Articles مضامین

مسلم راشٹریہ منچ، آر ایس ایس اور مسلمان

 تحریر ……..مطیع الرحمن عزیز

بھارت کی ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جو ہندوتوا کی بنیاد پر قائم ہے، نے مسلمانوں کو اپنے قومی دائرے میں شامل کرنے کی کوششوں کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اسی سلسلے میں مسلم راشٹریہ منچ کی بنیاد رکھی گئی، جو آر ایس ایس کی ایک معاون تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ منچ، جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کا دعویٰ کرتا ہے، آج 23 سال بعد بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں، جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کو اپنے تیسرے دور میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، تو آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک بار پھر مسلم راشٹریہ منچ کی طرف رجوع کیا۔ یہ تحریر اس منچ کی تاریخ، آر ایس ایس سے اس کے تعلق، اور مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، جو نہ صرف ایک تنظیم کی کہانی ہے بلکہ قومی اتحاد کی ایک پیچیدہ تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کی بنیاد 24 دسمبر 2002 کو نئی دہلی میں ایک چھوٹے سے اجلاس میں رکھی گئی تھی۔ یہ اجلاس صحافی مظفر حسین اور ان کی بیوی نفیسہ حسین کے گھر منعقد ہوا، جہاں آر ایس ایس کے اس وقت کے سرسنگھ چالک کے ایس سدرشن نے شرکت کی۔ 2002 کے گجرات فسادات کے فوراً بعد یہ قدم اٹھایا گیا، جو ہندو-مسلم تعلقات کے لیے ایک تلخ موڑ تھا۔ منچ کا مقصد واضح تھا: مسلمان کمیونٹی کو ہندووں کے قریب لانا، ان کی آر ایس ایس اور سنگھ پریوار (آر ایس ایس کی معاون تنظیمیں) کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنا، اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا۔
آر ایس ایس کے اقلیتی امور کے ذمہ دار اندریش کمار کو اس منچ کی نگرانی سونپی گئی۔ اندریش کمار، جو آر ایس ایس کے ایک سینئر پرچارک ہیں، نے گریش جویال کو ذمہ داری دی۔ ان دونوں نے قریبی مسلم افراد کو اکٹھا کیا اور ایک پلیٹ فارم تیار کیا جہاں مسلمان قوم پرستی کی بات کر سکیں۔ ابتدائی دنوں میں، جب تک کے ایس سدرشن سرسنگھ چالک رہے، آر ایس ایس کی مکمل حمایت ملی۔ منچ نے یوگا، گائیوں کی حفاظت، اور ہندو-مسلم اتحاد جیسے موضوعات پر کام شروع کیا۔ مثال کے طور پر، منچ نے دعویٰ کیا کہ "یوگا کوئی مذہبی عمل نہیں، نماز بھی ایک قسم کی یوگا آسنا ہے”۔ اس وقت تک، یہ آر ایس ایس کی ایک کوشش تھی کہ مسلمانوں کو یہ باور کروایا جائے کہ کانگریس نے ان کی قیادت کی، نہ کہ آر ایس ایس، اور مسلمان ہندوستان کے "حقیقی باشندے” ہیں۔ منچ کی بنیاد آر ایس ایس کی پالیسی کا حصہ تھی، جو 1975-77 کی ایمرجنسی کے دوران ہندو-مسلم جیلوں میں مشترکہ جدوجہد سے متاثر ہوئی تھی۔ اسکالر والٹر اینڈرسن جیسے مبصرین کے مطابق، یہ آر ایس ایس کی مسلم آوٹ ریچ کی ایک اہم کڑی تھی، جو 2002 میں گجرات فسادات کے بعد مزید واضح ہوئی۔ ابتدائی کامیابیوں کے باوجود، مسلم راشٹریہ منچ کو جلد ہی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب 2009 میں موہن بھاگوت سرسنگھ چالک بنے، تو فوکس تبدیل ہو گیا۔ 2014 میں بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد، منچ آر ایس ایس کی نظر سے دور ہونے لگا۔ بی جے پی کی ہندوتوا ایجنڈہ پر مبنی پالیسیاں – جیسے شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA)، این آر سی، اور بابری مسجد-رام مندر تنازع – نے مسلم کمیونٹی میں خوف پیدا کیا، اور آر ایس ایس نے منچ کو "خود مختار” چھوڑ دیا۔ اندریش کمار اور گریش جویال نے بزرگوں کی رہنمائی پر عمل کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی۔ منچ نے ملک بھر میں 2500 سے زائد یونٹس قائم کیے، جو 25 ریاستوں کے 400 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسلم کارکنوں کو قومی مفادات سے جوڑنے کی کوشش کی، جیسے 2016 میں پاکستانی سفارت کاروں کو افطار کی دعوت اور 2015 میں علما کانفرنس میں تشدد اور دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ۔


تاہم، بغیر مرکزی توجہ کے، منچ کی سرگرمیاں محدود رہیں، اور یہ آر ایس ایس کی "مسلم شاکھا” (مسلم برانچ) کی طرح نظر آئی، جو کھاد پانی تو ملتا رہا مگر پوری نشوونما نہ پائی۔ اس دور میں، منچ نے کئی متنازع مواقع پر آر ایس ایس کی حمایت کی، جیسے 2018 میں ایودھیا میں سریو کے پانی سے وضو اور نماز کا پروگرام، جو آر ایس ایس کی داخلی مخالفت کی وجہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ یہ تنہائی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک سبق تھی کہ قومی سطح کی تنظیمیں کس طرح سیاسی حالات کے تابع ہوتی ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کمزور کارکردگی اور اتحادیوں (جیسے این ڈی اے) کی مجبوریوں نے آر ایس ایس کو مسلم آوٹ ریچ کی طرف واپس دھکیل دیا۔ جب حکومت کو "این ٹی این کم بینسی” (NDA کی کمزوری) کا سامنا کرنا پڑا، تو موہن بھاگوت نے مسلم راشٹریہ منچ کو یاد کیا۔ بھاگوت، جو 2009 سے سرسنگھ چالک ہیں، نے میڈیا میٹس اور بیانات کے ذریعے منچ سے وابستگی ظاہر کی۔ مثال کے طور پر، 2021 میں ایک منچ یونٹ میں بھاگوت نے کہا کہ "تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے، عبادت کی بنیاد پر فرق نہیں کیا جا سکتا”، اور لنچنگ کو ہندوتوا کے خلاف قرار دیا۔
2025 میں، آر ایس ایس کی سینچری (100 سالہ جشن) کے موقع پر بھاگوت نے ہندو راشٹر، اکھنڈ بھارت، اور اقلیتوں کی آوٹ ریچ پر تفصیل سے بات کی۔ اس کے بعد، منچ کا ایک کل ہند اجلاس منعقد ہوا، جہاں ملک بھر سے میڈیا اور مسلم شخصیات نے شرکت کی۔ بھاگوت نے 2022 میں دہلی کی مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا، اور 2023-25 میں مسلم علما اور دانشوروں (جیسے نجیب جنگ، ایس وائی قریشی) سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں گیان واپی اور متھرا جیسے تنازعات پر بھی بات ہوئی، جہاں آر ایس ایس نے "برف پگھلانے” کی کوشش کی۔ حال ہی میں، جولائی 2025 میں ہریانہ بھون میں 50 سے زائد مسلم علما سے ملاقات میں بھاگوت نے کہا کہ "آر ایس ایس کسی مذہب کے خلاف نہیں، مسلمان بھی معزز شہری ہیں”۔ منچ نے وقف (ترمیمی) بل 2024 کی حمایت بھی کی، جو آر ایس ایس کی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کی یہ کہانی ملک کے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ آر ایس ایس کی جانب سے قائم مسلم شاکھا کو کبھی مکمل توجہ نہ ملی، مگر اس کے کارکنوں نے بغیر بڑوں کی حمایت کے کام جاری رکھا۔ جب ضرورت پڑی، تو اس کی بازآباد ہوئی – یہ "سست رفتار سے چلتے رہنا ہی زندگی ہے” کی مثال ہے۔ مسلم تنظیمیں، جو اکثر سیاسی دباو کا شکار ہوتی ہیں، اس سے بلا شخصی غرض و غایت کے مخلص طریقے سے کام کرنے کا سبق سیکھ سکتی ہیں۔ تاہم، تنقید بھی ہے۔ کئی مسلم دانشور، جیسے آکار پٹیل، کا کہنا ہے کہ یہ آوٹ ریچ "سیاسی” ہے اور لنچنگ یا نفرت انگیز بیانات پر خاموشی برقرار ہے۔ بھاگوت کی کوششوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، مگر ماہرین پوچھتے ہیں: کیا یہ مستقل ہو گی، یا صرف الیکشن ٹائم کی حکمت عملی؟ مسلم راشٹریہ منچ آر ایس ایس کی مسلم پالیسی کی عکاسی کرتا ہے – ہندو راشٹر میں سب کو جگہ، مگر ہندوتوا کی حدود میں۔ اندریش کمار اور موہن بھاگوت کی جدوجہد سے یہ واضح ہے کہ ہندو-مسلم اتحاد ممکن ہے، اگر بلا تعصب ہو۔ جیسا کہ بھاگوت نے کہا: "ہندوستان ہم سب کا ہے”۔ یہ منچ، تنہائی اور واپسی کی کہانی سنا کر، مسلمانوں کو اپنے میدان میں استقامت کی تلقین کرتا ہے – اور بھارت کو اتحاد کی یاد دلاتا ہے۔

Related posts

राजनीतिक विरोध में ऐसी भाषा अंदर से हिला देती है

Paigam Madre Watan

देश की इतनी चिंता करने वाला संगठन फासिस्ट नहीं हो सकता

Paigam Madre Watan

ओवेसी बंधु झूठे नाटककार और भावुकतावादी हैं

Paigam Madre Watan

Leave a Comment