(ازقلم : ڈاکٹر محمّد عظیم الدین)
تاریخ محض واقعات کا ایک بے ترتیب مجموعہ نہیں، بلکہ ان نظریات، اصولوں اور اقدار کی کشمکش کا نام ہے جو انسانیت کے سفر اور اس کے اجتماعی ضمیر کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس طویل سفر میں کچھ داستانیں ایسی ہیں جو وقت اور جغرافیے کی قید سے آزاد ہو کر ظلم کے خلاف انسانی ارادے کی لازوال علامت بن جاتی ہیں۔ کربلا سے فلسطین تک پھیلی ہوئی استقامت و مزاحمت کی یہ عظیم داستان ایک ایسی ہی سچی حکایت ہے، جو محض دو تاریخی واقعات کا سطحی موازنہ نہیں، بلکہ ایک ہی روحانی، نظریاتی اور اسٹریٹجک سلسلے کی دو ایسی کڑیاں ہیں، جہاں حق کی بقا اور انسانی وقار کے تحفظ کے لیے قربانی کا فلسفہ ہر دور میں نئے جسم کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ اس گہرے ربط کو واضح کرنے کی ایک علمی کاوش ہے جو ساتویں صدی کے تپتے صحرائے نینوا میں نواسۂ رسول، امام حسینؓ کے تاریخ ساز انکار کو اکیسویں صدی میں فلسطین کی گلیوں اور غزہ کے ملبے میں گونجتی مزاحمت سے جوڑتا ہے۔ اس داستان کو سمجھنے کے لیے پہلے کربلا کے اس بنیادی نمونے (Paradigm) کو سمجھنا ناگزیر ہے، جس نے مزاحمت کی تعریف ہمیشہ کے لیے بدل دی۔
کربلا کا واقعہ اپنی اصل میں ایک عسکری شکست ہرگز نہیں، بلکہ ایک نظریاتی اور اخلاقی فتح کا ابدی اعلان ہے۔ یہ اس آفاقی اصول کی عملی تجسیم تھا کہ جب ریاست اور حاکمیت، عدل و انصاف کی بجائے ظلم، جبر، موروثیت اور فسق و فجور کی علامت بن جائے، تو ایک فردِ واحد کا اصولی انکار بھی پوری سلطنت کے اخلاقی جواز کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا سکتا ہے۔ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اسلامی تہذیب کی روح کو تحریف سے بچانے اور آنے والی نسلوں کے لیے حریتِ فکر و عمل کا ایک لافانی معیار اور اخلاقی قطب نما (Moral Compass) متعین کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ حقیقی طاقت کا سرچشمہ تعداد، اسلحہ یا مادی وسائل نہیں، بلکہ حق پر غیر متزلزل یقین، اخلاقی جرأت اور مقصد کی سچائی ہے۔ کربلا کا فلسفہ یہ ہے کہ شہادت ایک اختتام یا شکست نہیں، بلکہ ایک نئی، پاکیزہ اور طاقتور زندگی کا آغاز ہے؛ یہ مظلوم کے مقدس خون سے لکھی گئی وہ تحریر ہے جو ظالم کے اقتدار کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ وہ نظریاتی اساس ہے جس پر ہر وہ جدوجہد استوار ہوتی ہے جو ذلت آمیز بقا پر عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہے۔
اسی کربلائی نمونے کی عملی تصویر اور روحانی تسلسل ہمیں آج فلسطین کی سرزمین پر اپنی تمام تر شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ 1948ء کا "نکبہ” (The Catastrophe) صرف زمین چھن جانے کا سانحہ نہیں تھا، بلکہ ایک قوم سے اس کی ہزاروں سالہ تاریخ، تہذیبی شناخت اور وجودی حق چھیننے کی ایک منظم، استعماری اور نسل پرستانہ کوشش تھی۔ جس طرح کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے قلیل ساتھیوں کا محاصرہ کرکے ان پر پانی بند کیا گیا تاکہ انہیں جھکنے پر مجبور کیا جا سکے، اسی طرح آج غزہ کی پٹی کا دہائیوں پر محیط محاصرہ، جہاں بائیس لاکھ سے زائد انسانوں سے پانی، خوراک، دوا، بجلی اور زندگی کی بنیادی ترین سہولیات چھین لی گئی ہیں، اسی تاریخی ظلم اور جبری حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ فلسطین کی جدوجہد کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو اس میں کربلا کی تمام کلیدی علامات اور استعارے زندہ اور متحرک نظر آتے ہیں: ایک انتہائی غیر متناسب جنگ جہاں ایک طرف جدید ترین ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ہتھیاروں اور عالمی طاقتوں کی کھلی سرپرستی میں ایک قابض فوج ہے، اور دوسری طرف وہ نہتے عوام جن کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا عزمِ صمیم، جذبۂ شہادت اور اپنی سرزمین سے اٹوٹ وابستگی ہے۔ فلسطینی مزاحمت اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتی ہے کہ یہ جنگ محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ اس کا حتمی فیصلہ اخلاقی اور نظریاتی محاذ پر ہی ہونا ہے۔
یہاں شہادت کا تصور اپنی پوری گہرائی اور انقلابی معنویت کے ساتھ آشکار ہوتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے تناظر میں شہادت، مایوسی، شکست خوردگی یا خودکشی کا عمل نہیں، بلکہ ایک شعوری سیاسی، سماجی اور روحانی عمل (Conscious Political, Social, and Spiritual Act) ہے۔ یہ ظالم کے اس بیانیے کو جڑ سے اکھاڑنے کا نام ہے جو مظلوم کو ایک بے بس، بے زبان اور قابلِ رحم شکار (Passive Victim) کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک فلسطینی جب اپنی جان قربان کرتا ہے، تو وہ اپنے خون سے عالمی ضمیر کے سنگین دروازے پر دستک دیتا ہے اور قابض ریاست کے "مہذب” اور "جمہوری” ہونے کے جھوٹے دعوے کو پوری دنیا کے سامنے تار تار کر دیتا ہے۔ قرآن کا یہ فرمان کہ "اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ گمان نہ کرو، وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق پاتے ہیں” (آل عمران: 169)، اس عمل کو ایک مابعد الطبیعاتی تقدس اور لافانی عظمت عطا کرتا ہے، جس سے مزاحمت کرنے والوں کو وہ حوصلہ ملتا ہے جسے دنیا کی کوئی مادی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
کربلا کی میراث محض میدانِ جنگ میں قربانی پیش کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اس کا ایک کلیدی اور شاید سب سے طاقتور پہلو وہ "زینبی کردار” ہے جو جنگ کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ کربلا کی جنگ میدان میں ختم نہیں ہوئی تھی؛ اس کا اصل، فیصلہ کن اور لازوال مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب حضرت زینب اورحضرت امام سجاد ( زین العابدین) نے اسیری کی حالت میں کوفہ و شام کے درباروں میں اپنے بے مثال خطبوں سے یزیدی فتح کے جشن کو ماتم میں بدل دیا۔ انہوں نے ظلم کے بیانیے کو شکستِ فاش دی، حق کی آواز کو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ فاتح وہ نہیں ہوتا جو تلوار سے سر قلم کرتا ہے، بلکہ فاتح وہ ہے جس کا نظریہ اور سچائی زندہ رہے۔ آج فلسطینی عوام بھی اسی زینبی کردار کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پوری قوت سے نبھا رہے ہیں۔ ان کے شاعر، ادیب، فنکار، صحافی اور سوشل میڈیا پر سرگرم عام نوجوان اپنی کہانی، اپنی شاعری (جیسے محمود درویش اور رفعت العریر کا کلام)، اپنی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں، بلکہ خوابوں، امیدوں، تاریخ اور ایک عظیم تہذیب رکھنے والی ایک زندہ قوم ہیں۔ وہ نہ صرف پتھروں اور راکٹوں سے لڑ رہے ہیں، بلکہ وہ الفاظ، امیجز اور بیانیے کی ایک ایسی جنگ بھی لڑ رہے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ کا فیصلہ فاتح کی تلوار نہیں، بلکہ مظلوم کی سچائی کرے۔ شیرین ابو عاقلہ جیسی صحافی کا قتل اسی بیانیے کی جنگ میں سچ کی آواز کو خاموش کرانے کی ایک بزدلانہ کوشش تھی، لیکن ان کے خون نے ہزاروں نئی زبانوں کو گویائی عطا کر دی۔
