تصنیف:مولانا عزیزالرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)
حدیث ایک ایسا فن ہے جس پر ہمارے مذہب کی بنیاد ہے یہ کلام الٰہی کی تفسیر وتوضیح ہے جس کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے یہ قرآن کے اجمال کی تفصیل ہے جس کا نزول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا۔ اس میں ایمانیات، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور دیگر امور پر بحثیں موجود ہیں۔ اس کا تعلق انسان کی دونوں زندگیوں سے بلکہ عالم برزخ سے بھی جڑا ہواہے۔
ہمارے ہندوستان میں چونکہ بہت سے مذاہب کے لوگ موجود ہیں اس لیے ہماری شریعت اس بات سے بھی بحث کرتی ہے کہ اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے راہ ورسم کا کیا طریقہ ہو؟ ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر صدیوں تک حنفی فقہ رائج رہا اسی کا ہر طرف غلبہ تھا۔ چیدہ چیدہ چند شخصیات زمانہ ماضی میں بھی احادیث کی جاننے ماننے اور اشاعت کرنے والی پیدا ہوئیں مگر لاکھوں او رکروڑوں آدمیوں کے اندر چند ایسی شخصیات کا جو عامل بالحدیث والقرآن ہوں کچھ زیادہ اثر دیکھنے کو نہ ملا۔ بعد کے زمانہ میں جب ایسے لوگوں کی تعداد بڑھی تو مخالفت ومعارضہ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ زبردستی تغلب کی کوشش کی گئی اور چند لوگ جن کی تعداد روز افزوں تھی ان کو مٹانے کی سازش کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی مددکی اور وہ کامیابی کے ساتھ عمل بالقرآن والحدیث کی اشاعت کرتے رہے۔ مگر اتنا زمانہ گذرنے کے باوجود مسلمانوں میں حنفی فقہ ہی کو غلبہ حاصل رہا اور حاصل ہے۔ ہندوستانی ماحول میں اگر ان اہل الرای کا خیال نہ رکھا جائے اور حدیث کے مقابلہ میں ان کی معاندانہ سرگرمیوں کا ذکر نہ کیا جائے، حدیث سے اگر ان کی رائے کی تغلیط نہ کی جائے تو آدمی انہی پرانی شائع شدہ باتوں کو برحق سمجھے گا۔ اور حدیث کا پورا فائدہ اسے نہیں پہنچ سکتا ان کے یہاں تو کتب احادیث ستہ بطور تبرک ایک سال میں پڑھادی جاتی ہیں۔
حدیث کی تدریس کے بارے میں بعض لوگوں کا بلوغ المرام سے لیکر بخاری شریف تک یہ خیال ہے کہ حدیث کا سادہ ترجمہ، سادہ مفہوم اورمسائل کا استخراج بس انہی باتوں پر دھیان دیا جائے اور اسی طرز پر حدیث کی تدریس کی جائے اور اسی طریقہ تدریس پر ان کا اصرار بھی ہے۔
مگر میرے نزدیک یہ چیز بلوغ المرام او رمشکوٰ ۃ المصابیح تک قدر ے غنیمت ہے لیکن اوپر چل کر اگر ان حدیثوں سے مسائل کے استخراج کے وقت فقہ اہل الرائے کا اس سے تصادم نہ دکھلایا جائے اور وہ آراء کس طرح حدیث وقرآن کے مخالف ہیں یہ نہ بتایا جائے تو میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے ماحول میں حدیث کی تدریس کچھ زیادہ نفع بخش نہیں ہوگی۔ فقہ اہل الرائے کا ٹکرائو ایمانیات وعقائد، عبادات، معاملات سے ڈائریکٹ ہے۔ اس لیے وہ آراء جو احادیث کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں یا جو فقہی مسائل احادیث کی مخالف ہیں ان کا ذکر کرنا، ان کے دلائل کا ذکر کرنا اور پھر احادیث سے ان کا ٹکرائو او رمخالفت دکھلاکر اگراس کی تردید قوی اور صحیح دلائل سے نہ کی جائے گی تو ہندوستانی ماحول میں احادیث کا پورا فائدہ طالب علم کو نہیں ملے گا۔ اسی لیے ہر اس فقہی رائے کو ذکر کرنا جو احادیث کے مخالف ہوں اور دلائل سے ان کی تردید کرنا ضروری ہے۔ پھر اوپر چل کر کچھ رجال کے تعلق سے بھی بحث ہونی ضروری ہے اسناد کے سلسلہ میں بھی بحث ضروری ہے تبھی طلبہ کو پورا پورا فائدہ مل سکتا ہے۔میری بات صحت کے لیے صحاح ستہ کے طریقۂ تبویب اور طریقۂ تالیف کو بغور دیکھنا اور سمجھنا ہو گا خصوصا جامع الترمذی اور سنن ابو دائود کے طریقہ تبویب اور ترتیب پر ضرور غائر نظر ڈالنی ہوگی۔ حجۃ اللہ البالغہ کا بغور مطالعہ کرنا ضروری ہوگا۔