نئی دہلی(پی ایم ڈبلیو نیوز)غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اردو کے ممتاز ادیب و نقاد اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کے اعزاز میں استقبالیہ جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے کی صدارت سابق نائب صدر جمہویہئ ہند عزت مآب جناب حامد انصاری نے فرمائی۔ اپنے صداتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ پروفیسر قدوائی کا خاندانی پس منظر بہت اعلیٰ ہے آپ کے خانوادے نے جد و جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ان کے خانوادے میں دانشوری کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ پروفیسر قدوائی نے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا اور ان کی شایان شان کتاب شائع کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر جناب سید شاہد مہدی نے اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے ادب کو دیکھنے کا جو زاویہ اختیار کیا اس کو کاپی نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا اسلوب نہایت منفرد و شفاف ہے۔ انھوں نے ہر زاویے اور نظریے کو اپنی شرطوں پر دیکھا اور قبول یا رد کیا ہے۔ پروفیسر ہربنس مکھیا نے اس جلسے میں بطور مہمان اعزازی شرکت فرمائی۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر قدوائی سے میرا پرانا تعلق ہے اور وہ ان لوگوں میں بالکل نہیں ہیں جو مصلحت کے حساب سے اپنے نظریات روز تبدیل کرتے ہیں۔ ان کی تنقید سماج اور انسانی تعلق کو واضح کرتی ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ قدوائی صاحب کی شخصیت ایسی ہے جسے علم نے حلم کی توفیق عطا کی ہے۔ انھوں نے علم کو اسلحہ بنایا، نہ اس کی تشہیر کی، نہ تحسین و توصیف کی کسی سے امید رکھی اور نہ انعام واکرام کے لیے کوشش کی۔ جو آپ ہی آپ ملا اس پرقانع ہی نہیں ہوئے بلکہ حیرت کا اظہار بھی کیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ پروفیسر قدوائی جتنے بڑے ادیب ہیں اس سے بڑے انسان ہیں۔ ہم سب کی خواہش تھی کہ ان کے لیے استقبالیہ کا اہتمام ہو لیکن وہ ہمیشہ اس سے بچنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہے کہ ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ مجھے صدیق الرحمٰن قدوائی صاحب کی شاگردی نصیب ہوئی۔ دوران تعلیم میں نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ ان چند اساتذہ میں ہیں جن کا ذہن مسائل کو لے کر صاف اورکشادہ ہے۔ انیسویں صدی کی تہذیبی اور سماجی زندگی کی باریکیوں کو انھوں نے جس انداز میں جذب کیا ہے اس کی مثال دور حاضر میں ملنا بہت دشوار ہے۔ پروفیسر سرور الہدیٰ صاحب نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ صدیق الرحمن قدوائی کی کتاب ’تاثر نہ کہ تنقید‘ ان کتابوں میں ہے جس نے میری ذہنی تربیت میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس کتاب میں ان کا درد یہ ہے کہ ادب کے مطالعے کا جو ایک فطری رجحان تھا وہ رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے اور ہم ادب کو پڑھنے سے قبل خود کو کسی نہ کسی نظریے کا پابند بنا دیتے ہیں۔ اس طرح فطری رد عمل سامنے نہیں آ پاتا۔ اس موقع پر عزت مآب جناب حامد انصاری کے دست مبارک سے کتاب ’پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی ادیب و دانشور‘ کی رسم رونمائی عمل میں آئی اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پروفیسر قدوائی کی خدمت میں سپاس نامہ، شال،مومنٹو اور پچاس ہزار کا چیک پیش کیا گیا۔
next post
Click to comment