Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

تروپتی، آندھرا پردیش کا سفر

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

تقریباً دو سال پہلے مدرسہ نسواں سلفیہ تروپتی کے ناظم عبد العزیز صاحب نے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور اس کے لیے فلائٹ کا ٹکٹ آمد ورفت کے لیے بھیجا۔ ادھر مطیع الرحمٰن سلمہ نے آمد ورفت کا ٹکٹ اے سی سکنڈ ٹرین کا بنایا۔ ہم گھر سے چلے تو پہلے مرحلہ میں تقریبا تیس گھنٹہ میں احمد نگر(مہاراشٹر)مولانا رضوان سلفی کے گھر پہنچے۔ بہت سارے نوجوان فیصل سلمہ کے دوست اسٹیشن لینے کے لیے آئے تھے۔ تقریبا ایک بجے رات میں مولوی رضوان سلفی کے دولت کدہ پر پہونچے، سب بچے مع صبا منتظر تھے۔ گھر میں پہونچنے میں سب کی خوشی بڑھ گئی، کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ اور چائے کے بعد آرام کرنے کے لیے لیٹے۔ ہر روز نئی نئی پکوان بچے فرمائش کرکے بنواتے ، اس وقت تینوں بچیاں مالیگائوں مدرسہ پر تھیں۔ وہ خوش تھیں اور ملاقات نہ ہوپانے کی حسرت دل میں تھی، ایک ہفتہ یہاں گزار کر اورنگ آباد کے لیے نکلے، ساتھ میں فیصل اور صبا بھی تھیں ، اورنگ آباد بس اسٹینڈ پر مولوی شمس الدین سلفی استقبال میں پہنچے تھے۔ بس سے اتر کر ان کی قیام گاہ پر پہونچے۔ ماشاء اللہ بڑی آرام دہ جگہ تھی۔ اس سے قبل ویجا پور آمد ہوئی تھی، دس روز قیام رہا، وہاں کے لوگ بڑے اخلاقی ہیں، خصوصا محمد حنیف ایڈوکیٹ بڑے ذی علم تھے، وہ روزانہ بعد نماز فجر درس قرآن دیتے۔ سعیدالرحمٰن وہاں پہنچے تو وکیل صاحب کابوجھ ہلکا ہوگیا، یہ مسجد اپنے باپ کے نام پر انہوں نے بنوائی تھی۔ ہر گھر میں دعوت ہوئی اور میرے ساتھ پورے خاندان کے لوگوں کی دعوت ہوئی، مجھے یہاں سن کر مولوی رضوان مع اہل وعیال آئے تو سب لوگوں نے پھر دعوت کی۔ بعد میں مولوی شمس الدین اپنے بچوں کے ساتھ آئے تو پھر دعوت ہوئی، برتائو دیکھ کر بڑا احساس ہوا، ادھر فجر کی نماز کے بعد عبد العلیم کے گھر سے ایک بڑی کیتلی چائے بڑی سین میں بنا کر خود پہنچاتیں اور جن کو شوگر ہے ان کے لیے دودھ لاتیں اور دروازہ کھٹکھٹا کر رکھ کر چلی جاتیں، میرا درس فجر کے بعد روزانہ ہوتا اور وہ بھی پونے دو گھنٹہ اصرار کرکے سنتے۔ یہ لگائو مسجد سے اور نماز سے اور کسی عالم کے درس سے دیکھ کر بڑی اپنائیت کا احساس ہوا۔ ایک روز اورنگ آباد ٹہلانے کے لیے مجھ کو لے گئے، ساتھ وکیل محمد حنیف صاحب اور عبد الحکیم سیٹھ تھے، خوب گھمایا ، ہائی کورٹ بھی گئے وہاں ایک جج کے اجلاس میں بیٹھ کر اس کا فیصلے سنایا،تقریبا ایک گھنٹہ رہ گئے۔ پھر واپسی ہوئی۔ صرف اس روز میں فجر میں نہیں پہنچ سکا اور نہ درس دے سکا۔ کیونکہ پورے جسم میں درد تھااور پیروں میں سوجن آگئی تھی، فجر میں درس کی وجہ سے سامعین کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا تھا، پھر دس روز کے بعد میں واپس ہواتو بہت سارے لوگ ملنے کے لیے آئے۔ اور رخصت سلام کے وقت زارو وقطار رو رہے تھے۔ اور وکیل صاحب نے کہا اب ہمیں کسی عالم کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم کو جب بھی کچھ سننا ہوگا تو ہم ان ہی کو بلا کر سن لیا کریں گے۔ وہ بڑے ذی علم تھے، وکیل تو تھے ہی مگر اسلامیات کا مطالعہ بہت وسیع تھا، ایک مرتبہ ایک جنازہ میں تھے، نماز جنازہ ہو گئی تھی، اس کے بعد ممبئی وغیرہ جگہوں سے کافی تعدادمیں لوگ پہونچے تھے۔ ادھر دوسری جماعت نماز جنازہ کے لیے کرنی چاہی، سارے حنفی مخالف تھے، ان دونوں گروپوں میں شدید غصہ تھا، ان میں سے کچھ لوگ وکیل صاحب سے پوچھنے گئے وہ ایک طرف کھڑے سب کی باتیں سنتے گئے اور خاموش تھے، لوگ ان کے پاس پہونچے اور پوچھا ہم لوگوں کو نماز جنازہ نہیں ملی، ہم نماز جنازہ کی دوسری جماعت کرنا چاہتے ہیں اور یہ سارے لوگ روک رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، انہوں نے ایک سادہ سی بات کہی، مخالفین خاموش ہوگئے اور نماز جنازہ پڑھنے والے لوگوں نے بہ خوشی دوسری بار نماز جنازہ پڑھی، انہوں نے کہا آپ بالکل پڑھ سکتے ہیں، نبی ﷺ کی نماز جنازہ کئی بار پڑھی گئی تھی۔ یہ سارا مسئلہ اسی جملہ سے حل ہوگیا۔ یہ کل دو ماں سے پانچ بھائی تھے، وکیل محمد حنیف سب سے بڑے تھے، ان کے بیٹے دو انجینئر ایک ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب بچوں کے بڑے ڈاکٹر اپنی پریکٹس کرتے اور ہاسپٹل چلاتے ہیں، دو سال پہلے ملاقات ہوئی تو بتاتے کہ ان کے والد وکیل صاحب کی عمر بیاسی سال ہوگئی ، دوسرے عبد الرئوف سیٹھ اپنی فیکٹری چلاتے ہیں، اس میں مسجد بھی بنا رکھی ہے، ان کے دو بیٹے ہیں، تیسرے عبد الحکیم سیٹھ کسی بینک کے کئی ضلعوں کے صدر تھے، چوتھے عبد العلیم صاحب یہ رجسٹرار آفیسر ہیں، سروس کرتے تھے، پانچویں سب سے چھوٹے بجلی کے شعبہ میں چیف انجینئر تھے، اب حال یہ ہے کہ اس سال وکیل صاحب کی بیوی کا پھر وکیل صاحب کا پھر عبد الرئوف سیٹھ کا پھر عبدا لحکیم کا کرونا میں پندرہ دن کے اندر انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کتنے شوق سے اپنے باپ کے نام سے مسجد ان لوگوں نے بنوائی تھی اور ہر شخص با جماعت نماز کا عادی تھا، اب ان چاروں کے انتقال کے بعد مسجد کا انتظام تبلیغی جماعت کو سونپ دیا ہے، سب لوگ ویجا پور سے اورنگ آباد جاکر بس گئے، صرف عبد العلیم صاحب باقی ہیں، ممکن ہے وہ سروس کے سبب رکے ہوں، دوسری بات یہ کہیں گائوں میں زیادہ کھیتی خریدی ہے، اور ایک آدمی کو وہاں پر آباد کر دیا ہے۔ جو کھیتی کی دیکھ بھال کرتا ہے، اور کئی بھینس وغیرہ پالے ہوئے ہیں، روزانہ دودھ ان کے گھر پہنچتا ہے، بڑے اچھے لوگ تھے۔
سعید الرحمٰن کئی سال یہاں رہے ان کے بڑے لڑکے سجاد کی پیدائش یہیں ہوئی، انہوں نے عقیقہ کی دعوت بھی کی جو لوگوں نے بڑے شوق سے پکایا کھایا، افسوس کہ گزشتہ دو سال پہلے احمد نگر اور اورنگ آباد گیا تو وکیل صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی، جامعہ کی مسجد میں سیٹھ سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے بتایا تھا دو دن بعد اتوار کو ایک شادی میں آنے والے ہیں، مجھے کچھ خبر نہ مل سکی۔ یہ بڑے وکیل تھے پیشہ وارانہ وکالت نہیں کی، بڑے بڑے مقدمات میں حصہ لیتے تھے، یا جب کبھی زمین جائیداد کے لیے عدالت سے کمیٹی بنتی تھی تو اس میں وکیل صاحب کا نام ضرور ہوتا تھا۔ سعید الرحمٰن کی والدہ اپنے پیٹ کی بیماری کا علاج کرانے ویجا پور گئی تھیں، میں انہی کی تیمار داری میں ششماہی کی تعطیل میں دس روز کے لیے گیا ، آتے جاتے شاید پندرہ دن لگ گیا ہوگا۔ ڈاکٹر نصرت فاروقی کو دکھایا ۔ پھر اس بار گئے تو ان کو دکھایا ، ماشاءاللہ خیریت بتایا اور ایک بڑے ڈاکٹر ہزاری کے یہاں آنکھ بھی چیک کرایا۔ ماسٹر عبدالشکور صاحب ویجا پور کے رہنے والے ہیں۔ بڑے نیک آدمی ہیں، بیس سال تبلیغی جماعت کے ساتھ رہے، جب اہل حدیث مسجد بن گئی تو ان سے علاحدگی اختیار کرلی اور تبلیغی جماعت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں جب ویجا پور سے آنے لگا تو بہت بیتاب ہوکر روئے اور کئی روز روتے رہے ان کی اہلیہ نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا مولانا کی یاد بہت آرہی ہے، اسی لیے رو رہا ہوں، کسی طرح ان کی یاد جا ہی نہیں رہی ہے۔ اب آج کل اورنگ آباد میں آکر رہ رہے ہیں اپنا گھر بنوا لیا ہے۔ انہوں میرے بارے میں سنا کہ اورنگ آباد آئے ہوئے ہیں تو ان کے لڑکے نے اپنی کار سے پہنچ کر مولوی شمس الدین سلفی کی قیام گاہ پر چھوڑا۔ ایک روز سعید الرحمٰن ٹہلانے مجھ کو اور اپنی اماں کو لے کر بیگم اورنگ آباد کا مقبرہ دکھانے لے گئے جو عالمگیر نے بنوایا، اس کو دکن کا تاج محل کہا جاتا ہے، کچھ لوگ تاج محل ثانی کہتے ہیں۔اسی سے متصل مسجد ہے، اسی میں نماز ادا کی گئی۔ وہیں پن چکی بھی ہے، جس سے پچھلے زمانہ میں فوجیوں کےلیے آٹا پیسا جاتا تھا، آج کل تو سب دیکھ کر اس زمانہ کی ترقی پر خوشی ہوتی ہے، اب ان ساری جگہوں پر بجلی کا استعمال ہوتا ہے، پانی اب بھی تیزی سے گرتا ہے اور چکی اب بھی چلتی ہے، مگر اپنے کام میں استعمال نہیں ہوتی۔
دھیرے دھیرے وہ تاریخ آگئی جس دن ہم کو تروپتی کا سفر کرنا تھا، ہم تقریبا تین بجے ایر پورٹ پہونچے ، یہاں کا انتظار مشکل ہوتا ہے، آہستہ آہستہ وہ وقت بھی آگیا جب چیکنگ کرکے اندر جانے کی اجازت ملی، ہم تینوں یعنی میں عزیز الرحمٰن سلفی، میمونہ اور مولوی شمس الدین سلفی چیکنگ کے بعد اندر جا کر کرسیوں پر بیٹھے، اب پھر کچھ دیر انتظار کرنا تھا، ہوائی سفر میں پہلے کا انتظار ہی بڑا مشکل کام ہوتا ہے، کافی پہلے بلا لیتے ہیں اور پھر غیر ملک کا سفر ہو تو بعد کی چیکنگ مشکل ہوتی ہے، دسیوں جگہ جانا اور تمام کاغذات دکھانا اور سامان چیک کرانا۔ اتنی بے دردی کہ سارا سامان بکھیر کر رکھ دیتے ہیں، کہ اس کو اٹھا کر اور سامان سیٹ کرنا اور باندھنا کارِ دارد۔ خیر ہم لوگ اندرونی ملک ہی سفر کر رہے تھے۔ اور ساتھ سب کے دو جوڑا کپڑے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر کچھ تھا تو بسکٹ اور نمکین ، مطیع الرحمٰن کی بچی وردہ عزیز کے لیے جو وہیں پڑھ رہی تھی۔ اب وقت ہوگیا تو فلائٹ میں جانے کی اجازت ملی، وہاں ایئر ہوسٹس نے استقبال کرکے سب کو ان کی سیٹ پر بٹھایا۔ بڑی صاف ستھری جگہ اور بڑی بخیل کہ سفر کرنے والوں کو ایک چائے سو(۱۰۰) روپئے میں فروخت کرے۔ بہر حال پرواز ہوئی اور ہم بہ وقت مغرب تروپتی میں اترے ، نکلتے نکلتے اندھیرا ہو گیا۔ لوگوں نے کار بھیجا تھا وہ ہم لوگوں کو مہمان خانہ میں لے گئے، چوتھی منزل پریوار فلیٹ دو کمرہ دو باتھ روم بڑا ہال کچن ، باہر کا دروزہ بند کر لو تو باہر کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ پرسکون جگہ تھی، جامعہ سلفیہ میں بھی میرا فلیٹ اسی طرح کا تھا۔ اندر آکر انتظام دیکھا تو ان لوگوں کی مہمان نوازی کا دل پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ افراد کے اعتبار سے نئی ہوائی چپل ۔ تولیہ الگ الگ نیا نیا سابن نیا ٹوتھ پیسٹ اور دانت کا برش نیا۔ پاپوش نیا، کنگھا آئینہ تیل ہر چیز نئی ، بستر کی چادر دھلی دھلائی ۔ رضائی کا خول نیا، ہال میں بیٹھنے کے لیے قالین ،مصلی الگ نیا ، شام کو اعلیٰ معیار کا کھانا ساتھ میں انگور ، سیب ، سنترے، دہی سب اعلیٰ معیار کا ۔ اور جب تک ہم لوگ وہاں رہے ایک ملازم ہماری خدمت کے لیے وقف رہے۔ ہر چیز ٹائم سے پہنچتی، یہ ملازم بڑے اللہ والے متشرع، ان کی بیوی اسی مدرسہ میں معلمہ تھیں، جنہوں نے شادی کے بعد پڑھائی کی تھی۔ اور دعوت وتبلیغ میں بھی نکلتی تھیں، اولادیں دو بچیاں تھیں ایک کی اسی مدرسہ سے فراغت کے بعد شادی ہوچکی تھی، اور چھوٹی بچی زیر تعلیم تھی۔ منگل کی رات تو آرام سے گزری، پھر بدھ کو عصر تک خالی گزرا، پھر جامعہ نسواں لے گئے، اور یہ معلوم ہوا کہ اس وقت پروگرام ہے، میں اور چند مدرسین ڈائس پر پہنچے، دیکھتے دیکھتے پوراہال لڑکیوں سے بھر گیا، سب کے ہاتھ میںکاپی اور قلم اور سب نقاب اوڑھے ہوئے ، میری بائیں طرف استانیوں سے بھر گئیں، یہ بھی نقاب پوش تھیں، معلمات اور طالبات میں ایک نشانی یہ تھی کہ سب طالبات کے چہرے پر کالا نقاب اور چہرہ پر سفید پٹی تھی، میرا درس شروع ہوا اور ہماری اہلیہ میمونہ کو بھی گاڑی بھیج کر بلوایا ۔ اور ان کے استقبال کے لیے ناظم کی بیوی موجود تھیں جو انہیںاندر لے گئیں، اور ہر طرح سے ان کے ساتھ نیک برتائو کیا، خود میمونہ بھی ایسی ہیں کہ پہلی ملاقات میں ملنے والا ان کا دوست بن جاتاہے، اور ایسے ڈھنگ سے بات کرتیں تھیں کہ ذرا سا اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، ڈائس پر آنے سے پہلے مجھے پانچوں منزل پر گھمایا اور ضروری چیزیں بتائیں، عمارت کیا ہے ، سیون اسٹار ہوٹل سے کم نہیں ، جب یہ انتظام صفائی ستھرائی اور عمارت کی چمک دیکھی تو مولانا نوہیرا شیخ کی بڑی یاد آئی تھی، اس وقت وہ جیل میں تھیں، اور بیشتر خاندانی افراد روپوش تھے، یا انہی کی خدمت اور رہائی کی کوشش میں تھے، خود ناظم صاحب بھی انہی کے سلسلے میں تگ ودو میں لگے تھے، بہرحال میں نے درس شروع کیا پہلا درس تفسیر پر تھا، اور اس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قرآن یا تفسیر پڑھتے وقت ماحول شان نزول احوال وظروف اس زمانہ کے لوگ ان کی زبان، محاورہ وغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور اس سلسلے میں میں نے سورہ نور کی آیا ت کی تلاوت کی اور اس سے ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان سے میں ایک چھوٹا سوال کیا۔ کہ کسی چیز کی دو رائیں ہوں تو کس رائے کو ترجیح دیں گے، جس میں خالی ایک دلیل ہو، یا اس رائے کو جس میں ۴؍۵ مضبوط دلیلیں ہوں، تمام طالبات نے متفقہ طور پر جواب دیاکہ بات وہ مانی جائے گی جس میں دلیلیں زیادہ ہوں۔
یہ مفصل مضمون وقت زیادہ چاہتا تھا مگر ایک سوا گھنٹہ میں کیسے بیان ہو سکتا ہے۔ پھر مغرب کا وقت ہوگیا۔ مغرب کی اذان ہوئی تو نماز ادا کی گئی۔ پھر مولوی شمس الدین کو مغرب بعد مسجد میں درس کے لیے کہا ، انہوں نے ایک موضوع پر تقریبا پون گھنٹہ تقریر کی۔ پھر عشاء کی تیاری اور کھانا کھانے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر وردہ کو ساتھ لے کر ہم لوگ اپنی قیام گاہ پر آئے۔ آنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے کمرے کا ایئر کنڈیشن خراب ہے۔ عبد الواحد صاحب نے دوڑ دھوپ کر مستری سے ٹھیک کرایا۔ پھر کھانا کھا کر ہم لوگ آرام کرنے لگے اور عبدلواحد صاحب مدرسہ پر چلے گئے۔ عشاء سے پہلے کچھ دیر شہر میں سیر کرایا۔ خصوصاً نوہیرا شیخ کے کپڑے اور زیورات کا شوروم دکھانے لے گئے، اس منزل میں کپڑے ہی کپڑے مختلف کوالٹی کے الگ الگ منزل میں میرے خیال میں دس بارہ فٹ چوڑی اور پچیس فٹ لمبی کنارے شو پیس کے طور پر کپڑے لگائے گئے ہیں۔ اوپر جانے کے لیے لفٹ کا انتظام ہے، پانچویں منزل نماز کے لیے ہے، ملازمین ہندو بھی ہیں ، جن میں بیشتر کو کرتا پاجامے میں دیکھا۔ دوسرے دن صبح صبح مندر کے راستے پر اندر تک گھمایا، وہاں جنگل ہے، اس جنگل میں شیر اور چیتے بھی ہیں، میرے خیال میں ان کی اور لوگوں کی حفاظت کا کچھ انتظام کیا گیا ہوگا، ایک گیٹ دیکھا گیا جہاں سے منگلور کی دوری تیس کیلو میٹر ہے، مندر پہاڑ کی اونچائی پر ہے، وہاں یاتریوں کے لیے جانے کا انتظام الگ الگ رہتا ہے، سواری بدلنی پڑتی ہے، دیر تک ادھر ادھر گھماتے رہے، کئی مخصوص چیزیں دکھائیں ، پھر اپنے کمرے میں واپس آئے۔ آج جمعرات کا دن تھا، ناظم عبد العزیز صاحب حیدر آباد سے واپس آگئے تھے، عصر کے بعد میری تقریر تھی، اس میں ناظم صاحب اور کچھ اساتذہ بھی تشریف رکھتے ہیں، آج میں نے حدیث پر گفتگو شروع کی، اس میں یہ بتایا گیا کہ حدیث کا طریقہ تدریس کیا ہے۔ اور کس حدیث کی کتاب میں کن کن کتابوں سے مدد لی جا سکتی ہے، اس سے صحیحین وغیرہ کیسے پڑھائی جائیں، ان کی تدریس کے لیے کون کون سی کتابیں معاون ہیں، اور بعض کتابیں ایسی ہیں کہ ان کا مطالعہ میں رکھنا ضروری ہے، صحیحین پر بہت سارے لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ اور ان کا تصفیہ کس طرح کرنا چاہئے۔ صحیحین پر اعتراض کا مقصد کیا ہے؟ کیا ائمہ اربعہ خصوصا امام اعظم حدیث ہوئے اس کے خلاف کچھ کہہ سکتے تھے، اس کی تفصیل کے فلاں فلاں کتابیں معاون ہیں، اور صحیحین پڑھاتے وقت ان پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ وقت صرف سوا گھنٹہ تھا، اس لیے مجھے اپنی بات روکنی پڑی۔ ایک استادنے میرے درس کے بعد اٹھ کر کہا کہ یہ سب باتیں جامعہ اسلامیہ مدینہ میں شیوخ دراست علیا میں بتاتے ہیں۔ ایک ذو معنی جملہ کہہ کر انہوں نے مغرب کی نماز کا اعلان کیا، اور بتایا کہ طالبات کی انجمن ہو گی، نماز کے فورا بعد اور مولانا کی صدارت میں۔ چنانچہ نمازسے فراغت کے بعد پھر ڈائس پر آئے۔ کچھ نظمیں تلاوت کے بعد اور کچھ تقریر پیش کی گئی۔ایک چھوٹی سی لڑکی کی تقریر سن کر پانچ سو روپیہ انعام دیا۔ پھر صدارتی کلمات میں نے کہے۔ مولوی شمس الدین سلفی سے کچھ بولنے کے لیے کہا گیا۔ آج کے سارے پروگرام میں میمونہ بھی موجود تھیں۔ وہ عورتوں اور استانیوں نیز ناظم صاحب کی بیوی کے ساتھ تھیں۔ جلسہ گاہ سے اٹھنے کے بعد ایک صاحب نے کہا انہیں سب باتوں کی ضرورت تھی۔ اور انکی بیوی جو معلمہ اور داعیہ ہیں ان کی طرف سے اسی قسم کی باتیں معلوم ہوئیں۔ پھر آپسی ملاقات سلام ومصافحہ پر ختم ہوئی اور ہم لوگ اپنی قیام گاہ پر وردہ کو لے کر آئے۔ عبد الواحد اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے ، ہر وقت الگ الگ قسم کا کھانا لاتے اور اتنا زیادہ لاتے کہ تین آدمی کی جگہ پر دس بارہ آدمی کھاسکیں۔ جمعہ کی نماز جامعہ کی مسجد میں ادا کی گئی ، اس دن حاضرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ آس پاس کے لوگ اپنی بچیوں سے ملنے آتے ہیں۔ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے بچوں کو لے کر ملحقہ پارک میں بیٹھ جاتے ہیں کچھ مخصوص پکوان بنوا کے لاتے ہیں۔ اور بچوں کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔
مولوی شمس الدین نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی وہ ماشاء اللہ بڑی اچھی تقریر کرتے ہیں۔ دور دور سے لوگ ان کو جمعہ کے خطبہ کے لیے اور تقریر کرنے کے لیے بلاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمت عطا کی ہے اور وہ جاتے بھی ہیں۔
جمعہ کے دن تقریباً ۴ بجے ناظم عبد العزیز صاحب ہماری قیام گاہ تشریف لائے، اور گویا ہوئے کیا بتائوں میں آپ لوگوں کے لیے کچھ دے نہیں پا رہا ہوں بڑی شرمندگی ہوتی ہے، نوہیرا آپا جیل میں ہیں اور ان کے نہ ہونے کی وجہ سے سارے بینک کھاتے بند ہیں۔ اور فیکٹریاں اور کمپنیاں بھی بند ہیں، اب آئندہ مدرسہ چلنا مشکل نظر آتا ہے، ابھی تک اتنی بچیوں کے اخراجات ملازمین اور مدرسین کی تنخواہیں مہمانوں کی آمد اور وقت کے اخراجات بڑی آسانی سے حل ہو جاتے تھے، اب آئندہ یہ سب اخراجات کیسے نکلیں گے یہ سوچ کر بڑی فکر ہوتی ہے، خود آپا کی رہائی کے بارے میں اخراجات ہیں وہ الگ سے بوجھ ہے، میں حیدر آباد میں تھا اور آپ کی آمد سن کر ملاقات کے لیے جلدی میں آیا۔ اور آج ہی شام کو مجھے حیدر آباد پہونچنا ہے، میں آپ لوگوں کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ یہ ایک ایک جوڑا کپڑا لایا ہوں ، اسے قبول کر لیجئے۔ ان شاء اللہ آئندہ حالات سازگار ہوئے اور ہماری آپ کی زندگی اور صحت وعافیت رہی تو اس کی تلافی کا موقع ملے گا۔ یہ کہہ کر کپڑے دئے اور سلام کرکے واپس چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد کپڑے دیکھے گئے تو ایک جوڑا میرے لیے ، ایک میمونہ کے لیے ایک مولوی شمس الدین سلفی اور ان کی اہلیہ نسرین کے لیے ایک جوڑا مطیع الرحمٰن اور ان کی اہلیہ ساجدہ کے لیے۔ رات گزار کر صبح کی فلائٹ سے ہم لوگوں کو آنا تھا، بہر حال ہم صبح اٹھ کر بذریعہ کار ایئر پورٹ پہونچے ۔ اندر آئے تو کچھ دیر باقی تھی فلائٹ آنے میں، سوچا ناشتہ کرلیا جائے۔ تو معلوم ہوا کہ صرف بریڈ اور جَیم بچا ہے، اس لیے کہ وہ بیگ میں تھا، اور بقیہ سب کھانے پینے کا سامان گاڑی میں چھوٹ گیا۔ نہ ہم کو خیال رہا اور نہ ڈرائیور کو خیال رہا۔ واپسی پر سب لوگوں نے دیکھا ہوگا تو بڑا افسوس ہوا ہوگا۔ بہر حال فلائٹ کا ٹائم ہوا تو جہاز پر آیا گیا۔ ہم لوگ جا کر جہاز پر بیٹھے، یہ حیدر آباد کے لیے پرواز تھی، حیدر آباد پہنچے تو سب لوگوں کو اترنا پڑا۔ یہاں چار بجے کے بعد جہاز تھا۔ یہ چھ گھنٹہ کا دوسری فلائٹ کے لیے انتظار بھی سب سے مشکل چیز تھی، اور دوسری بات کھانے پینے کا سامان بھی پاس میں نہیں تھا۔ اسی چیز نے اس سفر کو مشکل تر بنا دیا۔ بہر حال خدا خدا کرکے فلائٹ کا ٹائم ہوا، فلائٹ آئی اور سب لوگ جاکر اپنی جگہوںپر بیٹھے۔ اس کمپنی کی سب سے بڑی خرابی ہے کہ مسافرین کو ایک چائے اور ایک ٹافی بھی نہیں دیتے۔ پرواز ہوئی اور ہم لوگ مغرب کے بعد بصحت وعافیت اورنگ آباد پہنچے۔ باہر نکلے اور ایک کرائے کی گاڑی پر سوار ہوکر اپنی قیام گاہ پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جتنے دن میسر کیا تھا اتنے دن اورنگ آباد میں رہے، پھر صبا کے ساتھ احمد نگر آئے۔ وہاں ایک ہفتہ رہے، پھر اپنے وطن کے لیے ٹرین سے چلے ماشاء اللہ بخیر وعافیت پہنچے۔ مولوی حافظ عبد الرحمٰن کو اطلاع تھی وہ گاڑی لے کر پہنچے اور کچھ دیر رات ہوئے اپنے گھر پہونچ گئے۔ فل الحمد المنۃ۔

Related posts

دادا کی سچائی اور عہد کی پابندی

Paigam Madre Watan

جامعہ سلفیہ میں تقرری

Paigam Madre Watan

دعوت وتبلیغ اور تحریک

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar