، ان زخمی شاہینوں کو ایک ایسی کمین گاہ کی بھی ضرورت تھی جہاں سے انگریزوں کے خلاف تحریک جاری رکھی جا سکے،ضرورت ایک ایسے محاذ کی تھی جس میں جیالے تیار بھی کیے جائیں اور فوری طور پر انگریزوں سے محاذ آرائی کی نوبت نہ آئے، چنانچہ دار العلوم دیو بند کا قیام عمل میں آیا، جس نے اسلامی عقائد وافکار،علوم نبوت اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کے ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ،مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا عزیز گل پشاوریؒ، مولانا منصورا نصاریؒ، مولانا فضل ربیؒ، مولانا محمد اکبرؒ، مولانا احمد چکوالیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒجیسے مجاہدین آزادی اس ملک کو دیئے۔
1884ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، بدر الدین طیب جی اور رحمت اللہ سیانی مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے اس اجلاس میں سر فہرست تھے ،1885 ء میں کانگریس کا قیام عمل میں آیا،1887 ء میں کانگریس کے چوتھے اجلاس کی صدارت بدر الدین طیب جی نے کی،یہ اجلاس اس وقت کے مدراس اور آج کے چنئی میں منعقد ہوا تھا،1912ءمیں ریشمی رومال تحریک کی ابتدا دیو بند سے ہوئی، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ نے اپنے رفقاء اور قابل اعتماد شاگردوں کے ساتھ اس کا منصوبہ بنایا، قبل از وقت اس راز کے کھل جانے کی وجہ سے اس تحریک کوناکامی کا سامنا کرنا پڑا1916ء میں شریف حسین نے آپ کو گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالہ کر دیا اور 1917ء میں آپ کو جلا وطنی کی سزا دے کرمالٹا بھیج دیا، آپ کے نامور تلامذہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عزیز گل پشاوریؒ،مولانا نصرت حسینؒ، مولانا وحید احمدؒ وغیرہم بھی اپنے استاذکے ساتھ برسوں قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، 1919ء میں جلیاں نوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا، جس میں ہزاروں لوگوں پر جنرل ڈائر کے حکم سے گولیا ں چلائی گئیں اور بڑی تعداد میں ہندوستانی شہید ہوئے،اس حادثہ نے آزادی کی جد وجہد میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا اور پورا ہندوستان چند مفاد پرستوں کو چھوڑ کر اس تحریک کا حصہ بن گیا، گاندھی جی 1915ء میں افریقہ سے لوٹ آئے اور1920ء سے تحریک آزادی میں پیش پیش ہو گیے، خلافت تحریک نے خالص مذہبی تحریک ہونے کے باوجود ہندومسلم اتحاد کو فروغ دیا اور جس کا بڑا فائدہ جد وجہد آزادی کو پہونچا، اب اس قافلہ میں گاندھی کے ساتھ علی برادران یعنی مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ، علماء دیوبند جن کے نام تفصیل سے اوپر آچکے ہیں شامل ہو گئے،بانی امارت شرعیہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ،مولانا فاخر الہ آبادیؒ، مولانا آزاد سجانیؒ، سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خانؒ، مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ،مولانا آزاد سبحانیؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا احمد سعید دہلوی ؒ،مولانا شفیع داؤدیؒ، مولانا مظہر الحقؒ وغیرہ کے اس قافلہ میں پوری توانائی کے ساتھ شرکت کرنے کی وجہ سے اس تحریک نے فروغ پایا، 1919ء میں جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے بعد مسلمانوں کی توجہ اس طرف ہوئی۔ داستانیں ابھی اور بھی ہیں 1921ء میں موپلا بغاوت، 1922ء میں چورا چوری کانڈ 1925ء میں کاکوری کیس 1930ء میں سول نا فرمانی تحریک،1942ءمیں ہندوستان چھوڑو تحریک 1946ءمیں بحری بیڑے کی بغاوت؛ یہ سب اس جد وجہد آزادی کے جلی عنوان ہیں، خواتین نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا، علی برادران کی ماں بی اماں، سرجنی نائڈو، بی بی امت الاسلام، زینت محل، کستوربا گاندھی، کملا نہرو، سکینہ لقمانی، اہلیہ شفیع داؤدی کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس موقع سے رام پرشاد بسمل، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا، جنہوں نے ہنستے ہنستے ملک کو آزاد کرانے کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چومنا اور اس پر جھولنا پسند کیا، ان شہیدوں کے خون کی لالی ہمارے ترنگا کا اہم رنگ ہے، اور ہم اسے کسی طور فراموش نہیں کر سکتے، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر، ڈاکٹرراجندر پرشاد، پنڈت جواہر لال نہرو، مدن موہن، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی صلاحیتوں سے بھی تحریک کو بہت حوصلہ ملا۔ آزادی کی اس لڑائی کو عوامی بنانے میں ملک کے اخبارات ورسائل نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی، امارت شرعیہ کے ترجمان ”امارت“ کی ضمانت ضبط ہو گئی اور اس کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے ایڈیٹر کو قید وبندکی صعوبت دی گئی، چنانچہ اس کا نام بدل کر نقیب کر دیاگیا،مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال،البلاغ، مولانا محمد علی جوہر کا ہمدر د، مولانا حسرت موہانی کی اردوئے معلیٰ، مولانا ظفر علی خان کے زمینداروغیرہ نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی، اردو نے آزادی کی تحریک کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور ڈاکٹر محمد اقبال نے ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ جیسی نظم کہہ کر حب الوطنی کا ثبوت دیا، یوں سب کی قربانیوں کے طفیل ہندوستان آزاد ہوا، ملک کوسیاستدانوں نے دوحصوں میں تقسیم کردیا، آزادی کا سورج طلوع ہوا تو زمین خون سے لالہ زار تھی، دونوں ملکوں سے لوگ منتقل ہو رہے تھے، زمین جائیداد، بنگلے کوٹھیاں سب چھوڑ گئے، مسجدیں ویران ہو گئیں اور جاتے ہوئے بہت ساروں نے غیروں کے ہاتھوں دنیائے فانی سے جہان باقی کی طرف کوچ کر لیا، دل ٹوٹنے لگے اور ٹوٹتے چلے گیے، مولانا آزاد کی مؤثر تقریر بھی ملک چھوڑنے والوں کے لیے غیر مؤثر ہو گئی، جو اس ملک میں رہ گیے انہوں نے بائی چانس (By Chance)سکونت نہیں اختیار کی (By Choice)یہاں رہنا پسند کیا، ہندوستان ان کی پسند تھی، چنانچہ انہوں نے اپنی ساری توانائی اور ساری صلاحیتیں اس ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے لگادیں، ملک پر آفت آئی تو ویر عبد الحمید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ٹینک کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