Articles مضامین

آبروئے اردو صحافت خورشید پرویزصدیقی چل بسے: سید احمد قادری

معروف صحافی خورشیدپرویزصدیقی 9 جنوری 2025 ء کی صبح چار بجے رانچی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے ۔ آج ظہر بعد رانچی میں ہی انھیں ان کی تجہیز و تفکین ہوئی ۔ 2 ؍ دسمبر 1945 ء کو بہار کے باڑھ ( سابق پٹنہ ضلع )میں ان کی پیدائش ہوئی تھی اوروہ پوری زندگی اردو صحافت کی خدمات میں ہی مصروف رہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ خورشیدپرویزصدیقی اردوصحافت کی آبرو تھے۔ اپنی بے باک ، بے لاگ اوربے خوف صحافتی تحریریں ہی ان کی پہچان رہی ہیں۔ میں انھیں آبروئے اردو صحافت ان سے کسی عقیدت کی بنا ٔ پر نہیں بلکہ حقیقت کا اعتراف میں کہہ رہا ہوں ۔ گزشتہ پچاس برسوں سے کم و بیش میرا بھی تعلق اردو صحافت سے ہے اور ہر روز میں بڑی تعداد میں اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں ۔ اس مطالعہ کے دوران میں بہت سارے اخبارات کے اداریوں کے ساتھ ساتھ خورشیدپرویزصدیقی کا بھی اداریہ پڑھتا رہا ہوں اور چند ہی اداریوں کے مطالعہ کے بعد میں چونک پڑا تھا کہ آج جب کہ صحافت عبادت کی جگہ تجارت بن گئی ہے ، کون ہے یہ شخص جو اردو صحافت کو عبادت کے طور انجام دے رہا ہے۔ ان کے اداریوں میں جو بے باکی ، بے خوفی اور جرأت و حوصلہ کی تپش ہی نہیں بلکہ بھڑکتے شعلوں کی لپٹیں ہوتی تھیں، انھیں میں نے شدت سے محسوس کیا جو عہد حاضر میں لکھے گئے اداریوں سے بلا شبہ مختلف اور منفرد ہیں ۔ اس کے بعد ان کے دوسرے کالم ’’ شذرات ‘‘ وغیرہ پڑھنا شروع کیا اور ’شذرات ‘ میں مختلف موضوعات پر ان عالمانہ گفتگو دیکھی ۔ جن میں طنز کی گہری کاٹ کے ساتھ ہی مزاح کے عنصر بھی نمایاں ہوتے ہیں ۔خورشید پرویز صاحب کا مطالعہ و مشاہدہ تو عمیق تھا ہی، ان کی یادداشت بھی غضب کی تھی۔ موضوع خواہ کوئی بھی ہو وہ ایسی ایسی پرانی اور لوگوں کے ذہن سے محو ہو جانے والی باتوں کا ریفرینس دینا شروع کرتے تھے کہ عقل حیران رہ جاتی تھی ۔ جب کبھی کسی کتاب یا شخصیات کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کرتے ،تو اس طرح کرتے کہ پڑھنے والا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائے ۔ خاص بات یہ ہوتی تھی کہ پورے پوسٹ مارٹم کے دوران کبھی بھی سنجیدگی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے ۔ ان ایک جملہ یاد آتا ہے ۔ کسی کے بارے میں لکھا تھا ’’ ۔۔۔۔۔ وہ لکھتے توبہت اچھا لیکن قینچی اور گوند کا استعمال زیادہ کرتے ہیں‘‘ بس صرف ایک جملہ میں انھوں نے اس شخص کی ساری ہیکڑی نکال دی ۔ ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں جملے ہیں، جنھیں یاد کرکے ان کی صلاحیتوں پر عش عش کیا جا سکتا ہے۔ ان ہی سب خوبیوں نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا اور میں ان کی عظمت کا قائل ہو گیا ۔ مجھے لگا یہ شخص اردو صحافت کی آبیاری میں اپنا سب کچھ کھو چکا ہے اور اب اس کے پاس کھونے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے ۔ آدمی وہیں پر سپر ڈالتا ہے جہاں اسے کچھ یا بہت کچھ پانے کی تمنّا ہوتی ہے ۔ لیکن خورشید پرویز صدیقی کو نہ کبھی ستائش کی تمنّا رہی اور نہ ہی صلے کی پرواہ ۔۔۔۔۔۔ ایسا شخص کبھی کسی آگے جھکتا ہے اور نہ ہی کسی سے سمجھوتہ کرتا ہے بس اپنے دل کی آواز اور اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنا اپنا صحافتی ، انسانی اور اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے ۔ایسے فریضہ کی ادائیگی میں یقینی طور پر اسے قلبی سکون ملتا ہے ۔ نہ کسی سے ڈر ، نہ خوف ، نہ دہشت اور ہی کوئی لالچ۔ دنیا اس کی بیان کردہ سچائیوں اور اس کی تلخ نوائیوں سے خفا ہوتی ہے تو ہوتی رہے ۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو خورشیدپرویزصدیقی سے سچ ، تلخ و شیریں، بیباک ،بے لاگ اور بے خوف ہوکر لکھواتی رہی ہیں ۔ جہاں کہیں ظلم ،حق تلفی ، ناانصافی ،منافرت اور استحصال کا کریہہ منظر نامہ سامنے آیا ۔ خورشیدپرویزصدیقی اپنی قلم کو شمشیر برہنہ کی طرح لے کر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ کسی طرح کی رعایت و مروّت نہیں ، کوئی جانب داری نہیں۔ آج نظر اٹھا کر دیکھئے ، اتناسچ اور بے باک لکھنے والا اپنے ملک کی سرزمین پر تو شاذ و نادر ہی ملے گا ۔ خورشید پرویز صدیقی کی رحلت اردو صحافت کا بڑا خسارہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسا بے باک ، بے خوف اور باکمال صحافی پیدا نہیں ہونے والا ہے ۔

Related posts

نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں

Paigam Madre Watan

اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا ئیے

Paigam Madre Watan

ہندوستان کی کثیر آبادی کو درپیش مسائل

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar