Articles مضامین

  دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

٭صائمہ انصاری


اُدھر چاند نظر آیا نہیں ادھر غیر معمولی طور پر زندگی مکمل تبدیل ہو جاتی ہے گویا یہ ہوائیں، یہ موسم، چرند پرند، چاند تارے اور صبح و شامیں پرنور فضا سے روشن ہو اٹھتے ہیں۔ سماں رونقوں کے حصار میں قید سا ہو جاتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے سب کچھ ایسے تبدیل ہوتا ہے جیسے ہمیشہ کا معمول یہی تھا۔ چاروں اور گہما گہمی اور افرا تفری کا ماحول ہے۔ کوئی تراویح کے لیے بھاگ رہا ہے، کوئی اپنی ٹوپی ڈھونڈ رہا ہے۔ خواتین سحری کی تیاریوں کے منصوبے بنا رہی ہیں۔۔۔۔۔ پھر جو نماز اور تلاوت کا دور دورہ شروع ہوتا ہے تو پھر ماشاء اللہ پورے مہینے قائم رہتا ہے۔ ماہ صیام کی کچھ ایسی ہی لطیف یادیں ہیں جو اکثر یاد آ کر دل کو گدگدا جاتی ہیں۔
نعمتوں اور برکتوں والے اس مہینے کے دو الگ الگ روپ ہیں ایک اس کا حقیقی فلسفہ ہے جو گھر کے بڑے بزرگ پورے سال ماہ رمضان کا انتظار کیا کرتے ہیں کہ کب یہ اللہ کا مہمان مہینہ آئے اور ہم سب توبہ اور مغفرت کے طلبگار رہیں۔ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور اپنے معبود کی رضایت حاصل کریں اور اسی ماہ صیام کا ایک دوسرا روپ بھی ہے جیسے گھر کے بچے زیادہ سمجھتے ہیں اور بڑے بزرگوں سے زیادہ گھر کے چھوٹے بچوں کو ماہ رمضان کا انتظار رہتا ہے۔ ان کی معصوم خوشیاں، اللہ کو راضی رکھنے کے اپنے مخصوص انداز دل کو بڑے بھاتے ہیں۔ آج بیساختہ دل و دماغ بچپنے کے ماہ صیام کی طرف جا رہا ہے جسے قلمبند کر رہی ہُوں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچپن میں ماہ صیام کی رحمت و برکت تو یہی ہوا کرتی تھی لیکن جو ماحول اور رونقیں آج ہیں ذرا مختلف ہوا کرتے تھے۔ بچپن کے روزوں کی خوشی، جوش و جذبے کی تو بات ہی کچھ الگ تھی۔ تب روزے بھلے نہ رکھنے ہوں لیکن پابندی سے سحری اور افطاری میں شریک ہونا ہم اپنا حق اور فریضہ دونوں سمجھتے تھے۔ افطار کے وقت دوپٹہ لپیٹ کر جو شرافت سے دسترخوان پر بیٹھتے گویا دنیا کی تمام شرافتیں آج ہم ہی پر نازل ہوئی ہیں۔ گھڑی کو بار بار ایسے تکتے جیسے سارا روزہ ہم نے ہی تو رکھا ہے۔ ادھر اذان کی صدا گونجی ادھر کھجور ہمارے منہ میں۔ جلد بازی ایسی کہ کھجور کے ساتھ گٹھلی بھی اندر۔۔۔۔ اب کیا،، حیران و پریشان امی کو بتاتے۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتیں۔ آپی اور باقی چچا زاد بہنیں کچھ یوں چٹکی لینا شروع کر دیتے۔
”یہ تو بڑا اچھا ہوا، اب اس بیج سے پیٹ میں کھجور کا پیڑ نکلے گا۔”
تبھی دوسری آپی کہتیں، ”ارے پھر تو اب باہر سے کھجور لانے کی دقت ہی ختم۔۔۔۔” اِدھر تیسری آواز آتی ہے، ”ارے واہ یہ تو ایک نیا کارنامہ انجام دیا گیا اب ہمارے ملک میں کھجور کا پیڑ نکلے گا اور ہم عرب کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔”
اور اس طرح پورا دسترخوان ٹہاکوں سے گونج اٹھتا اور ہم منہ بنائے ہفتوں پیڑ کے انتظار میں پریشان گھومتے۔
سحری کی تو بات ہی انوکھی تھی کیونکہ وہ ہمیں کم کم نصیب ہوتی۔ سونے سے پہلے تو مکمل ارادہ ہوتا اور ایک ایک کر کے گھر کے ہر فرد کو اطلاع بھی کر دیتے تھے کہ ہمیں بھی سحری میں اٹھا دیجئے گا، لیکن ہائے افسوس۔۔۔! یہ دھوکے بعض ظالم دنیا وعدہ خلافی کر جاتی۔۔۔۔۔ اور جب آنکھ کھلتی تو صبح کا سورج طلوع ہو چکا ہوتا لیکن ہمارا نصیب اتنا بھی خراب نہیں جتنا آپ سمجھ بیٹھے۔ کچھ کچھ سحریاں ہمیں نصیب بھی ہوئی ہیں لیکن وہ اس طرح کہ سحری کی جلد بازی میں برتنوں کی آواز ہمارے کانوں کے پردوں کو گد گودانے لگتی اور ہم حالات کو بھانپ کر ایک فوجی کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے۔ بڑے شوق سے سحری کرتے۔ انتظار میٹھے لچّھوں کا ہوتا جو بڑے چاؤ سے کھاتے اور پھر نماز کے لیے کبھی آپی اور کبھی دیگر چچا زاد بہنوں کے ساتھ ایک کونا پکڑ لیتے۔
اب اُس دور کی کیا ہی گاتھا سنائی جائے مشترکہ خاندانی نظام ہوا کرتا تھا، بڑا سا گھر، صحن، چھت، باغیچہ اور جانے کیا کیا۔۔۔۔ گھر کی رونقیں ایسی گویا آج کل کی کِٹی پارٹی۔۔۔۔۔۔!
بچپنے کے وہ کیا دن تھے کہ روزہ ہم قسطوں میں رکھ لیا کرتے تھے۔ صبح اٹھتے جب دوپہر کا وقت آتا، روزہ رکھنے کی اجازت تو نہ ملتی لیکن بہت اصرار پر ایک دن میں دو روزے پر معاملہ طے ہو جاتا اور پھر ہماری افطاری کا وقت دوپہر 12 سے ایک بجے تک ہوتا اور ہم پیٹ کو ہاتھ سے دبائے 12 بجنے کے انتظار میں حیران و پریشان گھومتے۔ تب گھڑی ہماری وہ محبوبہ ہوتی جسے دیکھے بغیر سورج نہ طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب۔
لمبے انتظار اور جدوجہد کے بعد گھڑی کی سوئی 12 بجا ہی دیتی اور ہماری جان میں جان آتی پھر شروع ہوتا ہمارا افطار جو ایک بار شروع ہو جاتا پھر رکنے کا نام نہ لیتا۔ پاس بیٹھی آپی کبھی چٹکی لیتیں، ”ذرا تو خدا کا خوف کرو اتنا لمبا افطار بھلا کون کرتا ہے, کرنا ہی ہے تو دس منٹ میں ختم کرو۔۔۔۔۔۔”
”ہمارا افطار, ہماری مرضی, آپ کو بھلا کیا تکلیف ہے۔” اتنا کہہ کر ہم منہ بنائے ہوئے اپنی ایک گھنٹے والی افطاری میں مشغول ہو جاتے۔
اسی انتظار اور دن کی تمام جدوجہد کے بعد شام والی اصل افطاری کا وقت بھی آ جاتا۔ مسجد اور آس پڑوس میں ہمیں ہی افطار لے کر دوڑایا جاتا۔ پڑوس والی خالہ کبھی پلیٹ خالی نہ لوٹاتیں اور ہم جتنی بھر کر لے جاتے اس سے زیادہ ہی واپس گھر لاتے۔۔۔ دل میں ہوتا کہ افطار کا وقت کہیں نکل نہ جائے، سو ہانپتے ہوئے گھر آئے شرافت کا پُتلا بن کر دسترخوان پر بیٹھے۔ بھئی ہمارا بھی روزہ تھا۔ ابو کے کہنے کے مطابق ہمارا روزہ باقیوں سے کہیں زیادہ افضل ہے کیونکہ باقی لوگوں کو ایک روزے کا ثواب ملتا تھا اور ہمیں دو۔  وقت افطار سب کو دیکھ کر دعا کے لیے ہم نے بھی ہاتھ اٹھا لیے پہلے تو بس جھوٹ موٹ ہونٹ ہلاتے رہے۔ پھر ذرا سنجیدہ ہو کر دعائیں کچھ یوں مانگیں۔۔۔۔ اللہ پاک ہماری چھت پر چاکلیٹ کی بارش کر دیجیے۔ اللہ پاک نیچے جو تہخانہ ہے اس میں آئس کریم کا خزانہ نکال دیجئے۔ اللہ پاک مجھے چپکے سے پری بنا دیجئے۔  آ گے اور دعا مانگی جاتی کہ اس سے پہلے اذان کی آوازیں نمودار ہونے لگیں۔ پھر کیا اپنے گھر کے سارے لذیذ کھانے اور پکوان چھوڑ کر پڑوس سے آئے پلیٹ پر سیدھے ہاتھ مارا۔ اب بھئی اپنے گھر جو بھی پکا ہو گھر ہی کا ہوگا، جو لذت پڑوسی کے افطار کی پلیٹ میں ملتی ہے اس کے کیا ہی کہنے۔۔۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوبصورت ایام کیسے گزر جاتے ذرا بھی احساس تک نہ ہوتا اور رمضان کی پرنور برکتوں رحمتوں بھری راتیں یعنی شب قدر کا وقت آ جاتا۔  ہم بھی رات جاگیں گے کی صدا لے کر ہم پورے گھر میں دوڑ لگاتے، رات کا وقت آتا مسمم ارادے کے ساتھ ہم بھی میدان میں ڈٹے رہتے۔ وقفے وقفے پر اپنی بند ہوتی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے بڑی کرتے رہتے اور کافی بننے تک تو میدان جیت لیتے، لیکن اس کے بعد ہم کب اپنے گھوڑے بیچ دیتے ہمیں خود ہی علم نہیں۔
مہینے بھر کے روزے اور عبادت کے بعد وہ وقت بھی آ جاتا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار رہتا۔ گھر کی مستورات اور آپیاں تو ایسے خریداری کرتیں گویا یہ زندگی کی آخری خریداری ہو۔ بازار میں گرد و غبار ایسی کہ جیسے سب کچھ مفت بٹ رہا ہو۔
بھرپور شاپنگ کے بعد شام کا وقت آیا افطار کرتے ہی ہم سیدھا چھت پر بھاگے اور چاند دیکھنے کی پوری کوشش کی اور دل ہی دل میں سوچتے رہے کاش سب سے پہلے ہمیں چاند نظر آ جائے پھر ہم سب کو چلا چلا کر دکھائیں تو کیا ہی بات ہو۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں ابو اور گھر کے دیگر بڑے اوپر آئے تو ہمیں معلوم پڑا کہ جدھر چاند نکلنا تھا ادھر تو ہماری پشت تھی۔۔۔۔۔۔!
خیر۔۔۔ بڑی جدوجہد کے بعد بھی چاند نظر نہ آیا اور کچھ دیر بعد کمیٹی نے اعلان کر دیا کہ کل بھی روزہ رکھا جائے گا۔
اب کیا گھر کے بزرگ تو ایک اور روزے کی خوشی میں بڑے خوش تھے، لیکن کچھ آپی اور بھائی کا منہ ایسے لٹکا تھا گویا دیوار گھڑی کا پینڈولم۔۔۔۔۔۔
خیر آ خری روزہ بھی خیر و عافیت کے ساتھ گزر گیا اور شام ہوتے ہی عید کی رونقیں ایسے چھائیں گویا بہار آئی۔۔۔۔۔
ابو نے پوچھا، ”گھر اتنا خالی کیوں ہے کوئی نظر نہیں آ رہا۔”
”ابو سب شاپنگ کرنے گئے ہیں۔”
ہم نے معصومیت سے جواب دیا۔
”لیکن کل تو ساری شاپنگ مکمل ہو چکی تھی۔۔۔۔۔؟”
ابّو نے متعجب پوچھا۔
”ہاں پر سب کا کچھ کچھ رہ گیا تھا۔”
ہم نے جواب دیا۔
پاس بیٹھے چچا بولے، ”ارے بھیا یہ خواتین ہیں اگر کل بھی عید نہ ہو تو کل بھی ان کا کچھ نہ کچھ رہ ہی جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مسکرا کے رہ گئے۔
عید کی صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا گھر میں جو شور شرابا اور ہنگامہ تھا پوچھو مت ایسا گمان ہوتا تھا ہر کسی کی ٹرین چھوٹ رہی ہو۔ ہم بھی موتیوں سے جڑی اپنی پریوں والی فراک پہن کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بڑوں سے ڈھیر ساری عیدی لے کر بھائی بہنوں کے ساتھ باہر میلا گھومنے نکل پڑے۔ راستے میں ایک نالائق پتھر ہماری فراق میں تھا جسے نظر انداز کرنا بھاری پڑ گیا۔ ٹھوکر لگی اور گڈھے میں جا گرے پھر کیا عیدی اور کیا میلا۔  روتے ہوئے کیچڑ لئے گھر واپس لوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید ہے۔۔۔۔۔ عید ہے۔۔۔۔۔۔

Related posts

हालात से निराश होने की जरूरत नहीं

Paigam Madre Watan

علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب 

Paigam Madre Watan

ظلم کا خاتمہ کرنا اور انصاف قائم کرنا امت مسلمہ کی دینی ذمہ داری ہے

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar