تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی (سابق استاد جامعہ سلفیہ بنارس)
ماخوذ : رشحات قلم (مطبوع)
ابتدائے تدریس سے ہی میرا یہ طریقہ رہاہے کہ جس فن کی کتاب زیردرس ہوتی ہے اس کی شرح اگر دستیاب ہوتو اس کتاب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتاہوں اور زیر مطالعہ رکھتاہوں، کتابوں کا ترجمہ دیکھنے کی عادت نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس فن کی کچھ اور کتابیں بھی دیکھتا رہتا ہوں تاکہ نظر میں وسعت پیدا ہو، اگر اس فن میں کتابیں زیادہ ہوتی ہیں تو ہر نئے سال پر کچھ پرانی کتابیں اور کچھ نئی کتابیں دیکھتا ہوں۔ اگر درسی کتاب قواعد کی یا فنونیات کی ہو تو پہلے پڑھی جانے والی بحث کا خلاصہ بتاتاہوں کہ آج کے بحث میں یہ یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ یہی ہمیں آج پڑھناہے پھر کتاب کی مذکورہ عبارت کا ترجمہ وتفہیم کرنے کی کوشش کرتاہوں اگر وقت کچھ باقی ہے تو آخر میں ایک بار پھر خلاصۂ درس طلبہ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔د وسرے دن گذشتہ سبق کا خلاصہ طلبہ سے پوچھتا ہوں یا پھر میں ہی ایک بار پھر گذشتہ سبق کا خلاصہ پیش کردیتاہوں اور پھر آگے والے سبق میں بھی اسی طرح کرتاہوں، کاپی یا نوٹ بک بنانے کی عادت نہیں، ہمیشہ ہر سال کتاب دیکھنے کی عادت رہی اور ہر کتاب پر مطالعہ سے دل کی تسلی حاصل ہوتی تھی۔ وقت خواہ کتنا بھی لگ جائے۔ اپنی روز مرہ کی یہی عادت مستمرہ رہی۔ کبھی کبھار طلبہ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اب تک ہم نے کیا پڑھاہے۔ وقت کے حساب سے اگر طلبہ پورا بتالے جاتے ہیں تو میں ایک بار پھر اعادہ کردیتاہوں۔ اور ا گر طلبہ کے بتانے میں کچھ خامی ہوتی ہے تو پورا خلاصہ بتاکر ان کی خامی کی جگہوں کی تعیین کرتا ہوں۔
اگر درس ترجمہ قرآن یا تفسیر سے متعلق ہوتاہے تو کم ازکم متعینہ اجزاء میں مقررہ تفسیر کے علاوہ عربی اور اردوتفسیر میں سے تین کتابیں مزید زیر مطالعہ رکھتاہوں اس طرح نظرتفسیری نکات پر ہوجاتی ہے اور ہر سال الگ الگ تفسیریں زیرمطالعہ رکھتاہوں۔ اس طرح دستیاب تفسیروں پر تین چار سال میں نظر پڑجاتی ہے او رہر ایک کا منہج معلوم ہوجاتاہے ان کی خصوصیات اور مزایا پر بھی کچھ باتیں ذہن میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قرآن کے ترجمہ میں ترجمہ اور مختصر تفسیر وخلاصہ بیان کرنے کے علاوہ نحوی اور صرفی قواعد کا اجراء بھی کراتاہوں۔ پوچھتا بھی ہوں۔ اور صحیح جواب نہ ملنے کی صورت میں اپنی حد تک صحیح جواب کی طرف رہنمائی کرتا ہوں اس لیے کہ صرفی اور نحوی قواعد کا اجراء ادبی کتابوں میں ہوتاہے، اور سب سے اچھا اور اونچا ادب کلام الٰہی ہے۔
اگر زیر درس کتاب حدیث کی ہے تو اس میں بھی یہی حال میرا ہوتاہے کتاب جو بھی ہو ہر ایک شرح سے کچھ نہ کچھ مددملتی ہے۔ صحیح مسلم کے لیے شرح نووی اور دوسری حدیث کی کتابیں دیکھتا ہوں اس کے علاوہ شرح الابی شرح السنوسی، فتح المنعم، فتح الملہم، شرح النواب صدیق حسن خاں بھوپالی بھی نظر میں رہی ہے۔ دوسری کتابوں کی شرحیں بھی فائدہ دیتی ہیں اگر ان ساری کتابوں سے بات حل نہیں ہوتی تو پھر فتح الباری کام دیتی ہے بلکہ نووی کے ساتھ فتح الباری ایک طرح لازم ہے۔ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں فتح الباری سے بھی تشنگی نہیں بجھتی تو ’’مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‘‘ (علامہ محدث عبیداللہ مبارکپوری شیخ الحدیث) کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور ماشاء اللہ وہاں سے آسودگی ہوجاتی ہے۔ وہاں تمام ’’مالہ وماعلیہ‘‘ پر بحث موجود ہوتی ہے۔
میں نے حدیث وقرآن پرکچھ لکھا تو نہیں لیکن ہرسال تقریباً آدھے طلبہ صحیح مسلم کے مباحث کا درس نوٹ کرتے ہیں۔ بعض بعض طلبہ تو میرے درس کی لکھی ہوئی کاپیاں فوٹو کراکے بنگال وبہاراور یوپی کے مدارس کے اساتذہ میں پھیلا چکے ہیں۔ بعض شاگردوں کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ وہ سیکڑوں کاپیاں لوگوں میں تقسیم کرچکے ہیں۔ اس معاملہ میں دوآدمی بہت تیز ہیں۔ مولوی نورالہدیٰ سلفی (مفتی جامعہ سلفیہ بنارس، مولوی حافظ محفوظ الرحمٰن سلفی(جنرل لائبریرین مکتبہ جامعہ سلفیہ بنارس)اور اس سے قبل ترمذی میں بھی ایسا ہوا کرتا تھا۔
پہلے تو یہ تھا کہ کوئی طالب علم محبت میںدوچار درس صحیح مسلم اور فتح القدیر کا ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ ٹیپ کرکے محفوظ کرلیتا تھا۔ صحیح مسلم جلدثانی کے آخری درس میں تو دسیوں ٹیپ ریکارڈر میرے منع کرنے کے باوجودطلبہ درس ٹیپ کرنے کے لیے رکھے رہتے تھے مگر اب زمانہ بدل گیا موبائل کیا ایجادہوا کہ اس سے بہت سی آسانیوں کے ساتھ بہت سی پریشانیوں نے جنم لیا۔ آدمی کی لاعلمی میں بغیر کوئی مشین دیکھے جیب کے اندر موبائل آپ کی ہرقسم کی باتوں کو بہت آسانی کے ساتھ محفوظ کرلیتا ہے او رایک موبائل سے سینکڑوں موبائل میں خاموشی سے وہ تمام باتیں منتقل ہوجاتی ہیں کسی کو احساس تک نہیں ہوپاتا۔
گذشتہ سال ۲۰۱۲ء کے کسی مہینے میں جامعہ سلفیہ کے ۴؍طلبہ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ میں ہوا وہ سب وداعی ملاقات کرنے کی غرض سے میرے پاس میرے کمرے میں آئے۔ کچھ باتیں ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا کہ یوں تو سارے طلبہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے درس میں غیرحاضری نہ ہو لیکن کبھی کبھی کچھ ایسی مشکلیں سامنے آتی ہیں جس کی مجبوری میں آدمی کو سبق کا ناغہ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ اپنی معذوری سے ہوتاہے اور کبھی جامعہ کی طرف سے یا کسی استاذ کی طرف سے کوئی کام سپردکردیاجاتاہے۔ تو مجبوراً درس چھوڑنا پڑتاہے لیکن آپ کا درس چھوٹنے پر کچھ زیادہ رنج وغم کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ ہمیں اطمینان ہوتا ہے کہ آپ کادرس آپ ہی کی آواز میں حاضر درس ساتھیوں کے پاس موجود ہے ہم اسی سے بعد میں سن کر معلوم کرلیں گے کہ آپ نے آج کیاکیا باتیں بتائی ہیں میں نے ان سے سوال کیا: کیا میرا درس ٹیپ ہوتاہے تو ان لوگوں نے برجستہ اقرارکیا کہ ۴؍۵سال سے آپ کا صحیح مسلم اور فتح القدیر کا درس موبائل میں طلبہ ٹیپ کرتے ہیں جب ان طلبہ کا یہ بیان میں نے سنا تو بڑی حیرت ہوئی او رکسی حد تک طلبہ کی محبت اور انسیت کا اندازہ ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکراداکیا کہ اس نے میرے لیے طلبہ کے دلوں میں یہ عزت اور ہمدردی پیداکررکھی ہے۔ پھر میں نے ایک طالب علم کو جو مجھ سے زیادہ انسیت رکھتا تھا۔ اس کے حصول پر آمادہ کیا اور میموری والے اپنے موبائل میں فتح القدیر اور صحیح مسلم کے دروس ٹیپ کرائے تاکہ میری آواز اور میرے درس کا نمونہ کچھ میرے پاس بھی موجود رہے۔ او رمیرے بچے بھی اس کو سن سکیں۔
اب اگر کوئی باذوق اور محنتی آدمی ہو تو ان محفوظ دروس اور طلبہ کی تحریر کردہ کاپیوں کے ذریعہ ایک تفسیر کی کتاب یا ایک شرح صحیح مسلم جلد۲ تیار کرسکتاہے کیوں کہ بہت سارے لوگوں نے اپنے اساتذہ کے دروس اور افادات سے کتابیں تیار کی ہیں مگر اس میں محنت کی ضرورت ہے۔ متعدد سالوں کے دروس او رتحریرکردہ کاپیوں کو حاصل کرنا ، پھر ان سے مکررات کو حذف کرکے نکات ومسائل کا استخراج، پھر اس کو ترتیب دینا بڑی جدوجہد اور بڑی جانکاہی کا کام ہے اللہ تعالیٰ کسی صاحب ذوق کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین)
ابتدا ء سے اب تک کے تدریسی زمانہ میں کن کن کتابوں کو میں نے پڑھایاہے۔ یہ بڑی طویل او رمشکل بات ہوگی اس کا احصاء بہت مشکل کام ہے لیکن قرآن وحدیث کے مختلف مراحل کا تذکرہ میں مناسب سمجھتا ہوں اور یہی دونوں چیزیں زیادہ اہمیت کی حامل بھی ہیں۔