کربلا سے فلسطین تک کی یہ داستان اپنی عالمگیر اپیل اور آفاقی پیغام کی وجہ سے کسی ایک مذہب، مسلک یا قوم کی حدود میں قید نہیں رہتی۔ جس طرح امام حسینؓ کی قربانی کو مہاتما گاندھی سے لے کر چارلس ڈکنز تک، دنیا بھر کے غیر مسلم مفکرین نے بھی انسانی حریت اور انصاف کی معراج قرار دیا، اسی طرح فلسطینی کاز آج دنیا بھر میں سامراجی عزائم، نسل پرستی اور ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کی ایک توانا اور متحرک علامت بن چکا ہے۔ نیلسن منڈیلا کا یہ تاریخی جملہ کہ "ہماری آزادی اس وقت تک نامکمل ہے جب تک فلسطینی آزاد نہیں ہوتے”، اسی عالمی رشتے اور نظریاتی ہم آہنگی کا کھلا اعتراف ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی وہ ابدی صدائے استغاثہ "ھل من ناصر ینصرنا؟” (ہے کوئی ہماری مدد کرنے والا؟) آج غزہ کے ملبے اور مغربی کنارے کی بستیوں سے بلند ہو کر ہر باضمیر انسان کو پکار رہی ہے۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں لاکھوں افراد کے مظاہرے، یونیورسٹی کیمپسز میں طلبہ کے احتجاج، اور(BDS : Boycott, Divestment, Sanctions) جیسی عالمی تحریکیں اسی پکار پر لبیک کہنے کی ایک منظم اور شعوری کوشش ہیں، جو ثابت کرتی ہیں کہ حسینیت آج بھی ہر ظالم کے لیے چیلنج اور ہر مظلوم کے لیے امید کا استعارہ ہے۔
اس مزاحمت کا ایک اور اہم تجزیاتی پہلو اس کی ثقافتی استقامت یا "Sumud” (صمود) ہے۔ یہ محض ایک سیاسی یا عسکری مزاحمت نہیں، بلکہ تہذیبی بقا کی جنگ بھی ہے۔ فلسطینی عوام اپنے لوک گیتوں، اپنے روایتی "دبکہ” رقص، اپنی مخصوص کڑھائی (تطریز)، زیتون کے درختوں کی حفاظت اور اپنی زمین سے جڑے رہنے کے عزم کے ذریعے اپنی شناخت اور تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ثقافتی مزاحمت قابض قوت کے اس منصوبے کو ناکام بناتی ہے جو فلسطینیوں کو ایک بے تاریخ اور بے شناخت ہجوم کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کربلا کے بعد اہل بیتؑ نے عزاداری کی روایت قائم کرکے یزیدیت کو نظریاتی طور پر ہمیشہ زندہ درگور کر دیا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ کربلا سے فلسطین کا رشتہ محض جذباتی یا علامتی نہیں، بلکہ یہ ایک گہرا فلسفیانہ، روحانی اور اسٹریٹجک تسلسل ہے۔ یہ اس عظیم انسانی داستان کا تسلسل ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو مظلوم کی استقامت، اس کا صبر اور اس کی قربانی ہی سب سے بڑا اور فیصلہ کن ہتھیار بن جاتی ہے۔ یہ جدوجہد ہمیں سکھاتی ہے کہ فتح کا مطلب ہمیشہ فوری طور پر میدان جنگ جیتنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنے اصول، اپنے نظریے اور اپنی اخلاقی برتری پر ثابت قدم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ فلسطینی عوام اپنے لہو سے اسی تاریخ کو دہرا رہے ہیں، اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حسینی فکر آج بھی زندہ ہے اور وقت کے ہر یزید کو بالآخر شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ استقامت و مزاحمت کی وہ لازوال داستان ہے جو اس وقت تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گی جب تک اس دنیا میں حق و باطل کی کشمکش باقی ہے۔
===================================================